حضرت عمرؓ نے خالد بن ولید کو عین حالت جنگ میں سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا، اس وقت وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کے سالار تھے۔ انہوں نے اپنے طاقتور ہونے کے اظہار کے بجائے امیر المومنین کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور باقی جنگیں عام مجاہد کی حیثیت سے لڑیں، اس سے بہتر مثال سول بالادستی کی شاید ہی کوئی ہو مگر آج ہم اسکے برعکس دیکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں فوج کی طرف سے ٹیک اوور کی خبریں آتی ہیں‘ ان میں زیادہ تر مسلم ممالک میں جرنیلوں کی طرف سے سول بالادستی کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چار میں سے تین مارشل لاء براہ راست لگے اور باقی عرصہ میں بھی فوج نے عموماً سول بالادستی کے حکمرانوں کے خواب کو پورا نہیں ہونے دیا۔ آج میاں نوازشریف نے اپنی نااہلیت کے فیصلے کے بعد سول بالادستی کا علم اٹھایا ہے۔ فراغت کے لمحات میں یہ ایک بہتر مصروفیت کاز قرار دیا جا سکتا ہے۔
بیکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
اقتدار میں تھے تو حسرتوں کے جام کو دوام سمجھ رکھا تھا، اقتدار سے الگ ہوئے تو غم، صدمے اور غصے میں خون جگر پی رہے ہیں۔ میاں نوزشریف خود اس سسٹم کی عنایت ہیں جس کی بالادستی کیخلاف آمادہ پیکار ہیں۔ انکے رفقاء کار پر نظر ڈالیں تو کوئی خود، کسی کے والد محترم اور کسی کی والدہ محترمہ ایسے ہی سسٹم سے منسلک رہے اور آئندہ آمریت کی شدت سوا نیزے پر آنے سے قبل انکے بالادستی کے آج کے تصور سے رجوع کرنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ میاں نوازشریف کے سول بالادستی کے پروگرام، ایجنڈے اور جہاد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس پرچم کے سائے میں آنے سے کسی کو انفرادی طور پر اور تمام سیاسی پارٹیوں کیلئے کوئی امرمانع نہیں ہونا چاہئے، جمہوریت مکمل طور پر سول بالادستی کا نام ہے۔ جمہوریت جمہوریت ہے اس میں ذاتی مفاد دیکھ کر پینترا بازی کو منافقت کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستان میں ہر تین سال بعد سینٹ کے الیکشن ہوتے ہیں، ان میں آدھے سینٹر دوبارہ سے چنے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عموماً سینٹ کے الیکشن سے قبل کسی پارٹی کی اکثریت روکنے کیلئے سازشی تھیوریاں جنم لینے لگتی ہیں۔ آج پھر مسلم لیگ ن کی لرزتی، لڑکھڑاتی حکومت کو سینٹ کے مارچ میں ممکنہ انتخابات سے قبل چلتا کرنے کی گرما گرم خبریں اور تجزیئے پھوٹ رہے ہیں کچھ لوگوں کی نظر میں مسلم لیگ ن سینٹ میں اکثریت حاصل کرکے زمین و آسماں کو ہلا کر رکھ دیگی۔ اپنی مرضی کی قانون سازی کرکے میاں نواز کی بحالی یا 2018ء کے انتخابات کے بعد وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کر دیگی۔یہ کام تو موجودہ پارلیمنٹ سے بھی لیا جا سکتا ہے جس نے میاں نوازشریف کی خواہش پر نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کا قانون منظور کر لیا اور اسی قانون میں ہی حلف نامے میں تبدیلی بھی کردی گئی اور یہ سب کچھ مسلم لیگ ن کی سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود ہوگیا۔ سینٹ میں اکثریت حاصل کرکے وہ اس سے زیادہ کیا کر لیں گے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ بھی واضح کردیا گیا کہ حلف نامے میں تبدیلی ہو سکتی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ محض سینٹ میں مسلم لیگ ن کی اکثریت کی راہ کھوٹی کرنے کیلئے حکومت ہی کا گھونٹ بھرنے کیلئے کسی غیر جمہوری اقدام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مجھے تو 2018ء میں مقررہ مدت سے ایک روز قبل بھی عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ انکی نہ کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہیں۔ قبل ازوقت الیکشن صرف مسلم لیگ ن کرا سکتی ہے۔ لوگ تو کونسلر کی سیٹ نہیں چھوڑتے، وزارت عظمیٰ، وزارتیں اور بڑے عہدے کون چھوڑے گا۔ جہاں بڑی گاڑیاں بمعہ ڈرائیور اور فری پٹرول کے ملتی ہیں‘ کچھ مہربان پٹرول بھی بیج لیتے ہیں ہاں! یہ کام بڑے بھی کرتے ہیں۔ بڑے لوگ ہی کرتے ہیں۔ جسٹس افتخار چودھری پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج تھے تو پٹرول کی مد میں جو رسیدیں پیش کی گئیں وہ اس پمپ کی تھیں جہاں صرف ڈیزل ہی دستیاب تھا۔
سول بالادستی کی جدوجہد کے دوران ٹیکنو کریٹ اور قومی حکومت کے قیام کی تجویزیں آ رہی ہیں اور شاید کچھ لوگ اس پر زور دے رہے اور کچھ شامل ہونے کیلئے لابنگ بھی کر رہے ہیں۔ تجویز دینے والوں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کرپشن کے ہمالیہ کو گرانے اور بے ایمانی کے قلزم سے نجات پانے کیلئے ایسی سوچ جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے مگر ٹیکنو کریٹ حکومت کی آئین میں کوئی گنجائش ہے نہ ہی اسکی کوئی ضرورت ہے۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ قطعاً کسی قوی حکومت کی ضرورت نہیں۔ کیا ہم تمام آپشن بروئے عمل لا چکے ہیں اور کیا اب ٹیکنوکریٹ اور قومی حکومت کے سوا کوئی چارہ کار اورآپشن نہیں ہے؟
میاں نوازشریف سول بالادستی کی جدوجہد کا سمبل، استعارہ اور اسکے حامی طبقے کے ماتھے کا جھومر بن چکے ہیں۔ میاں نوازشریف کی قسمت میں ایک مرتبہ اور وزارت عظمیٰ ہے یا نہیں ہے مگر وہ سول بالادستی کیلئے آخر ی حد تک جانے کا عزم ظاہرکر رہے ہیں حتیٰ کہ اپنی وصیت بھی لکھ دی ہے۔
حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت خالد بن ولید کی سپہ سالاری سے علیحدگی کا واقعہ بڑے پرجوش انداز سے بیان کیا جاتا ہے۔ سول بالادستی کے علمبرداروں اور آمریتوں کے زخم خوردہ لوگوں کی خواہش ہے کہ ہر سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کی تقلید کرتے ہوئے حکمرانوں کے احکامات کا پابند ہو مگر حکمران بے شک حضرت عمرؓ جیسا بننے کی کوشش نہ کریں۔ کیا ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے عدل فاروقی، کی عمل داری کا کوئی امکان ہے؟ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عدلیہ اور نظام انصاف کو سبق سکھانے کیلئے تہیہ طوفان کئے ہوئے ہیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے بیت المال کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ کیا ہو جبکہ سپہ سالار کیلئے خالد بن ولیدؓجیسا فرمانبردار بننے کی خواہش رکھنے والوں کی بے شمار دولت، کاروبار اور اولاد دوسرے ملکوں میں ہے۔
آج نظام عدل سے امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں‘ بے لاگ انصاف اور احتساب ہوتا نظر آ رہا ہے جن کیخلاف فیصلے اور انکوائریاں ہو رہی ہیں وہ چیخ اور بلبلا رہے ہیں۔ انکی دلیل سنیں ، ہمیں پکڑا ہے تو فلاں کو بھی پکڑیں، اپنے پکڑے جانے کا خود ہی جواز فراہم کر رہے ہیں۔ نیب کو کل تک اپنے درد کا درماں سمجھتے تھے۔ اسکے چیئرمین قمرالزماں ریٹائر ہوئے نیا چیئرمین اپنے ہاتھوں سے تراشا مگر وہ بے لاگ احتساب کا عندیہ دے کر پرانے اور نئے حکمرانوں کے ہوش اڑا رہے ہیں۔ کل تک نظام عدل خوابیدہ تھا اب انگڑائی لے چکا ہے۔ اس کو ملیامیٹ کرنے کی خواہش اسکے روشن کردار کی دلیل ہے۔ ایسے میں کسی ٹیکنو کریٹ اور قومی حکومت کی ضرورت نہیں عدلیہ کو مضبوط کرنے اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ میاں نوازشریف کی سول بالادستی کی خواہش اور کوشش بے جا اور بلاجواز نہیں ہے وہ انکے حضرت عمرؓ جیسا حکمران بننے کی کوشش سے پوری ہو سکتی ہے۔
حرف آخر یہ کہ میاں نوازشریف نے پیپلزپارٹی کی مخالفت میں جہاں تک ممکن تھا آگے جا کر سیاست میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے یہ سب کچھ اینٹی بھٹو ووٹ اپنی حمایت میں اکٹھا کرنے کیلئے کیا۔ اب وہ سول بالادستی کیلئے سرگرم ہیں جو فوج کو اسکے آئینی کردار تک محدود کرکے ہی ممکن ہے۔ اگلے الیکشن میں نوازشریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریے، فلسفے اور سوچ کے علمبردار ہونگے جبکہ مقابلے میں بظاہر کوئی سیاسی قوت نہیں ہوگی۔ دیکھیں کہ سول بالادستی کے اس جہاد میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں انکے ووٹر کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ وہ 2018ء کے الیکشن اگر جیتے تو مسلم لیگ ن کا وزیراعظم کون ہوگا۔