پی ٹی آئی‘ ن لیگ جھگڑا… پیپلز پارٹی کو رگڑا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 30, 2016 | 09:41 صبح

 
Urdu Newspaper
 
 
ef="http://www.nawaiwaqt.com.pk/Columnist/142" target="_blank">فضل حسین اعوان’عباس اطہر نے کہا پیپلز پارٹی کی مخالفت کا کوئی فائدہ نہیں، سیاست میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو ن لیگ کو ٹارگٹ کرو، میں نے عمران خان کو اس پر قائل کیا تو کامیابی کے راستے کھلنے شروع ہو گئے‘‘ ۔ اسکے علاوہ اور بھی بہت کچھ محمود الرشید ایک شادی کی تقریب میں کہہ رہے تھے۔ اس ٹیبل پر میں بھی موجود تھا۔ یہ واقعہ فروری 2012ء کا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف ووٹوں کے حوالے سے ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی مگر پہلی اور دوسری بڑی پارٹی کے درمیان ووٹوں اور سیٹوں کا فرق بعدالمشرقین کی طرح کا تھا۔ تحریک انصاف کو جو بھی کامیابی ملی اس میں ’’ن لیگ کی اول و آخر مخالفت‘‘ کا کلیہ کارفرما نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف اسی فارمولے اور فلسفے پر آج بھی عمل پیرا ہے۔ آج کل ن لیگ تحریک انصاف کے مابین جو دنگا فساد نظر آتا ہے اس سے جمہوریت ڈی ریل ہو گی نہ مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہو گی۔ یہ سب تحریک انصاف کی طرف سے 2018ء کے الیکشن کی تیاری ہے۔ میاں نواز شریف آج سیاست کے جس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اس میں بنیادی کردار انکی جارحانہ سیاست کا ہے۔ میاں نواز شریف سیاست میں اتفاق سے آئے مگر وزارت عظمیٰ تک باقاعدہ پلاننگ سے پہنچے۔ اس میں خود کو اینٹی بھٹو ثابت کرنا بھی شامل تھا۔ نوے کی دہائی میں سیاست کا محور ’’پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو‘‘ تھا۔

پیپلز پارٹی 1988ء میں اقتدار میں آئی تو اس نے نواز شریف کیطرف سے جارحانہ بیانات کا جواب اس سے بھی زیادہ شدت کیساتھ دینا شروع کیا، جس طرح عمران خان کے بیان پر مسلم لیگ ن کے وزیر، مشیر اور مریم نواز کے میڈیا سیل کے لیڈر پل پڑتے ہیں۔ نواز نے اس دور میں باقاعدہ پلاننگ کے تحت پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کی تقسیم واضح کر کے اینٹی بھٹو ووٹ اپنی حمایت میں پکا کر کے اقتدار کا راستہ ہموار کر لیا تھا۔ تحریک انصاف بھی سب کچھ باقاعدہ پلاننگ کے تحت کر رہی ہے۔ آج پی ٹی آئی کو ن لیگ کی قیادت اپنا مخالف ہی نہیں دشمن نمبر ایک کے طور پر باور کرا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی انڈر سٹینڈنگ کا تاثر عوامی سطح پر پختہ ہو رہا ہے۔ عمران خان رائے عامہ کو پرو نواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کے نام پر یا جمہوریت کی آڑ میںمسلم لیگ ن کیساتھ کھڑی ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کا مخالف ووٹ پی ٹی آئی کے پلڑے میں گرتا محسوس ہوتا ہے۔ یقینا مسلم لیگ ن اور پی پی پی الگ الگ الیکشن لڑیں گی۔ ووٹر کیلئے اب دونوں میں سے ایک کو ووٹ دینا مجبوری نہیں رہی۔ اسکے سامنے متبادل بھی ہے۔ ن لیگ آج بھی ملک کی بڑی پارٹی ہے جو پی ٹی آئی کو اپنے اشتعال، سخت روئیے، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے طرز عمل سے اپنے مقابل لاچکی ہے۔ اس کا اظہار ہر ضمنی الیکشن سے بھی ہوتا ہے۔ ن لیگ نے ضمنی الیکشن معمولی مارجن سے جیتے ہیں۔ ن لیگ کو حکومتی ایج بھی حاصل ہے۔ اندازہ کرلیں کہ لاہور میں اگر حکومت کا ساتھ نہ ہوتا تو ایاز صادق کیساتھ وہی کچھ ہوتا جو محسن لطیف کیساتھ ہوا۔

عمران خان کی بڑھک کے جواب میں ن لیگ کی طرف سے دس بڑھکیں مارنیوالے سامنے آجاتے ہیں۔ نواز مخالف ووٹ جو دیگر جماعتوں میں تقسیم ہے وہ عمران کی حمایت میں اکٹھا ہو رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ ووٹ مسلم لیگ ن کے مجموعی ووٹ سے زیادہ ہو جائے بہرحال یہ عمران خان کو ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بنا سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی دوسری بڑی پارٹی کا درجہ ہی حاصل کر سکے گی وہ پاکستان کی پہلی بڑی پارٹی بھی بن سکتی ہے۔ 1988ء میں میاں نواز شریف جب پی پی پی کی سخت مخالفت کر رہے ہوتے تھے تو پی پی پی کے لیڈر کہتے تھے انکے ہاتھ میں وزیر اعظم بننے کی لکیر نہیں ہے مگر اب وہ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ آج ن لیگ کے لیڈر بھی عمران خان کے بارے میں یہی کچھ کہہ رہے ہیں اور ایسا کہہ کر ان کو اپنے مقابلے پر لے آئے ہیں۔ عمران خان اسلام آباد بند کرنے کی شاید صلاحیت نہ رکھتے ہوں مگر ان کا یہ کام حکومت نے خود دو نومبر سے قبل کنٹینر لگا کر شہر بند کر کے پورا کردیا۔ حکومت عمران کیخلاف بغیر سوچے سمجھے جو کچھ کر اور کہہ رہی ہے وہ انکی حکمت عملی کے عین مطابق انکی حمایت میں جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شہباز شریف پر چار منصوبوں میں اپنے فرنٹ مین جاوید صادق کے ذریعے ساڑھے 26 ارب روپے کمیشن کے الزامات لگائے ہیں۔ شہباز شریف نے اس الزام پر شدید ردعمل جاری کیا ہے اوروہ عمران خان پر برس رہے ہیں۔ شہباز شریف نے تو عمران خان کیخلاف ساڑھے 26 ارب روپے ہر جانے کا نوٹس بھجوا دیا ہے۔ عمران خان جو الزامات لگائے ہیں انکی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کرپشن اور کمیشن میں فرق ہے۔ کمیشن حاصل کرنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں۔ یہ بیرونی کمپنی دیتی ہے۔ تاہم کئی حکومتی لوگ اسے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیتے ہیں‘ کئی اپنے اکائونٹ میں رکھ لیتے ہیں۔ شہباز شریف نے اگر ثابت بھی کر دیا کہ انہوں نے یہ کمیشن قومی خزانے میں جمع کرا دیا تھا تو بھی عمران خان کیخلاف ہر جانے کے دعوے کی ایسے ہی کوئی حیثیت نہیں جیسے عمران خان کے الزامات میں کوئی جان نہیں ہے۔

اسلام آباد میں جو سیاسی دھول اڑ رہی ہے۔ عمران خان کے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان پر حکومت نے خود ہی ہفتہ پہلے کنٹینر لگا کر اسلام آباد بند کر دیا، لال حویلی کو بھوت حویلی بنا دیا۔ تحریک انصاف کا یوتھ کنونشن الٹا دیا‘ انکے کارکنوں کی گرفتاریوں اور لیڈروں کے محاصرے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ حکومت جائیگی نہ مارشل لاء آئیگا۔ 2 نومبر کے بعد یہ دھول خودبخود بیٹھ جائیگی تاہم حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ جاری رہا اور حکومت نے بارود کو ماچس دکھا دی تو نقصان تحریک انصاف کو نہیں، مسلم لیگ ن کو ہو گا۔ تحریک انصاف کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ نواز لیگ کے پاس کھونے کو سب کچھ ہے۔ اس کا ادراک یقیناً ن لیگ کو ہو گا اور وہ حالات قابو سے باہر نہیں ہونے دیگی۔

آج مسلم لیگ ن کے ساتھ تمام بڑی پارٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ سامنے صرف تحریک انصاف ہے۔ جو پارٹی عمران خان کے ساتھ نہیں وہ نواز شریف کے ساتھ ہے۔ جماعت اسلامی دھرنے میں تحریک انصاف کے ساتھ نہیں۔ وہ الگ سے کرپشن کی تحریک چلا رہی ہے۔ یہ اس کو پتہ ہو گا کہ کس کیخلاف چلا رہی ہے کیونکہ خود اسکے لیڈروں پر بھی خیبر پی کے حکومت میں رہتے ہوئے کرپشن کے الزامات ہیں۔ بہرحال عمران خان کے دھرنے کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے وہ خود کو اینٹی نواز شریف ثابت کر چکے ہیں۔ نواز لیگ نے خود بھی اپنے کردار ، عمل، بیانات اور اقدامات سے تحریک انصاف کو اپنے مقابل کھڑا کیا ہے۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی مائنس ہو رہی ہے۔ جو کسر 2013ء کے الیکشن میں باقی رہ گئی تھی وہ آئندہ انتخابات میں پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ آج نواز لیگ پی ٹی آئی جھگڑے میں رگڑا ’’پیپلز پارٹی کو لگے گا جو عموماً پی ٹی آئی، نواز لیگ جھگڑے میں تماشائی بنی رہتی ہے یا ن لیگ کی حمایت کر کے تماشے کا حصہ بن جاتی ہے۔