2017 ,اپریل 16
خلافتِ عثمانیہ کا سورج 1299ء میں طلوع ہو کر 1922ء کو غروب ہو گیا۔سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے 16 ویں اور 17 ویں صدی میں تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ سلطنت عثمانیہ کو اپنے دور میں سپر پاور کی حیثیت حاصل تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کی شکست عرب بغاوت سب سے بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔ عرب بغاوت کی ان مہمات کا آغاز شریف مکہ حسین کی جانب سے برطانیہ کی مدد سے جون 1916ء میں جنگ مکہ سے اور اس کا اختتام دمشق میں عثمانیوں کے اسلحہ پھینک دینے کے ساتھ ہوتا ہے۔ جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا اور معاہدہ سیورے کے ذریعے 1922کو مکمل ہوا۔اس معاہدے کے تحت مشرق وسطیٰ میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس ،روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔
برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری سے فرانس کے ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا ۔یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا آخری سلطان محمد ششم وحید الدین 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے۔ چند ماہ بعد خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلیٰ نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص 40 بنتی ہے۔
مسلمانوں کے دل پر زخم لگانے اور جسم پر تازیانے برسانے کیلئے سامراجیت نے جاسوسی کو ذریعہ بنایا۔پاکستان بن گیا اس کو توڑنے کی ابتدا بھارت نے اس کے قیام کے ساتھ ہی کردی تھی ،کلبھوشن تو آج پکڑا گیا،اس کے ایجنٹ مجیب کی شکل میں پاکستان بننے کے ساتھ ہی تیارکرلئے گئے تھے۔جاسوسی کی تاریخ میںہمفرے اورکرنل تھامس لارنس بڑے نام ہیں۔ان دو نے اسلامی تاریخ اور جغرافیہ دونوں بدل کے رکھ دیئے۔ہمفرے نے لارنس سے پہلے خلافت عثمانیہ کو توڑنے کی راہ ہموار کردی تھی۔ہمفرے نے ایک مسلمان کا روپ دھارا، اپنی جاسوسی کی ابتداء ترکی سے کی جس کے بعد وہ عربستان (موجودہ سعودی عرب) چلا گیا جہاں اس نے اسلام میں رخنے پیدا کرنے اور ترکوں کی خلافت کے خلاف عربوں کو ہموار کرنے اور بغاوت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ہمفرے نے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں۔پہلے پہل یہ یادداشتیں قسط وار جرمنی کے مشہور اخبار شپیگل (Spiegel)،بعد میں یہ فرانسیسی اخبار لی موند میں شائع ہوئیں جہاں سے لبنان کے ایک مترجم نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا۔ کافی عرصہ بعد اس کا انگریزی ترجمہ بعنوان ایک برطانوی جاسوس(ہمفرے) کے اعترافات اور برطانیہ کی اسلام دشمنی ،ہزمت بکس نے برطانیہ سے شائع کیا۔ ہیمفرے برطانیہ کی وزارتِ نوآبادیات کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے زیرِ نگین علاقوں میں آیا۔ اس کا کام دو برطانوی مقاصد کو حاصل کرنا تھا۔ موجودہ نوآبادیات میں برطانوی قبضہ کو مستحکم کرنا اور دوم نئی نوآبادیات بنانا خصوصاً اسلامی ریاستوں پر قابض ہونا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمفرے نے بظاہر اسلام قبول کیا اور ترکی میں رہائش رکھی۔ وہاں اس نے ترکی میں رہائش پذیر عربوں میں ترکوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کیا۔ یہ دور اٹھارویں صدی کا ابتدائی زمانہ ہے۔ خود ہمفرے کے الفاظ میں وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اسلامی دنیا میں اس جیسے 5000 برطانوی جاسوس بھیجے گئے تھے جنہیں عربی و ترکی زبانوں کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ اولاً ان افراد کو 1710ء میں بھیجا گیا تھا۔ 1720ء اور 1730ء کی دہائی میں ہمفرے نے اپنا کام جاری رکھا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق اس نے ایک انقلابی مسلمان کے طور پر محمدبن عبدالوہاب کے ساتھ تعلقات بڑھائے اور اسے شیشے میں اتارا۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس نے محمدبن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی۔ اس نے عرب سرداروں اور دیگر اہم افراد کے ساتھ بھی تعلقات بڑھائے۔ اس نے دو لاکھ برطانوی پونڈ فی مہینہ تک عربوں میں بانٹے۔بھارت بھی پاکستان کو برباد کرنے لئے پانی کی طرح پیسہ بہاتا ہے۔ ہمفرے نے 11 تربیت یافتہ برطانوی افراد جو صحرائی جنگ کے ماہر تھے، غلاموں کے روپ میں عربوں کو پیش کئے تاکہ وہ ترکوں کے خلاف کام آ سکیں۔اب برطانیہ کو شاید اس سطح پر جاسوسی کی ضرورت نہیں رہی۔یہ کام آج امریکہ اور اسرائیل کرتے ہیں۔کوئی پتا نہیں کہ ان کے جاسوس اور ایجنٹ کس ملک میں کہاں تک سرایت کرچکے ہیں،بعید نہیں کہ ان کے نمک خوار کس کس ملک کی زمامِ اقتدار بھی تھامے ہوئے ہوں۔ جاسوسی ہر ملک اپنے مقصد اور کائونٹر کاز کیلئے کرتا ہے۔بھارت خطے میں اس معاملے میں شاید سب سے آگے اور بہت آگے ہے۔اس نے پاکستان کی ایک بار تو تاریخ اور جغرافیہ بدل کے رکھ دیا۔وہ اب بھی بقیہ پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔وہ پاکستان کے جغرافیے کو تہس نہس کرنا اوراسے تاریخ کی گرد میں چھپا دینا چاہتاہے۔اس کو پاکستان میں الطاف‘ اچکزئی اور جبوں والے کئی ابن ِوہاب مل گئے،اس کے کئی ہمفرے اور لارنس پاکستان میں بروئے عمل ہیں۔جو کئی بار پکڑے گئے اور رہا کردیئے گئے۔کیونکہ اس کے ایجنٹ اقتدارکی غلام گردشوں میں سرگرم وسرگرداں ہیں۔کلبھوشن اب تک پکڑے جانیوالے جاسوسوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہے جس کی رہائی کیلئے بھارت نے آخری اور کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان میں ایک لابی اس کی حمایت میں سرگرم ہے۔ہمارے پاس تو کلبھوشن ہے ہی نہیں،مبارک حسین پٹیل ہے۔ فوج کا حاضر سروس اہلکار دوسرے ملک میں نام بدل کر نہیں جاتا۔سشما سوراج کہتی ہیں،کلبھوشن انڈیا کا بیٹاہے۔یقیناً وہ انڈیا کا ہیرو ہے جبکہ ہمارے لئے بدترین دہشتگرد،ہم اسے اپنے مطابق انجام تک پہنچائیں گے بھارت اسے اپنے مطابق اعزازات اور انعامات سے بعد از مرگ نوازے،ہاں اس کو زندہ بھی بھارت لے جا سکتا ہے،جس طرح کلبھوشن بھارت کا بیٹا ہے اسی طرح کشمیری بھی پاکستان کے فرزند ہیں،بھارت کشمیریوں کو آزادی دیدے کلبھوشن کو آزاد کرالے۔اس طریقے سے ہی سہی مسئلہ کشمیر حل ہوجاتاہے تو پاکستان بھارت کئی تنازعات ختم ہوجائیں گے۔مکار ہندو سے پھر بھی بھلائی کی امیدنہیں تاہم اسے آج کی طرح پاکستان میں ہمفرے، لارنس،کشمیر سنگھ اور کلبھوشن پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔بھارت اگر اس طرف نہیں آتا توپٹیل کاانجام وہی ہونا چاہیے جو شام کے صدر امین الحافظ نے اسرائیل جاسوس ایلی کوہن کا کیا تھا،تمام تر دبائو اورترغیبات کو ٹھوکر مارکر ایلی کوہن کو مجمع عام میں پھانسی لگائی اور لاش بھی واپس نہیں کی، امریکہ اور اسرائیل کا ساٹھ کی دہائی میں بھی ایسا ہی گٹھ جوڑ تھا جیسا اب ہے اور امریکہ آج ہی کی طرح سپر پاور تھا۔ کہیں ہمارے حکمران کشمیر سنگھ کی طرح سستے میں کلبھوشن کو بیچ نہ دیں۔