دست شما درد نہ می کنید

2017 ,جولائی 16



 

ایک چھوٹی سی نہر پر آٹے کی چکی کو چلتے دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔چکی بغیر بجلی اور انجن کے چل رہی تھی۔قریب سے دیکھا،پانی چکی کے نیچے ٹربائن پر گر کرپتھر کے پاٹ (پُڑ) کو گھما رہا ہے۔ایک سائیڈ پر پچیس یا چالیس واٹ کا بلب جل رہا تھاجو اسی چکی کے ساتھ ڈائینمویا چھوٹا سا جنریٹر لگا کربلب کیلئے بجلی پیدا کرکے جلایا گیا تھا۔

یہ چکی ستگھرہ جاتے ہوئے اوکاڑہ سے چند کلو میٹر پر نصب تھی۔کئی برس قبل میں اپنے دوست رائے مبشر خان سے ملنے انکے گائوں جاتا تو مجھے ہمیشہ یہ چکی عجوبہ ہی لگی۔چند سال قبل رائے مبشر کا انتقال ہوگیا۔وہ اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس کرتے تھے،وہیں ان سے ملاقات ہوجاتی تھی،اس لئے انکے گائوں جاناکم ہوگیاتھا۔اب پتہ نہیں وہ چکی وہاں ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا اسی شکل میں ہے یا ونڈاور سولر انرجی پر منتقل ہوچکی ہے۔

لاہور سے اوکاڑہ جائیں تو رینالہ خورد کے قریب بھی سنا ہے نہر پر ایک پاور پراجیکٹ کئی سال سے شاید قیام پاکستان کے وقت سے دس بارہ دیہات کو بغیر لوڈشیڈنگ کے بجلی مہیا کررہا ہے۔اگر کوئی تحریک دلانے اور معمولی تعاون کرنیوالا ہو توپاکستان میں ایسے لاکھوں پراجیکٹس لگ سکتے ہیں،جن پر خرچہ نہ ہونے کے برابر ہوگا اور پورا ملک تسلسل کے ساتھ روشن رہے گا،کاروبار کے مواقع بڑھیں گے، ملکی سرمایہ کاروں کو ملک چھوڑنے کی ضرورت نہیںہوگی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو بھی یہاں آنے کی ترغیب ملے گی۔

ملک میںکچھ ایسے بجلی کی پیدوار کے منصوبے بھی موجود ہیں جن کو حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ترک کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے عباس خان کا مٹھہ ٹوانہ سے خط بڑی اہمیت کا حامل اور پاور پراجیکٹس کے کمیشن مافیا کے سوئے ضمیر کو جگانے اورمحب وطن بااختیار حلقوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

گنجیال ہیڈ ورکس (نزد قائدآباد ضلع خوشاب) پر ہائیڈرو پاور پلانٹ 1950ء سے لے کر 1960ء تک بجلی پیدا کرتا رہا ہے۔ یہ پانی دریائے سندھ سے بذریعہ مہاجر برانچ نہر سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر جدید فنی مہارت سے ایمانداری کے ساتھ پن بجلی گھر بنایا جائے تو یقین ہے انشااللہ نندی پور پاور پراجیکٹ جتنی بجلی پیدا ہو سکتی ہے اور خرچ ’’نندی پور‘‘ فراڈ پر جو ہوا ہے اس سے بہت کم ہو گا۔1960ء میں گنجیال ہیڈورکس پر پاور پلانٹ بند کرنے کی وجہ نامعلوم ہے۔ میں نے حلقے کے ایم این اے/ ایم پی اے کو کئی بار اس پاور ہائوس کوچالو کرنے کیلئے عرض کی لیکن بے سود۔ مذکورہ نہر 1946 سے پہلے برٹش دور میں تعمیر ہوئی تھی۔ اللہ نے جب آزادی عطا فرمائی تو ہماری زمینوں کو پانی مل رہا تھااللہ کی اس نعمت سے ہم مزید فوائد حاصل کرسکتے ہیں مگر سرخ فیتہ کہیں نہ کہیں حائل ہوجاتاہے۔عوامی نمائندوں کو اپنی سیٹ کیلئے پارٹی قائدین کی نظروں میںسرخرو ہونے کی پڑی ہوتی ہے۔ بیوروکریسی قائد کا فرمان’’آپ حکومت کے نہیں ریاست کے ملازم ہیں‘‘ فراموش کرکے حکمرانوں کی خوشنودی کو اپنے تابناک مستقبل کی ضمانت سمجھتی ہے۔مگر جب قانون کو اپنا راستہ بنانے کا موقع ملتا ہے تو ظفر حجازی کی طرح ضمانت کیلئے پیشانی پر عرقِ ندامت اورآنکھوں میں اشک ہزیمت لے کر منہ چھپاتے ہوئے عدالت آنا پڑتاہے۔ خداکے بندو! روزی رساں اللہ کی ذات اور اسی کو جواب دینا ہے۔

شیخو پورہ سے شاہنواز تارڑ لکھتے ہیں :

’’ہفتہ دس روز قبل شیخورپورہ میں وکلاء اورانتظامیہ کے درمیان محاذ آرائی رہی۔ تنازع ایک دیوار کی تعمیر پر ہوا۔ وکلاء کی طرف سے شدید ردعمل فطری تھا۔ضلع کے اعلیٰ انتظامی افسر نے اپنے اختیارات استعمال کئے۔ وکلاء کیخلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرا دیئے۔ تحصیلداروں، پٹواریوں، ایپکا عہدیداروں کو وکلاء کیخلاف میدان میں اتارا لیکن بالآخر معاملہ سو پیازپر ختم ہوا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ہو یا ضلعی انتظامیہ،وکلاء کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بجائے طاقت استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے کبھی نیک نامی نہیں ملتی۔وکالت قائد کا پیشہ ہے ۔ایماندار،پروفیشنل اور ڈیڈیکیٹڈاورقائد کے پیروکارووکلا کا احترام حکومت اور اداروں پرلازم ہے، بقول میر انیس…

میری قدر کر اے زمین سخن

تجھے بات میں آسماں کر دیا

سبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر

مگر ہم نے پلہ گراں کر دیا

وکلاء انسانی حقوق کے تحفظ، انصاف کی فراہمی اور آئین و قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد جاری رکھیں اور ’’حوادث نظر‘‘ سے نہ گھبرائیں اور بزبان فیض احمد فیض…

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی

یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ ان کی ہار نئی ہے، نہ اپنی جیت نئی

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے

تیرے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے ‘‘

کوئی خاص طبقہ ہی نہیںہم جو بھی ہیں،جس حیثیت میں ہیں، جہاں بھی ہیں اپنا کردار ایک سچے مسلمان اورمحب وطن پاکستانی کے طور پر ادا کریں ، اپنا ضمیر تو مطمئن ہوگا ہی،معاشرہ بھی جنت نظر بن جائے گا۔اپنی ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھیں،فرض کو فٹیگ نہ جانے تو بہت سی قباحتوں سے بچا جاسکتا ہے۔

مجھے پروفیسر عظمت صاحب کا عموماً کالموں کی فیڈ بیک کیلئے فون آتا ہے۔ وہ ہمیشہ سود مند مشورے اور مفید تجاویز دیتے ہیں، بات کا آغاز دست شما درد نہ می کنید سے کرتے ہیں،جس کا مفہوم ’’اللہ آپ کا نگہباںہو‘‘۔

پولیس کے عمومی رویے سے ہر کوئی شاکی اورکسی کی زباں سے اس سروس کے لوگوں کیلئے کلمۂ خیر کم ہی نکلتا ہے۔یہ لوگ اسی معاشرے کا حصہ ہیں،جن کو اس شعبے کی کالی بھیڑوں نے بدنام کیا ہوا ہے۔اگر اس شعبے میں ذمہ دار اور فرض شناس نہ ہوں تو یہ محکمہ ایک روز بھی نہیں چل سکتا۔جرائم پیشہ عناصر اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سیکڑوں پولیس اہلکار شہادت کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں۔ یہ سپوت پولیس کیلئے فخر اور قوم کے درخشندہ ستارے ہیں۔پروفیسر عظمت بتا رہے تھے کہ ایک روز وہ اپنے بیٹے کیساتھ گاڑی کی رجسٹریشن کیلئے متعلقہ آفس گئے،سادہ سے عام لباس میں تھے۔سامنے پولیس کی گاڑی کھڑی تھی اس میں سول کپڑوں میں ایک نوجوان فون سن رہا تھا،اس سے کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ فون بند کرکے گاڑی سے باہر آگیا،اس نے بڑے احترام سے سلام کیا ، مسئلہ سنا اور اطمینان بخش طریقے سے گائیڈ کیا۔اسکے اخلاق اور اخلاص کیساتھ پیش آنے سے آدھا مسئلہ تو وہیں حل گیا اور باقی آدھا آگے جاکے فارم فل کرنے اور جمع کرانے سے جاتا رہا۔ اس نوجوان کا نام ڈی ایس پی اکرام ملک ہے۔بڑے شہروں میں ٹریفک وارڈنز کا عمومی رویہ مثبت،تسلی بخش اور اطمینان بخش ہوتا ہے،جو انکے تعلیمیافتہ ہونے کی ایک عمدہ مثال اور علامت ہے،ہائی وے اور موٹر وے پولیس کے لوگوں کا بھی عمومی رویہ بھی مثالی ہے، خواہمخواہ کسی کو تنگ اور پریشان نہیں کرتے۔

تعلیم کو ہر شعبے میں معیار بنا لیا جائے تو اداروں کی جو ذمہ داریاں اور ان سے جو توقعات ہیں وہ یقینا پوری ہوسکتی ہیں۔مگریہ تعلیم بامقصد ہونی چاہیئے تعلیم تبھی بامقصد ہوسکتی ہے جب معقول اورانسانی بنیادوں پر تربیت بھی کی جائے،ورنہ تو کئی سال ہماری پارلیمنٹ بھی گریجوایٹ رہی ہے مگر تعلیم ہمارے فاضل پارلیمنٹیرین کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ،کچھ بھی نہیں۔ جس اولاد کواعلیٰ تعلیم دلانے کے ساتھ ٹیکس چرانے کی تربیت بھی دی جائیگی، اس کا منہ کالانہ ہونا فطرت کے اصولوں کے منافی ہے جبکہ فطرت کے اصول اٹل ہیں۔

 

متعلقہ خبریں