2017 ,اپریل 19
دنیا جدید ٹیکنالوجی سے گلوبل ویلج بن گئی۔ برسوں میں طے ہونے والے فاصلے گھنٹوں میں طے کر لئے جاتے ہیں۔ بیرونی دوروں اور ملاقاتوں کی پہلے کی طرح ضرورت نہیں رہی۔ لوگ دفاتر میں ملازمت کرتے ہیں مگر دفتر جانے کی ضرورت نہیں ۔ آن لائن کام ہے تنخواہ بھی ایک کلک پر ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھے کولیگ کے ساتھ رابطہ اور ورکنگ ریلیشن شپ ایسے کہ وہ محض پسِ سکرین ہے۔ سوفٹ ویئر انڈسٹری میں یہ چلن عام ہے۔ ایک کمپیوٹرانجینئر اپنے انگریز مسلمان کولیگ کے بارے میں بتا رہا تھا۔ انگریز نے پوچھا کل چھٹی کیوں کر رہے ہو؟ بتایا کہ شب برات ہے۔ اس نے استفسار کیا کہ آپ شب برات کیسے مناتے ہیں؟ ایسا سوال ہمارے سامنے ہو تو سوچنا پڑتا ہے کیا جواب دیا جائے۔ دن کو پکنک ، رات کو آتش بازی اور مذہبی رجحان ہے تو ختم درود کا اہتمام کر لیا جاتا ہے۔ انگریز سے پوچھا آپ کیسے شب برات مناتے ہیں۔ اس نے کہا دن میں روزہ رکھتا ہوں، آفس ورک روٹین ہے اور رات کو نماز اور نوافل ادا کرتا ہوں۔
انگریز مسلمان نے ایک اور حیران کن بات کی۔ اس نے اپنی بیٹی کو آٹھ سال کی عمر میں سکول داخل کرایا۔ اڑھائی تین سال کی عمر میں بچے سیکھنے اور پڑھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔عموماً والدین تین سال کی عمر میں بچے بچیوں کو سکول بھجوانے لگتے ہیں ۔ اس مسلمان نے آٹھ سال کی عمر میں بچی کو داخل کرایا۔ وہ کہتے کہ اس دوران اسے بنیادی اسلامی عقائد اور شعائر سے آگاہ کیا گیا۔ کلمہ ، نماز اور دعائیں سکھائی گئیں قرآن قرأت کے ساتھ پڑھایا گیا۔ آٹھ سال کی عمر تک وہ اپنے ایمان اور عقیدے سے آگاہ ہو چکی تھی۔ گھر کی تدریس ساری زندگی اس کے کام آئے گی۔ سکول میں وہی سیکھے گی جو اسے سکھایا جاتا ہے۔ وہ سب کچھ یقیناً منفی نہیں ہے مگر دین کی تعلیم اس طرح نہیں دی جاتی جو ایک مسلم بچے کے لئے ضروری ہے۔ اس دوران بچے میں اگر کوئی اور رجحان پرورش پانے لگے تو نتائج بھیانک بھی نکل سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال جامشورو کی نورین لغاری ہے۔ 15 سال کی عمر میں اس کے اندر مجاہدہ اسلام بننے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ یہی عمر ترغیب کے لئے زرخیز ہوتی ہے۔ اسی عمر میں عموماً بچوں کو خود کش بمبار بنایا جاتا ہے۔ ان کو جنت کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ابن سباح تو جنت اور حوروں کو ایسے نوجوان کو حقیقت کے روپ میں دکھا دیتا تھا اس نے وسیع و عریض خطے میں باغات لگا کر جنت بنا رکھی تھی۔
نورین کو نجانے کیا ترغیب و تحریص دی گئی کہ وہ داعش جیسی سفاک تنظیم کی تعلیمات سے متاثر ہو کر جہاد کے لئے شام پہنچ گئی۔ اس نے دو ماہ شام میں گزارے۔ گزشتہ دنوں لاہور سے ساتھیوں سمیت پکڑی گئی ۔نورین لغاری لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز جامشورو سے رواں سال 10 فروری کو لاپتہ ہوئی۔وہ سندھ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایم اے قاضی انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار لغاری کی بیٹی ہے۔ انکے والد نے 26 مارچ کو حیدرآباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا نورین انتہا پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھیں یا ان سے مرعوب تھیں تو پروفیسر لغاری نے جواب میں کہا تھا کہ ایسا ہرگز نہیں۔ بیٹی کے بارے میں انہیں علم ہے کہ اسکے کسی کے ساتھ روابط نہیں تھے۔’نماز پڑھنے کی وجہ سے کوئی انتہا پسند نہیں ہوجاتا۔ پروفیسر لغاری نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔داعش کو ظالم سفاک کفر و اتحاد اور گستاخ کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ مسجد نبوی کے سائے میں بم چلا کر اس نے اپنے حامیوں کو شرمندہ کر دیا۔ اس کے بعد سے اس کے عروج کو زوال شروع ہو گیا عراق کے مقبوضات اس سے چھینے جا چکے ہیں شام میں اس کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں اس کے کارندے مارے جا رہے ہیں اور بقیۃ البارود بھاگ رہے ہیں۔ ایسے گستاخوں کی یہی سزا ہے۔ گستاخ اللہ اور مسلمانوں کے غضب سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مگر کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ خود سے کسی کو گستاخ قرار دے کر اسے سزا دینے پر تل جائے۔ تاہم کسی کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ دریدہ دہنی سے نبی کریمؐ کے بارے میں کچھ کہے جس سے ایسے لوگوں کی دل آزاری ہو جن کے لئے خاتم النبین سے والدین، اولاد اور دنیا کسی بھی چیز سے بڑھ کر محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس ارشاد نبویؐ میں گستاخ کی سزا اور قانون کو ہاتھ میں لینے نہ لینے کا فلسفہ موجود ہے۔
ولی خان یونیورسٹی میں طالب علم کو گستاخی کے الزام میں ہجوم نے قتل کر دیا۔ اس پر دورائے سامنے آ رہی ہیں۔ دو مؤقف اختیار کئے گئے ہیں۔ گینڈے، گدھے اور بھینسے وغیرہ کے نام پر بنے فیس بک اکائونٹ میں جو کچھ کہا گیا ،اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت صدیقی فرطِ جذبات اور حب رسولؐ میں رو دیئے۔ ان کے گستاخان کے بارے میں ریمارکس عاشقان مصطفیٰ کو ازبر اور ان کے جذبہ ایمان کو تازہ کر دینے والے ہیں۔
مشعل کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ نعش پر سنگ باری کی گئی۔ ایسا کیوں ہوا اس کی انکوائری ہو رہی ہے۔ قبر کی مٹی خشک ہو گئی تو وزیراعظم بول پڑے سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا۔ سول سوسائٹی چینلز پر نمودار ہو گئی۔ بلاشبہ ایک جیتے جاگتے انسان کو بلا تحقیق بہیمانہ تشدد کر کے مار دینا دہشت گردی ہے۔ اس پر ایک طبقہ سراپا سیاپا ہے۔ مشعل کی بہنیں اور بھائی اسے راسخ العقیدہ مسلمان قرار دیتے ہیں۔ ایسا تھا تو اس کے قتل کو ظلم کی انتہا اور بدترین دہشتگردی قرار دیا جانا چاہئے۔ یہاں دوسرے نکتہ نظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے مشعل اور اس کے دوستوں کے ابلاغ کے بارے میں کافی کچھ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ رسول اللہ کو گالیاں دیتے۔ کبھی قرآن کی تکذیب کرتے اگر اس میں صداقت ہے تو پھر یہ اقدام بھی دہشتگردی سے کم نہیں۔مذہب کے بارے میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے، دانستہ گستاخی کی صورت میں معافی کی گنجائش نہیں ۔ بات، پوسٹ یا بحث کرتے ہوئے زبان سے رسولِ خدا کی محبت کے زمزمے سے رواں ہونے چاہئیں۔ محبانِ رسول تو شائستہ لودھی اور جنید جمشید کی طرف سے نادانستگی میں سخن طرازی کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ چہ جائیکہ کوئی دانستہ زبان درازی کرے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کا کسی کو اختیار نہیں اسی طرح سر عام زبان کو بے لگام چھوڑ دینا بھی روا نہیں۔ عائشہ بی بی زبان طرازی کی وجہ سے پھانسی کی کوٹھڑی میں بند ہے ایک گورنر اس نے مروا دیا۔
مشعل کا معاملہ کور ٹ میں ہے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔ یہ جواب بھی مل جائے گا کہ اس پر اور ساتھیوں پر یونیورسٹی میں داخلہ کیوں بند تھا۔ اس وقت تک فریقین اپنی بندوقیں نیچے کرلیں۔