2017 ,مئی 24
آ ج سے آٹھ سال قبل ہیگ میں عالمی عدالت نے سوڈان کے صدر عمرالبشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ۔ وہ دنیا پہلے ایسے صدر ہیں جن کے وارنٹ گرفتاری انکے عہدۂ صدارت کے دوران جاری ہوئے ۔ان کیخلاف وارنٹ دارفور میں جنگی جرائم کے الزام میں جاری کئے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی سوڈان میں حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں کم سے کم تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔عالمی عدالت میں تین ججوں کے پینل نے دارفر میں عمر البشیر کی حکومت کے اقدامات پر مقدمہ چلانے کیلئے انہیں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
یہ وہی عدالت ہے جس میں کلبھوشن کا کیس چل رہا ہے۔ عمر البشیر کیخلاف فیصلے پر کئی افریقی، عرب ممالک اور چین نے احتجاج کیا تھا‘ امریکہ، فرانس اور برطانیہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے حامی ضرور ہیں مگر اس پر عمل کرانے کیلئے ایسی کوئی کارروائی کرنے پر تیار نہیں جیسی ملا عمر، صدام حسین اور معمر قذافی کیخلاف بتدریج انکے ممالک افغانستان، عراق اور لیبیا میں کی کئی۔ عالمی عدالت انصاف کی اتنی ہی اوقات ہے۔ بھارت اس عدالت میں کلبھوشن کا مقدمہ لے گیا ہم بڑا واویلا کر رہے ہیں کہ اسکے فیصلے پر عمل ضروری نہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ عدالت یہ کیس سننے کی مجاز نہیں اگر عدالت کیس سننے کی مجاز نہیں تو پھر وہاں گئے ہی کیوں؟ جہاں جندل نواز ملاقات کا تذکرہ ، بلا تبصرہ برمحل ہوگا۔ دو ملک کوئی مسئلہ ثالثی کیلئے عالمی عدالت لے جا سکتے ہیں بظاہر ایسا نہیں ہوا اگر ایسا نہیں ہوا توپاکستان پر اس عدالت جانے کی کیا افتاد ٹوٹی جس آپکا کیس سننے کی مجاز نہیں اور اس فیصلہ ماننا بھی ضروری نہیں۔اپوزیشن کی ہر بات کو الزام برائے الزام بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایڈہاک جج نہ بٹھانا، دلائل منٹوں میں ختم کر دینا‘ ایسے سب اتفاقات پاکستان کی خلاف ہی کیوں؟ یہ سب کشمیر سنگھ ڈرامے کا سیکوئل لگتاہے۔
سوڈانی صدر نے عالمی عدالت کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر ضرور رکھا تاہم دل میں ایک خوف ضرور موجود ہے۔ یہ وارنٹ کا خوف ہی تھا کہ اچانک سوڈان کی حکومت کی سوچ تبدیل ہوئی اور جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا تھا۔ وہ کئی سال سے بیرونی دوروں سے پرہیز کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں امریکہ اسلامی ممالک کانفرنس ہوئی تو عمر البشیر کے حوالے سے کچھ حلقوں کی طرف جرأت اظہار و انکار کا تاثر دیا مگر وہ اپنی گرفتاری کے ڈر سے خرطوم سے باہر نہیں نکلتے۔ کچھ لوگ وزیراعظم نواز شریف کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ امریکہ اسلامی ممالک کانفرنس میں خطاب کا موقع نہ دینے پر اعتراض اور احتجاج کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اسے وزیراعظم کی سبکی اور ذلت و رسوائی سے تعبیرکر رہی ہے:۔ ایسے مواقع اپوزیشن کو مولا دے۔ پاکستان کی یقیناً عالمی سطح پر عموماً اسلامی و عرب ممالک میں ایک خصوصی حیثیت و اہمیت ہے۔ کانفرنس دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی، اس لئے وزیراعظم نواز شریف کی خطاب کی باری نہ آ سکی اگر پانچ چھ گھنٹے تاخیر ہو جاتی تو کیا ٹرمپ اور شاہ سلمان بھی خطاب نہ کرتے؟ نواز شریف کو خطاب کا موقع دیا جاتا تو انہوں نے ایسی قطعاً کوئی بات نہیں کرنی تھی جس سے امریکہ، سعودی عرب یا کسی بھی ملک کی دل آزاری ہوتی۔ وزیراعظم اور انکے کامریڈز اجلاس میں خطاب نہ کرنے کی اجلاس میں تاخیر کی حجت کو بظاہر خوش دلی سے تسلیم کر رہے ہیں مگر اندر سے ’’محسوس‘‘ ضرور کر رہے ہیں۔ خطاب تو ایک ثانوی مسئلہ ہے اصل تو ٹرمپ اور شاہ سلمان کی خطابات ہیں ان میں ایران کو سخت نشانہ بنایا گیا۔ اس سے اسلامی نیٹو اتحاد کی تشکیل کا مقصد بھی کھل کر سامنے آگیا۔ ایران کو ٹرمپ نے دہشتگردی کا منبع اور دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیا اور یہ اسلامی نیٹو اتحاد بھی دہشتگردی کیخلاف بنا ہے جس نے سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں۔ جن کے بارے میں انکے ’’ترجمان اعلیٰ‘‘ جنرل شعیب امجد کہتے تھے کہ جنرل راحیل ایران کی اتحاد میں شمولیت کی شرط پر سربراہ بننے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب یہ اتحاد ایران کے خلاف متشکل ہو چکا ہے، جنرل راحیل شریف شدید دباؤ میں ہونگے۔ ان کو کونسا حکومت نے تمغے پہنا کر بھیجا تھا انکے ساتھ بھی ایسی ہی کی گئی تھی جیسی ہمارے وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب میں ہو گئی۔
ایران پر نیو کلیئر پروگرام کے حوالے سے پابندیاں لگائی گئیں جو ایران کی یقین دہانیوں پر اٹھالی گئی تھیں مگر پاکستان کو معاہدوں کی تکمیل کی کھلی چھٹی نہیں دی گئی۔ ایران کو جس طرح دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک قرار دیا گیا ہے، اب معاملات پابندیوں سے آگے جاتے نظر آتے ہیں۔ افغانستان پر بھی یہی الزام تھا، عراق پر تو محض وسیع پیمانے تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام تھا۔ ایران شاید صوتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے مگر وزیراعظم نواز شریف بُرے پھنسے اور بے قصور پھنسے ہیں وہ امریکہ اور سعودی عرب سے دوری اختیار کرنے پر تیار ہیں اور نہ افورڈ کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب کی خواہش یہ ہے کہ پاکستان، ایران کیخلاف انکے اس طرح شانہ بشانہ ہو جا ئے جس طرح امارات اور کویت جیسے ممالک ہیں۔ پاکستان انکی بات کو سمجھتا ہے اور ایران سے جتنا فرق رکھنا اور دوری اختیار کرنا ممکن ہے اتنی کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ سال تیرہ دسمبرکو وزیراعظم نواز شریف نے گوادر میں میری ٹائم کانفرنس میں اس لئے شرکت نہیں کہ اس میں ایرانی سفیر اور خصوصی وفد بھی دیگر کئی ملکوں کے سفیروں سمیت شرکت کررہا تھا،کہہ دیا کہ لاہور کا موسم خراب ہے۔اسی روز ٹاسک فورس 88کا افتتاح بھی ہونا تھا۔ اس روز ہنگامی طورچیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کوایک گھنٹے کے نوٹس پربلا کر مہمان خصوصی بنایا گیا۔ پاکستان ایران کی سستے تیل اور گیس و بجلی کی فراہمی کی فراخدلانہ پیشکش بھی قبول کرنے سے گریزاں رہا ہے۔ پاکستان میں ایران کے ہم مسلک لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ پاکستان عرب و عجم کی پراکسی وار کے زخم سہ رہا ہے مگر پاکستان کیلئے ایک پڑوسی ملک کے ساتھ دشمنی اور وہ بھی کسی اور کے ایماء پر کیا افورڈ ہو سکتی ہے؟ اس کا ادراک کل پیپلز پارٹی کی قیادت کو تھا اور آج مسلم لیگ ن کی قیادت کوبھی ہے۔سعودی عرب کے مقابلے میںایران کیساتھ پاکستان کے اتنے ہی تعلقات ہیں جتنا پاکستان میں ایران کی ہم مسلک آبادی کا تناسب ہے۔سعودی عرب کیساتھ پاکستان کے تعلقات کئی گُنا زیادہ ہیںجبکہ اب رویوں کے اظہار سے پوچھا جارہا ہے’’ہمارے ساتھ ہو اُسکے ساتھ؟‘‘
ٹرمپ نے پاکستان کیخلاف کوئی بات نہیں کی تاہم دہشت گردی کے متاثر ممالک میں پاکستان کا نام شامل نہ کرکے اور بھارت کو دہشت گردی سے متاثر ملک کہہ کر جو پیغام دینا تھا وہ بخوبی دیدیا۔ وزیراعظم نواز شریف کی حالت اب پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی ہے مگر یہ قومی اور عالمی معاملہ ہے ان کی وزارتِ عظمیٰ تو قائم ہے جس کی انہیں اول آخر فکر ہے اور باقی سب سبکی، عزت، آبرو اور وقار کی ثانوی حیثیت ہے۔ پانامہ کیس فیصلے میں وہ خود کو سرخرو سمجھتے ہیں ۔ سعودی عرب میں عمرہ کرکے لوٹے ہیں تو یہ بھی سبکی نہیں سرخروئی ہی تو ہے۔