دینا کا ایک دکھ بھرا خوبصورت دن

2017 ,نومبر 19

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



فضل حسین اعوان۔۔۔نوائے وقت

چودھری پرویز الٰہی کے والد چودھری منظور الٰہی خالق حقیقی سے ملنے سے قبل طویل عرصہ کومے میں رہے۔ پرویز الٰہی روزانہ صبح ان کے کمرے میں جاتے جہاں مشینوں کے ذریعے ان کی سانسیں بحال رکھی گئی تھیں۔ وہ وہاں کچھ دیر حاضری سے اپنے دن کا آغاز کرتے۔ یہ باپ سے محبت اور فرمانبرداری کی عمدہ مثال تھی۔ مونس الٰہی اپنے والد کے اتنے ہی فرمانبردار ہیں چودھری شجاعت ظہور الٰہی پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء کا چودھری ظہور الٰہی کو عنایت کردہ قلم حرزِ جاں بنایا ہوا ہے جس قلم سے جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکمنامے پر دستخط کئے تھے۔

اسفند یار ولی اپنے والد کے اثاثے کے ان سے بھی بڑھ کر نگہبان نکلے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت، افغانی ہونے پر فخر، کے پی کے اور افغانستان کے درمیان سرحدی دیوار گرانے اور لکیر مٹانے کو والد کا ادھورا مشن سمجھ کر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ آصف علی زرداری کی اپنے والد سے محبت اور ان کے بزنس کو منتہائے مقام تک لے جانا انہی کا کارنامہ اور کمال ہے۔ بینظیر بھٹو نے بھی اپنے والد سے محبت اور ان کے مشن کی تکمیل کا اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر حق ادا کر دیا۔ جنرل مشرف کی والدہ سے محبت کے قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ میاں نواز شریف کی اپنی والدہ اور والد سے محبت عقیدت تک پہنچی ہوئی ہے۔ 90ء کی دہائی میں نواز شریف دو بار وزیراعظم بنے اور اس دور میں کہا جاتا تھا کہ اگر میاں شریف کہہ دیں کہ استعفیٰ دیدو تو میاں نواز شریف ایک لمحے سے قبل حکم کی تعمیل کر دیں گے۔ مریم نواز اور ان کے بھائی حسین اور حسن نواز اپنے والدین سے اتنی ہی محبت کرتے اور عقیدت رکھتے ہیں جتنی نواز شریف کی اپنے والدین کے لئے رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اور بھی والدین کی انتہائی فرمانبردار اولادیں موجود ہیں۔ 

قائداعظم محمد علی جناح اپنے والدین کے فرمانبردار رہے مگر ان کی بیٹی دینا نے قائداعظم کی مرضی و منشاء کے برعکس اپنی پسند کی شادی کی۔ قائداعظم نے اپنے لخت جگر کے اس فیصلے کو اکلوتی اور لاڈلی اولاد بیٹی ہونے کے باوجود کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دینا واڈیا 98 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں جو بہت سے اوصاف سے متصف تھیں مگر دیناکی کہانی سے قبل ان کی والدہ مریم جناح کا تذکرہ ضروری ہے ۔نکاح سے قبل ان کا نام رتن بائی تھا۔

قائداعظم محمد علی جناح رتن کے والد سر ڈنشا پیٹٹ کے دوستوں میں سے تھے۔ممبئی کے رئیس پارسیوں میں اہمیت کے حامل ڈن شاپٹیٹ کی اکلوتی اور حسین بیٹی رتن بائی کو انگریزی شعرو ادب سے گہرا شغف تھا۔ ڈن شا کے مالا بار ہل پر واقع شاندار بنگلے پرقوم پرست ہندوستانی لیڈروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان میں بیرسٹر محمد علی جناح بھی تھے۔سترہ سالہ رتن کو جنہیں گھر کے لوگ پیار سے رتی کہہ کر پکارتے تھے۔لمبے قد کے صاف رنگت والے چھریرے جسم کے سوٹڈ بوٹڈ جناح کی پر مغز بحثوں نے اتنا متاثر کیا کہ وہ انہیں پسند کرنے لگیں۔ جناح کو چھوئی موئی سی رتی پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی۔ان کی شخصیت نے رتن عرف رتی کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی دوستی قربت اور پھر قربت محبت میں بدل گئی۔ 1917ء کی ایک شام جب قوم پرستی پر گفتگو کے دوران رتن کے والد ڈن شا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ جب تک ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی تب تک فسادات ہوتے رہیں گے اس لئے بین المذاہب شادیاں ہونی چاہئیں۔

عمر کی چالیس منزل پار کر چکے جناح کو ڈن شا کے اس خیال نے حوصلہ دیا اور انہوں نے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا۔بس پھر کیا تھا ، آتش پرست ڈن شا پیٹیٹ کا خون کھول اٹھا اور وہ رات ایک تلخ یاد میں بدل گئی۔ ڈن شا نے رتی کے جناح سے ملنے جلنے پر پابندی لگادی تو جناح نے عدالت کے دروازے پر دستک دی۔

عدالت نے رتن کے بالغ ہونے تک اس سے ملاقات پر پابندی لگادی لیکن اس فیصلہ میں یہ کہہ دیا کہ بالغ ہونے کے بعد رتی اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی مختار ہوگی۔جناح نے بھی تقریبا ایک سال تک صبر و سکون کے ساتھ انتظار کیا اس دوران جناح اور رتی کے بیچ پل کا کام جناح کے دوست اور سکریٹری کانجی دوارکا داس کرتے رہے۔ 20 فروری 1918ء کو پیٹیٹ خاندان میں رتن کی اٹھارہویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں چل رہی تھیں کہ اسی دن رتی خاموشی سے اپنے گھر کو چھوڑ کر جناح کے گھر چلی آئیں۔ ڈن شا اپنی بیٹی کی ضدی طبیعت سے تو واقف تھے لیکن انہیں اس سے اتنا بڑا قدم اٹھانے کی توقع نہ تھی۔ بیٹی کی بغاوت پر برہم ڈن شانے مقامی اخبارات میں اپنی اکلوتی بیٹی کی موت کی خبر شائع کرادی۔ اس کے بعد ڈن شا نے رتی کی موت تک کوئی رشتہ نہیں رکھا۔

18 اپریل 1918ء کو رتی نے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا، اگلے دن وہ قائداعظم محمد علی جناح کے عقد میں آگئیں۔ ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔ 19 اپریل 1918ء کے روزنامہ اسٹیٹ مین میں رتی کے قبول اسلام کی خبر کے ساتھ جناح سے ان کے نکاح کی خبر شائع ہوئی۔

جناح اور مریم کی محبت کی نشانی ان کی اکلوتی بیٹی 14 اگست 1919ء کو پیدا ہوئی اور 28 سال بعد ٹھیک اسی تاریخ کو پاکستان کا جنم ہوا تھا۔ جناح ایک کامیاب وکیل ہی نہیں کانگریس کے سرکردہ لیڈر بھی تھے اور ان کا زیادہ وقت وکالت کے علاوہ سیاسی سماجی مصروفیات میں گزرتا تھا۔بے حد نازک مزاج اور شعر و ادب کی دلدادہ لڑکی نے اسے شایدجناح کی بے التفاتی تصور کیا۔شادی کے دس سال بعد تو مریم نے جناح سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور وہ تاج محل ہوٹل میں ایک سویٹ بک کرکے وہاں مستقل سکونت کے لئے منتقل ہو گئیں۔ تنہائی اور فکر ان کے جسم و جاں کا آزار بن گئے۔ انہیں آنتوں میں سوزش اور پھر ٹی بی ہو گئی۔ رتی کی ماں نے ان کا علاج یورپ لے جا کر کرایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی غرض کہ رتی نے جس مہینے اور جس تاریخ کو جنم لیا تھا اسی مہینے اسی تاریخ کو وہ موت سے ہم آغوش ہو ئیں۔

ملک کے سب سے مہنگے وکیل اور کانگریس کے سب سے اہم قائد کی نازک اندام بیوی نے جس وقت دم توڑا اس وقت جناح ان کے قریب نہیں تھے۔بتایا جاتا ہے کہ ان کی موت کے بعد جناح جب بھی ممبئی میں ہوتے تو وہ ہر جمعرات کو اپنی بیوی کی قبر پر حاضر ہوتے تھے۔پہلی مرتبہ قائد اہلیہ کی قبر پر گئے تو زار و قطار رو دیئے، ان کو اس طرح روتے کبھی پہلے دیکھا گیا نہ بعد میں۔مریم کاجناح کے نام آخری خط ایک یادگاراور امر بن گیا:

’’پیارے ! تم نے (میرے لیے) جوکچھ کیا، اس کا شکریہ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کی غیر معمولی حِسّوں نے میرے رویّے میں اشتعال انگیزی یا بے رحمی پائی ہو۔ آپ یقین رکھیں کہ میرے دل میں صرف شدید محبت اور انتہائی درد ہی موجود ہے… پیارے ایسا درد جو مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ دراصل جب کوئی حقیقت زندگی کے قریب ہو (اور جو بہرحال موت ہے) جیسے کہ میں پہنچ چکی، تو تب انسان (اپنی زندگی) کے خوش کن اور مہربان لمحے ہی یاد رکھتا ہے، بقیہ لمحات موہومیت کی چھپی، اَن چھپی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کوشش کرکے مجھے ایسے پھول کی حیثیت سے یاد رکھنا جو تم نے شاخ سے توڑا، ویسا نہیں جو جوتے تلے کچل دیا جائے۔

’’پیارے! (شاید) میں نے زیادہ تکالیف اس لیے اٹھائیں کہ میں نے پیار بھی ٹوٹ کر کیا۔ میرے غم و اندوہ کی پیمائش (اسی لیے) میرے پیار کی شدت کے حساب سے ہونی چاہیے۔ ’’پیارے! میں تم سے محبت کرتی ہوں… مجھے تم سے پیار ہے… اور اگر میں تم سے تھوڑا سا بھی کم پیار کرتی، تو شاید تمھارے ساتھ ہی رہتی…جب کوئی خوبصورت شگوفہ تخلیق کرلے، تو وہ اسے کبھی دلدل میں نہیں پھینکتا۔ انسان اپنے آئیڈیل کا معیار جتنا بلند کرے، وہ اتنا ہی زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ’’میرے پیارے! میں نے اتنی شدت سے تم سے محبت کی ہے کہ کم ہی مردوں کو ایسا پیار ملا ہوگا۔ میری تم سے صرف یہی التجا ہے کہ (ہماری) محبت میں جس اَلم نے جنم لیا، وہ اسی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے۔

 

قائداعظم ؒ اپنی مصروفیات کے باعث بیوی اور بیٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔ مریم جناح 1929ءمیں صرف 29 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اس وقت قائداعظمؒ کی بیٹی دینا جناح کی عمر صرف دس سال تھی۔جس کا 2نومبر2017ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا۔ قائداعظمؒ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ دینا کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ دینا کو قرآن پڑھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ دینا کوماں کی موت کے بعد باپ کے پیار اور توجہ کی شدید ضرورت تھی۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ تھی جس کے پلیٹ فارم سے قائداعظمؒ تحریک پاکستان کو آگے بڑھا رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگیں۔ لہٰذا دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے زیادہ قریب ہو گئیں۔پھر وہ وقت آیا جب قائداعظمؒ کو پتہ چلا کہ ان کی بیٹی ایک پارسی نوجوان نیول واڈیا کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں۔

قائداعظم نے اپنی بیٹی کو ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے سے روکا۔ اس موضوع پر باپ بیٹی کے درمیان ایک مکالمہ تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہے۔ قائداعظم نے اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں پڑھے لکھے مسلمان لڑکے ہیں تم ان میں سے کسی بھی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ جواب میں بیٹی نے باپ سے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں خوبصورت مسلمان لڑکیاں تھی لیکن آپ نے ایک پارسی لڑکی سے شادی کیوں کی؟ قائداعظم نے جواب میں کہا کہ پیاری بیٹی تمہاری ماں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن بیٹی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ قائداعظم جن کی آنکھ کے ایک اشارے پر کروڑوں مسلمان اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار تھے وہ اپنی بیٹی کے اصرار کے سامنے بے بس ہو گئے۔ بیٹی نے باپ کی مرضی کے بر عکس شادی کر لی۔قائداعظم شادی میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ بیٹی سے سخت ناراض تھے۔ انہوں نے بیٹی سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ بیٹی کی طرف سے کبھی سالگرہ پر مبارکبادکا کارڈ آتا تو قائداعظم جواب میں لکھ بھیجتے کہ ”مسز واڈیا آپ کا بہت شکریہ“۔ قائداعظم کے کچھ مخالفین نے کوشش کی کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جس شخص کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے؟۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظم کے ساتھ کھڑی رہی۔

دینا11 ستمبر 1948ءکو اپنے والد کے انتقال کے موقع پر کراچی پہنچی تھیں اور کچھ وقت اپنی پھوپھو محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس لوٹ گئی تھیں۔ دینا دوسری مرتبہ 2004ءمیں اس وقت پاکستان آئیں جب بھارتی کرکٹ ٹیم چودہ سال بعد پاکستان آئی، اس سیریز کے دوران بھارت سے آنیوالی شخصیات میں دینا واڈیا بھی شامل تھیں۔ یہ میچ لاہور میں ہوا تھا۔کچھ عرصہ قبل دینا نے ممبئی کے جناح ہاﺅس کی ملکیت کیلئے ممبئی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کہا کہ جس گھر میں وہ پیدا ہوئیں اس گھر میں زندگی کے آخری دن گزارنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی تو حکومت پاکستان سے کچھ بھی لے سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے عظیم باپ کی زندگی میں ایک دفعہ نافرمانی ضرور کی لیکن کبھی اپنے باپ کے نام پر کوئی مالی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔قائداعظم کو بیٹی کی نافرمانی کا بہت دکھ تھا مگر اس پر بھی ان کے رویے میں اعتدال نظر آتا ہے۔ انہوں نے ڈنشاءکی طرح شدت پسندی کا مظاہرہ کیا نہ ہی بیٹی کی اس سرکشی کو نظر انداز کیا۔ان سے ایک مناسب فاصلہ اختیار کرلیا مگر انہیں عاق نہیں کیا۔دینا کے ناپسندیدہ اوردل شکن رویے سے قائد کو یقینا صدمہ ہوا مگر قائد کی سیاست اور قیام پاکستان کی جدوجہد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

دینا میچ کیلئے لاہور آئیں مگر باقی شخصیات کیساتھ وہاں سے واپس نہیں گئیں۔ ان کے جذبات نے انہیں پاکستان آ کر باپ کے مزار پر حاضری دیئے بغیر واپس نہیں جانے دیا۔ وہ کراچی گئیں اور مزار پر حاضری دی جہاں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔اس موقع پر لی گئی تصویر میں دینا واڈیا روتے ہوئے مزار قائد سے واپس جا رہی ہیں۔یہ ایک منفرد جذباتی منظر ہو گا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصے کے بعد پہلی بار ایک بیٹی اپنے باپ کے مزار پر آئی ہو۔ اس باپ کے مزار پر جسے اس نے باپ کی زندگی کے آخری برسوں میں دیکھا ہو گا نہ ملی ہو گی۔ دینا واڈیا نے اپنے باپ کے مزار پر حاضری کو ایک قطعی نجی مصروفیت رکھاتھا۔ اس باپ کے مزار پر جسے دنیا قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے حکام سے اس خواہش کا اظہار اصرار کی حد تک کیاکہ ان کی حاضری کے وقت مزار پر کوئی فوٹو گرافر موجود نہیں ہونا چاہئے ورنہ وہ واپس چلی جائیں گی۔ مزار پر وزیٹر بک میں انہوں نے جو جذبات ظاہر کئے گو مختصرہیں مگر جامع تھے ۔انہوں نے وزیٹر بک پر ایک جملہ یوں لکھا۔

یہ میرے لئے ایک دکھ بھرا شاندار دن ہے۔ ان کے خواب کو پورا کیجئے۔

دینا واڈیا نے قائد کی شیروانی بھی دیکھی اور کہا کہ وہ اس کے درزی کو جانتی تھیں۔ واقفیت کا یہ اظہار گزرے، بیتے دنوں کی یاد کا عکس ہے جو ہمیشہ دینا کے ساتھ رہا ہو گا، رہتا ہوگا۔وہ باپ کی زندگی میں ان سے الگ ہوئیں اور تقریباً ساٹھ سال بعد ان کے مزار پر حاضر ہوئیں ان کی جذباتی کیفیت کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اسے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ دیکھا نہیں جا سکتا۔ باپ کی محبت انہیں فلیگ سٹاف ہاﺅس لے گئی جہاں انہوں نے قائداعظم کے نوادرات دیکھے۔ موہٹہ پیلس گئیں جہاں کبھی ان کی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح رہتی تھیں اور وہ وزیر مینشن گئیں جہاں ان کے والد پیدا ہوئے تھے۔اس دورے کے دوران دینا واڈیا کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی گئی تو دینا واڈیا نے جواب دیا کہ میں محمد علی جناح کی بیٹی ضرور ہوں اور اپنے باپ سے آج بھی محبت کرتی ہوں اس لئے اپنے بیٹے سنی واڈیا اور پوتوں کے ساتھ اپنے باپ کے خواب پاکستان کو دیکھنے آئی ہوں لیکن میں اپنے باپ کے نام سے شہرت نہیں کمانا چاہتی۔

دینا واڈیا کی نافرمانی افسوسناک ہے، جس سے پاکستان کو کیا نقصان پہنچا؟ کوئی نہیں‘ قطعاً نہیں۔ مگر آج پاکستان 14ہزار8سو ارب روپے کا مقروض ہے، صدر پاکستان ممنون حسین کہتے ہیں، عوام حکمرانوں سے پوچھیں چار سال میں کوئی ہسپتال بنا نہ ڈیم، اتنا قرضہ کہاں گیا؟ جن لوگوں کی والدین سے فرمانبرداری کا تذکرہ کالم شروع میں کیا۔ پاکستان پر قرض اس حد تک پہنچنے میں کہیں نہ کہیںان کا نام ضرور آتا ہے۔

متعلقہ خبریں