پاکستان کیخلاف سازش

2017 ,مئی 31

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



میرے سامنے ضیاء شاہد کی کتاب ’’قائداعظم کی سوچ اور دو قومی نظریہ کے بجائے زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان کیخلاف سازش‘‘ موجود ہے۔ اس میں جناب ضیاء شاہد نے پاکستان کے جہاز میں سوراخ کرنیوالوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کوشاں کرداروں کے چہروں سے خود کو خطرات میں ڈال کر نقاب اتار دیئے ہیں۔ پاکستان کے جہاز کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ انکے ہاتھ میں ڈنڈہ ہے نہ ڈوری ہے فقط قلم ہے۔ پاکستان کے جہاز کو ڈبونے کیلئے سرگرداں ایک ایک کردار کے کرتوت بمع پوری ہسٹری و سوانح عمری کے تحریر کر دیئے ہیں کتاب کے ٹائٹل پر انکی تصاویر بھی دیدی ہیں۔

پاکستان کا قیام قائداعظم کے پیش کردہ دو قومی نظریئے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا ۔ہمارے بعض صوبوں اور علاقوں میں پہلے صوبائی خودمختاری کے نام پر مطالبات کا آغاز ہوااور بعد میں یہ مطالبات پاکستان کیخلاف اورالگ آزاد ریاستوں کے مطالبے تک جاپہنچے۔قائداعظم کا پیش کر دہ دو قومی نظریہ اس ایک نکتے پر مبنی تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الک قومیں ہیں اور ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مسلمان قومیت کی بنیاد پر الگ ریاست کا قیام ضروری تھالیکن بدقسمتی سے جہاں اور جس جس صوبے میں دو قومی نظریئے کی بجائے نسل اور زبان کی بنیاد پر پہلے الگ صوبہ اور پھر اسکی آڑ میں پاکستان سے علیحدہ ہو کر الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ سامنے آیا ۔اسکی بنیاد یہی تھی کہ ہم میں سے بعض لوگوں نے ہندو مسلم دو قوموں کی بجائے مسلمانوں میں سے بھی جائے پیدائش زبان اور نسل کی بنیاد پر خود کو الگ قوم قرار دینا شروع کر دیا۔

آج پاکستان میں کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ہم پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈیورینڈلائن کو نہیں مانتے ۔کسی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ہم افغانی پیدا ہوئے تھے افغانی ہیں افغانی ہی رہیںگے۔کسی نے سندھو دیش کا نعرہ لگایا اور قیام پاکستان کو غلط قرار دیا تو کہیں سے آواز اٹھی اور بغاوت کی شکل اختیار کر گئی کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ ایک الگ ملک ہے۔یہاں کے باغیوں نے پاکستان سے فرار ہو کر دنیا کے مختلف حصوں میںآزاد بلوچستان کیلئے تحریکیں شروع کیں تو کراچی میں بسنے والے اردو سپیکنگ مہاجروں نے بھی شروع میں اپنے معاشی حقوق کیلئے آواز بلند کی اور بالآخرالگ صوبے کے مطالبے سے ہوتے ہوئے بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی شروع کی اور پھر لندن میں بیٹھ کر بھارت اور اسرائیل سے امداد طلب کرکے پاکستان کی موجودہ جغرافیائی سرحدوں کو بھی توڑنے کا ارادہ ظاہر کیا۔یہ سب لوگ نئے نہیں پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے اورہیں اور بار بار اس تصور کی تصدیق کر رہے ہیں کہ جب کبھی ہم ہندو مسلم کی تفریق پر دو قومی نظریئے سے ہٹ کر موجودہ پاکستان میں زبان اور نسل کی بنیاد پر پہلے صوبائی حقوق اور آزاد ریاست کا مطالبہ کرینگے یہی کچھ ہو گا جو پہلے بھی 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان میں ہو رہا تھا اورجہاں بنگلہ دیش بھی زبان اور نسل کی بنیاد پر قائم ہو رہا تھا۔

جناب ضیاء شاہد نے غفار خان سے بات شروع کر کے انکے بیٹے ولی خان، پوتے اسفند یارولی کے تذکرے کے ساتھ محمود اچکزئی بلوچ علیحدگی پسندوں جی ایم سید کا ذکر کرتے ہوئے الطاف حسین پر ختم کی ہے۔ غفار خان کو گاندھی سے عشق تک لگائو تھا۔ خود کو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے۔ ’’غفار خان نے گاندھی کی زندگی کا بڑے غور سے مطالعہ کیا اور انکی پیروی کی۔ جیل خانے میں نہ صرف دو ہفتے میں ایک دن روزہ رکھتے بلکہ ایک دن مرن برت بھی رکھتے تھے‘‘۔ غفار خان کہتے ہیں ’’کیونکہ پختون ہندو تھے اس لئے مسلمان گیتا سے آگاہ ہو جائیں، صوبہ سرحد وہ زمین ہے جہاں مقدس وید نازل ہوئے‘‘۔ گاندھی سے اس قدر لگائو تھا کہ ’’غفار خان گاندھی کے پائوں دھوتے حالانکہ یہ کام عموماً انکی بیوی کستوریہ کرتی تھی۔ غفار خان کی طبیعت ناساز تھی۔ انہیں شدید بخار تھا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ وہ پہلے کی طرح حسب معمول گاندھی جی کے پائوں ضرور دھوئیں گے‘‘ پختونستان کی آزاد ریاست کیلئے غفار خان اپنی عمر کے آخری حصے تک کام کرتے رہے۔

بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی کچھ کم نہ نکلے۔ باپ نے الگ ریاست کے قیام کا جو پرچم بلند کیا تھا وہ ولی خان اور پھر انکے صاحبزادے اسفند یارولی نے گرنے نہیں دیا۔ سرحدی گاندھی کے سیاسی ولی عہد اور جاں نشیں ولی خان کے حصے میں نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) بھی ترکے میں آئی۔ ’’ولی خان کیخلاف نیپ پر پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا اسکے مندرجات انتہائی خوفناک تھے۔ بھٹو حکومت نے ثابت کیا کہ کس طرح نیپ صوبہ سرحد کی جگہ آزاد ریاست پختونستان قائم کرنا چاہتی تھی۔ ولی خان کی تقریروں کے اقتباسات اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ملک دشمن افراد سے انکے رابطوں کے ثبوت پیش کئے گئے تھے۔ بھارت اور افغانستان کی طرف سے انکی کس طرح حمایت کی جاتی رہی۔ روس کی بالواسطہ حمایت بھی حاصل تھی۔ نواب اکبر بگٹی نے ولی خان اور عطاء اللہ مینگل کا ساتھ دینے کے بجائے بھٹو حکومت کی حمایت کی۔ جنوری 1976ء کو لاہور میں جلسہ عام میں بگٹی نے اپنے خطاب میں آزاد پختونستان کے علاوہ عطاء اللہ مینگل اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر گریٹر بلوچستان کی شکل میں ایک آزاد ریاست کیلئے سازش کا تفصیلی ذکر کیا۔ آزاد بلوچستان اور گربڑ بلوچستان کا عارضی ہیڈ کوارٹر بغداد میں قائم کیا گیا تھا۔ عراقی سفارتخانے کے ذریعے سمگل ہونیوالا اسلحہ پکڑا گیا۔ اس ضمن میں متعدد دستاویزات بھی پکڑی گئی تھیں۔ نیپ کے لیڈروں ولی خان، امیرزادہ خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری اور گل خان نصیر سمیت 52 افراد کیخلاف حیدر آباد میں مقدمات چلائے گئے۔ ان کو ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کے خاتمے پر رہا کر دیا۔ اس دور میں افغانستان پر روس کا قبضہ ہوا‘‘ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد ولی خان اور انکے ساتھیوں کو دوبارہ اپنے آپ کو منظم و متحرک کرنا پڑا اور انہوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا فریضہ اپنے ذمے لے لیا یہ اس فریضے کو انکی نسل کمال ایمانداری سے انجام دے رہی ہے۔

صوبہ سرحد کو افغان مہاجرین کا وطن قرار دینے کی بدعت بھی ولی خان نے شروع کی‘ انہوں نے کہا کہ سرحد (موجودہ کے پی کے) میں بسنے والے مہاجر نہیں، وہ اپنی سرزمین پر رہتے ہیں کیونکہ وہ پختون ہیں یہ ان کا وطن ہے۔ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔ اسفند یارولی بھی اپنے باپ دادا کی سوچ پر قائم اور کہتے ہیں ’’ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے، افغان مہاجرین کو مہاجر کہنا غلط ہے یہ ان کا وطن ہے‘‘۔ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں افغانی پیدا ہوا تھا، افغانی ہوں اور افغانی رہوں گا۔ حیرت ہے قومی اسمبلی اور سینٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے باوجود وہ افغانی ہیں۔ محمود اچکزئی بھی کہتے ہیں کہ پختون خواہ صوبہ افغانستان کا حصہ ہے۔ سرحدی گاندھی کے اس پوتے اور بلوچی گاندھی کے بیٹے محمود اچکزئی کے بیان کو ملا کر پڑھا جائے تو نظر آتا ہے کہ دونوں اسی مقدمہ سازش حیدر آباد ٹربیونل کے ملزموں کی سوچ کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔

محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی نے غفار خان سے مل کر پختون آبادی کیلئے پختون آزاد وطن کی تحریک چلائی قیام پاکستان کے بعد غفار خان اور صمد اچکزئی نے سندھو دیش کے نظریے کے بانی جی ایم سعید سے قریبی رابطے رکھے۔

محمود اچکزئی کہتے ہیں کہ اس پاکستان کو زندہ باد کہنا گناہ کبیرہ ہے جس میں پشتون غلام ہوں۔ پشتونخواہ، سندھ اور بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کالونی میں اچکزئی کا سارا خاندان پر کشش عہدوں پر فائز ہے۔

حر بیار مری پاکستان سے نفرت اور آزاد بلوچستان کی بات کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم الگ قوم ہیں یاد رکھو بنگلہ دیش کیسے بنا۔ براہمداغ بگٹی کو حالیہ دنوں برطانوی شہریت دی گئی برطانوی عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ وہ پاکستانی صوبے کے نہیں بلوچستان کے شہری ہیں۔ برطانوی حکومت نے جس طرح الطاف حسین کو تحفظ دے رکھا ہے اسی طرح بلوچوں کو بھی پاکستان کیخلاف تحریک چلانے کی چھٹی دے رکھی ہے۔ دراصل وہ ان گماشتوں کو کسی بھی وقت پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کیلئے پال رہا ہے۔

ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ پاکستان ہمیشہ رہنے کیلئے بنا ہے بشرطیکہ ہم اسکی حفاظت کی کما حقہ ذمہ داری پوری کریں۔ اس ذمہ داری سے ہم نے صرف نظر کیا تو 1971ء میں آدھا پاکستان کٹ کر الگ ہو گیا جو پاکستان بچا ہے اسکی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ان خانوادوں سے بچانا ہے جو اسکے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ ’’پاکستان کیخلاف سازش ‘‘جناب ضیاء شاہد کے کالموں کی 58 قسطوں کا مجموعہ ہے جو پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کو بھانپتے ہوئے لکھے گئے۔ کتاب کی قیمت 800 روپے ہے جو خبریں پبلشرز 12 مجید نظامی روڈنے شائع کی۔

 

متعلقہ خبریں