زین ضیاء نئے سیاسی وارث اور اثاثے

2017 ,مئی 14

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



ایک دن سرکاری فون آیا کہ صدرِ پاکستان کی لاڈلی صاحب زادی زین ضیاء الحق ٹیلی ویژن سینٹر گھومنے کیلئے آنا چاہتی ہیں۔ صاحبزادی ذہنی طور پر کمزور یعنی آئی کیوبہت کم تھا ۔ باپ کی اتنی لاڈلی کہ اس کا پسندیدہ بھارتی اداکار شتروگھن سنہا خصوصی طور پر پاکستان مدعو کیا جاتا اور سرکاری مہمان کی حیثیت سے صدارتی محل میں ٹھہرتا۔ والد کے ساتھ کبھی زین ان جیسی یونیفارم پہنے بھی نظر آتی۔ صاحبزادی سرکاری پروٹوکول میں باوردی افسروں کے ساتھ اسلام آباد ٹیلی ویژن سینٹر پہنچیں تو بقول امیر امام صاحب، پروٹوکول دیکھ کر ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

خیر اسی پروٹوکول کے ساتھ صاحب زادی کو ٹیلی ویژن سٹیشن گھمانے کی ابتدا ابھی کی ہی تھی کہ وہ اچانک بضد ہو کر ڈٹ گئیں کہ مجھے تو قوم سے خطاب کرنا ہے۔ فوراً حکم کی تعمیل میں سٹوڈیو میں ایک ٹیبل کرسی لگا دی گئی۔ وہ اڑ گئیں کہ یہ وہ کرسی نہیں جیسی ابو کی ہوتی ہے، وہی کرسی چاہیے۔ ساتھ آئے افسران بھی صاحبزادی کے حکم کی تعمیل کی ہدایات دے رہے تھے، جس کی وجہ سے ٹیلی ویژن اسٹاف اور امیر امام صاحب کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اصل کرسی حاضر کی گئی۔ کیمرے آن کیے گئے۔ صاحبزادی کرسی پر براجمان ہوئیں۔ اچانک فرمایا کہ قائداعظم کی تصویر کہاں ہے جو کرسی کے پیچھے لگتی ہے۔ فوراً تعمیل کی گئی اور قائداعظم کو بھی حاضر کیا گیا۔ پھر اچانک صاحبزادی کو یاد آ گیا کہ پانی کا گلاس کہاں ہے جو ابو کے سامنے رکھا ہوتا ہے، قوم سے خطاب کے وقت۔ اسکی بھی تعمیل ہوئی تو سوال آیا کہ پاکستان کا جھنڈا کہاں ہے؟ سو پرچمِ پاکستان بھی پیش کیا گیا۔ پھر حکم ہوا کہ پہلے قومی ترانہ بجاؤ۔ سو وہ بھی ہوا۔ اب کہیں جا کر صاحبزادی نے اس بدنصیب قوم سے خطاب فرمایا۔ (نورالہدیٰ شاہ کے کالم سے اقتباس)

یادش بخیر: سابق چیف جسٹس پاکستان ارشاد حسن خان کہتے ہیں کہ میں تین سال چیف الیکشن کمشنر رہا۔ میرے ساتھ حکومتی و اپوزیشن سمیت ہر سیاسی پارٹی کا رویہ اگر درشت نہیں تو سردمہری پر ضرور مبنی تھا۔ میں ایک روز سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ دفعتاً میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور حقیقت کے پرت کھلتے چلے گئے۔ 2002ء کے الیکشن ہو گئے۔ پارلیمان فعال ہو چکی تھی۔ میرے سامنے ری پریذنٹیشن آف پیپل ایکٹ تھا۔ جس سیکشن 42 اے اور 25 اے کے تحت اگر کوئی رکن پارلیمنٹ اور ممبر صوبائی اسمبلی اپنے اثاثوں کی تفصیلات مقررہ مدت کے دوران الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کراتا اسکی ممبرشپ معطل کر دی جائیگی۔ یہ لوگ متعلقہ ہاؤس کے اجلاس میں قانونی طور پر حصہ نہیں لے سکتے۔ ہر ممبر کو اپنے‘ خاندان اور ڈپنڈنٹس (زیر کفالت افراد)کے اثاثے ہر سال 30 ستمبر تک جمع کرانے ہوتے ہیں جو اس دوران قانون کے مطابق عمل نہیں کرتے انکے نام 15 اکتوبر کو

الیکشن کمیشن نوٹیفائی کر دیگا۔2002ء میں کم و بیش تیس سال کے دوران پہلی مرتبہ ری پریذنٹیشن ایکٹ پر من و عن عمل ہوا۔ تیس ستمبر تک ارکان سے اثاثوں کی تفصیل طلب کی گئی جن لوگوں تفصیل فراہم نہیں کی ان کو 15 اکتوبر کے دن متعلقہ ہاؤسز میں کام کرنے سے روکنے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ میڈیا میں اس کا چرچا ہوا۔ اگلے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک طوفان برپا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کیخلاف جو کسی کی زبان پر آیا کہہ رہا تھا۔ کسی نے کہا اسے جرأت کیسے ہوئی‘ کوئی کہہ رہا تھا اس کا حساب بھی لیا جائے سائیکل سے اتنے بڑے عہدے پر کیسے آ گیا۔ میں نے یہ سب اخبارات میں دیکھا تو پریشان ہرگز نہیں ہوا تاہم افسوس ضرور ہوا۔ سپیکر چودھری امیر حسین تھے ان کو فون کیا انکے سامنے قانونی معاملات رکھے۔ وہ شریف اور وضعدار آدمی ہیں۔ وہ خاموش رہے ان دنوں ایک وفد یو این او گیا ہوا تھا۔ اسکے کچھ ارکان کی ممبرشپ بھی معطل ہو گئی۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے بات کی یا انکی طرف سے پیغام آیا۔ انکی رکنیت معطل نہ کی جائے۔ میں نے کہا کہ آئین سے انحراف ممکن نہیں‘ اس زد میں آپ آئے تو آپ سے بھی رعایت نہیں ہو گی۔ میرے خلاف پراپیگنڈا تو ہوا تاہم ایک کارخیر کا آغاز ہو گیا جس پر اب بھی باقاعدہ عمل جاری ہے۔

مذکورہ ایکٹ کے تحت غلط اثاثے ظاہر کرنے کی سزا سات سال قید ہے۔ارکان پارلیمنٹ اپنے اثاثوں کی تفصیل تو ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیتے ہیں مگر انکی تصدیق کا کوئی قابل اعتماد طریقہ نہیں ہے۔ میں نے سی بی آر کے سربراہ سے بات کی کہ وہ اپنے سورسز سے اثاثوں کی جانچ پڑتال کریں انہوں نے کہا قانونی طور پر ہم کسی کے اکائونٹس اور جائیداد کی معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔ چیئرمین نیب سے ملاقات کی انہوں نے میری تجویز کو تو سراہا مگر کوئی بھی کردار ادا کرنے سے پہلوتہی کی۔ میں نے خود اثاثوں کی شفافیت جانچنے کیلئے حکومت سے ایک ایڈیشنل سیکرٹری اور دیگر عملہ مانگا‘ حیران کن طور پر حکومت نے برضاورغبت اس پر آمادگی ظاہر کی مگر یہ طلسم زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔ میں نے کہا یہ ایڈیشنل سیکرٹری میری مرضی کا ہو گا۔ حکومت نے کہا کہ ’’نہیں‘ وہ ہم تعینات کرینگے۔ حکومت کی طرف سے دیئے گئے ایسے ایڈیشنل سیکرٹری کا ہونا نہ ہونا برابر ہوتا‘‘۔

کرپشن کا بازار جدید جمہوریت کے دور میں زیادہ ہی گرم ہو گیا۔ اس دور نے جنرل ضیاالحق کی اپنی اور انکی آمریت کی موت سے جنم لیا جو پھل پھول رہا اور کرپشن‘ بے ضابطگیوں‘ بے قاعدگیوں کی نئی جہتیں متعارف کرا رہا ہے۔ پانامہ اور بہاماز لیکس کرپشن کی دلدوز اور دلسوز داستانیں قوم کے سامنے ہیں‘ اسکے علاوہ ملک سے باہر جانیوالی دولت اور یہیں چھپائی جانے والی مایا کی مقدار و مالیت شاید ان لیکس میں سامنے آنیوالی کھربوں ڈالر مالیت سے زیادہ ہو۔ اگر ری پریذنٹیشن ایکٹ پر عمل اسکے آغاز کار ہی پر شروع ہو جاتا تو لوٹ مار کا یہ عالم نہ ہوتا جو آج نظر آ رہا ہے۔کرپشن کے خاتمے کیلئے جناب وزیراعظم میاں نوازشریف کا ’’عزم راسخ‘‘ سامنے آیا اسے امرت دھارا قرار دیا جانا چاہئے فرماتے ہیں اگر احتساب کا سلسلہ شروع کر دیا تو ترقیاتی کام رک جائینگے۔ کرپشن کے اشنان میں خود وزیراعظم صاحب کا نام بھی ہے جو انکی بدنامی کا باعث ہے۔ بدنامی کا داغ دھونے کیلئے تو وزیراعظم کو سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے۔

سیاست میں میراث ایک چلن اور چال بن گئی ہے۔ آج کی حکمران ایلیٹ کی میراث اگر قیامت تک چلتی ہے تو قیامت تک احتساب نہیں ہو سکتا اور میراث بھی زین ضیاء کی طرح لاڈلی ہے۔ پھوکے نعرے لگا رہی، نفرتوں کے پودے اگا رہی ہے۔ مریم نوازشریف نے ایک میڈیا ٹیم بنا رکھی ہے جس میں سے گورنر اور وزیر لئے جاتے ہیں۔ کابینہ کے بزرگ ارکان بھی نظریں جھکائے گزرتے ہیں۔ بلاول بھٹو قوم کی روشن امید ہیں جن کی زبان سیاسی مخالف بزرگوں کو زیادہ زخم لگاتی ہے۔ پاکستان کی تقدیر اس نوجوان کے ہاتھ آئیگی جس کے 4 مطالبات زین ضیاء کے قوم سے خطاب کی طرح ہیں۔

بچے بڑے بڑے بلکہ بہت بڑے فیصلے کرتے ہیں جہاں تک بھی کہ ابو نے کب بیمار ہونا، کتنا عرصہ ہسپتال میں رہنا، ’’سجن‘‘ یا دشمن سے کہاں ملاقات کرنی ہے۔ کسی کی اینٹ سے اینٹ بجانی اور پھر کیسے اور کہاں چھپ کر جان بچانی ہے۔ ڈان لیکس بھی ایسے ہی فیصلوں کا شاخسانہ تھی۔ جس کی رپورٹ کا کسی کو علم نہیں تاہم کہا جا رہا ہے تمام سفارشات پر عمل کر دیا جس نوٹیفکیشن پر فوج نے بیک وقت اشتعال اور تحمل سے کام لیتے ہوئے ٹرپل ون بریگیڈ کے بجائے ٹویٹ بھیجا۔ وزیر داخلہ نے بھی اسے قبول نہیں کیا اور نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اعلان کیا یہ بھی کہا کہ دو تین روز میں رپورٹ جاری کر دی جائیگی۔ مریم اورنگ زیب نے بھی ایک دو روز میں نئے نوٹیفکیشن کی بات کی۔ مگر اب کہا جا رہاہے پہلے والا نوٹیفکیشن ہی حتمی اور درست ہے۔ معاملہ حکومتی کارگزاروں نے الجھایا وزیراعظم اور جنرل قمر کی ملاقات کے بعد جو کچھ کہا گیا اس سے مزید الجھ گیا۔ کچھ لوگ فوج اور سیاسی حکومت کے دست وگریبان ہونے کی امید لگائے بیٹھے تھے ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ فوج کا فواد حسن فواد کے نوٹیفکیشن پر تلملانا  معنی خیز تھا وہ کیا تحفظات تھے جن سے فوج نے بیک آئوٹ کیا۔ وزیراعظم بلاشبہ اتھارٹی ہیں۔ انکی اپنی پوزیشن کلیئر اعتبار اور ساکھ ہونی چاہئے۔ وہی کچھ سچ نہ مانا جائے جو وزیراعظم کہتے ہیں بلکہ جو سچ ہے وزیراعظم وہی کہیں۔ ڈان لیکس کا جس طرح ڈراپ سین ہوا وہ جنرل باجوہ کی ساکھ کو کمزور کر گیا۔ سکیورٹی بریچ ہوئی تو اسکی سزا معطلی ہی کافی ہے؟ رپورٹ کیوں جاری نہیں کی جا رہی کس کو بچایا جا رہا ہے؟ جنرل قمر اسی نہج پر ایک دو معاملات مزید سلجھا دیتے ہیں تو فوج کو اسی لیول پر لے آئیں گے جس پر مشرف لے آئے جب فوج شہروں کا رخ اپنی شناخت چھپا کر کرتی تھی۔سینٹ میں پی ٹی آئی کے رکن نعمان وزیر خٹک نے حکومت سے مبینہ ڈیل پر جنرل قمر جاوید باجوہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے،بات چل نکلی ہے تو نہ جانے کہاں تک پہنچے۔

 

 

متعلقہ خبریں