یوم پاکستان اور بزم گجراں
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع مارچ 26, 2017 | 13:24 شام
پل کے وسط میں گاڑی دھماکوں کی گرج سے لرزی تو یہ پل پلصراط لگ رہا تھا۔ آگے پیچھے ٹریفک جام، دھماکے پر دھماکہ ہو رہا تھا مگر ان دھماکوں کی گونج میں خوف کافور جبکہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ یہ یوم پاکستان 23 مارچ کو آزادی چوک میں آتش بازی سے ہونیوالے دھماکے، انکی گونج ،گرج اور گڑگڑاہٹ تھی۔ آزادی چوک پلوں کا جال بنا ہوا ہے، لاہور اور اس مقام پرنئے آنیوالوں کیلئے کبھی کبھی جنجال بھی بن جاتا ہے۔ پنجاب حکومت نے اس مقام کو پر شکوہ مقام بنا دیا ہے۔ 22 اور 23 مارچ کی درمیانی شب جب سوئی پر سوئی چڑھی تو مینار پاکستان جو روشنیوں میں نہایا ہوا تھا، اسکی لائٹ بند ہو گئیں۔ آتش بازی سے آسماں کہکشاں اور علاقہ گلفشاں بن گیا۔ آتش بازی کے آخری لمحات میں چھوڑے گئے پٹاخے زور دار دھماکوں سے پھٹ رہے تھے۔ ان سے گاڑیوں میں ارتعاش محسوس ہوتا تھا۔ پلوں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ ہمارے ہاںپل کبھی ہوا کے جھونکے اور پانی تھپیڑے سے بھی گرتے دیکھے گئے ہیں۔ ایسے میں زباں سے یہ نکلنا تعجب خیز نہیں ہونا چاہئے۔ مولا کل کی خیر، شہباز شریف کے پل کی خیر۔ لوگ گاڑیوں سے نکل اور بائیکس سے اتر کر آتش بازی کے دلکش و دلفریب مناظر کی ویڈیو اور تصاویر بنا رہے تھے۔پیدل چلنے والے بھی آسانی سے آگئے تھے۔ ایک نوجوان میاں صاحب زندہ باد کے نعرے لگائے چلا جا رہا تھا۔ ان حالات میں سکیورٹی اقدامات اور انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ میں خود بھی یہاں سب کو غیر محفوظ تصور کر رہا تھا۔ اس کا اظہار کیا تو میاں صاحب زندہ باد کے نعرے لگانے والے نوجوان کے ساتھ کھڑے اسکے ساتھی نے کہا فکر نہ کریں مسلم لیگ ن کی حکومت کے زیر اہتمام تقریبات کو دہشتگردوں اور دہشتگردی سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔دہشت و وحشت کی فضاء میں یوم پاکستان جوش و خروش، پورے ولوے اور اسکے شایان شان طریقے سے منایا گیا۔ مرکزی پریڈ ماضی کی طرح جوبن پر نظر آئی۔ ہمارے ساتھی کالم نگار اسرار بخاری کو اس تقریب میں ’’خواتین کی پریڈ‘‘ پر اعتراض ہے۔ وہ صنف نازک کے پریڈ میں شمولیت پر شریعت کی رو سے بات کر رہے تھے۔ انکے بقول پریڈ زبردست تھی خواتین کی پریڈ کی عدم شرکت سے مزید باوقار ہو جاتی۔ یہ بہرحال بخاری صاحب کا نکتہ نظر ہے۔
عین یوم پاکستان کے موقع پر بھارت کا وہ بہت بڑا اور اونچا فلیگ ہوا کے تھپیڑوں سے لیرو لیر ہوگیاجو اس نے پانچ مارچ کو واہگہ بارڈر پر ہم پاکستانیوں کا دل جلانے کیلئے لگاکر لہرا رکھا تھا۔ بنیا اپنے فلیگ کی تیاری میں سے پیسے کھا گیا یا کنجوسی کر گیا شاہد ململ کا پکڑا لگا دیا ،پیراشوٹ کا لگایا ہوتا تو چار دن نکال جاتا۔ ہمارے لوگ بھی کبھی بنیے کو بھی مات دے دیتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں فیصل آباد کے سرمایہ داروں نے خانہ کعبہ کا غلاف بنایا جس کا چند ہفتوں میں رنگ اتر گیا تھا۔
واہگہ بارڈر پر ہونیوالی پریڈ بھی قابل دید تھی۔ رانا اقبال اس پریڈ کے مہمان خصوصی تھے۔ اس عمر میں بھی کیسے چاک و چوبند اور سمارٹ ہیں۔ ایکسرسائز کیا کرتے ہونگے موچھوں کا اپنے وزن کے برابر وزن اٹھائے پھرنے سے ایکسرسائز ہو جاتی ہے۔
یوم پاکستان سے ایک دو روز قبل چودھری اکرم نے اپنے ہاں روایتی تقریب کا اہتمام کیا ۔میں اس میں پہلی بار شریک ہوا تھا یہ اصل میں بزم گجراں تھی، جس میں کچھ غیر گجروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ چودھری صاحب نے سوا سات بجے آنے کو کہا ہم آٹھ بجے پہنچے تو پنڈال خالی تھا۔ سوچا ہم جلد آ گئے یا بہت لیٹ ہو گئے ۔قبل الذکر خیال درست تھا اسکے بعد مہمان آنے لگے اور آتے ہی گئے تاآنکہ ساڑھے نو بج گئے۔ سعید آسی، غلام نبی بھٹ اور راقم ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ ہمارے درمیان ارشاد عارف صاحب بھی آکر بیٹھ گئے ۔انکے ساتھ شفیق سلطان تشریف فرما تھے۔ بڑے لوگوں کو اکرم چودھری صاحب بہ ا صرار آگے لے جا رہے تھے جو ہم فرنٹ پر بیٹھنے والوں کیلئے پچھلا حصہ تھا۔ ایسی تقریبات میں جناب مجیب الرحمن شامی رونق بخشتے ہیں ان کو بلاشبہ عوامی ایڈیٹر کہا جا سکتا ہے۔میں 25 سال قبل لاہور آیا شامی صاحب کو اسی طنطنے اور طمطراق کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ اس بزم میں چودھری جعفر اقبال، چودھری امیر حسین‘ حفیظ اللہ نیازی‘ جی ایم سکندر‘ حبیب اکرم‘ چودھری خرم گجر‘ کرنل فرخ‘ ڈاکٹر رزقہ‘ خلیق سجاد‘ رمضان گجر‘ شہزاد گجر‘ ڈاکٹر امجد ثاقب‘ عطاء الرحمان‘ عمرشامی‘ ظفر گجر‘ عثمان گجر‘ زاہد چودھری‘ اسد کھرل‘ چودھری سجاد‘ خالد یعقوب‘ ڈاکٹر افتخار‘ رانا نذیر‘ بریگیڈیئر غضنفر اور جنرل مبشر موجود تھے۔ جن کے نام کے ساتھ گجر نہیں‘ ان کو اپنی طرف سے گجر پڑھا جائے‘ یہ تمام نام روزنامہ سٹی 42 کی خبر سے لئے گئے ہیں۔ تقریبات اور اجتماعات میں گریز کے باعث بہت سے لوگوں کو میں نہیں جانتا ۔ان کو میں بزم کی مناسبت سے گجرسمجھ رہا تھا۔ باقی بھی شاید ایک دوسرے کونہ جاننے والے ایسا ہی سمجھ رہے ہوں۔ تاہم ایک اخبار میں شرکاء کے ناموں میں میرانام فضل حسین اعوان گجر لکھا تھا۔ اس تقریب میں پانامہ کیس کا فیصلہ موضوع بحث تھا۔ بڑے دانشوروں میں کچھ اس یقین سے ممکنہ فیصلے کے بارے میں بات کر رہے تھے جیسے پانچ ججوں کے ساتھ یہ چھٹے صاحب تھے اور فیصلہ لکھوا کر اٹھے ہیں۔ اس بزم میں ایک صاحب نے ملک کے موجودہ حالات پرایک حکایت سنائی۔ حکایت حکایت ہوتی جس سے درس و سبق مقصود ہوتا۔
ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ، ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا۔ ’’کس قدر ویران گاؤں ہے؟ ‘‘طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الْو کا گزر ہوا ہے‘‘۔جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ، عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا ،اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا۔’’ تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو، آج تم میرے مہمان بن جاؤ۔‘‘ اْلو کی محبت بھری دعوت سے یہ جوڑا انکار نہ کرسکا۔ انہوں نے اْلو کی دعوت قبول کرلی،کھانا کھا کر جب رخصت ہونے کی اجازت چاہی، تو اْلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا ور کہا۔’’ تم کہاں جا رہی ہو‘‘؟طوطی پریشان ہو کر بولی۔’’ یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ،میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں‘‘۔
الو یہ سن کر ہنسا،اور کہا۔’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو تم تو میری بیوی ہو‘‘۔اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی، دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اْلو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ۔’’ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا۔‘‘طوطا مرتا کیا نہ کرتا۔ تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ، ،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اْلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخواست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اْلو نے اسے آواز دی۔’’بھائی اکیلے کہاں جاتے ہو اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘
طوطے نے حیرانی سے اْلو کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے۔‘‘اْلو طوطے کی بات سن نرمی سے بولا۔’’ نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں اْلو ویران نہیں کرتے،بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے‘‘۔