اپنا گھر … گرین فرائیڈے

سال کے آخر پر قیمتوں میں زبردست کمی کی روایت پاکستان میں نیکی کی طرح آہستہ آہستہ آنا شروع ہوئی مگر آج یہ شر کی طرح پھیل رہی ہے گو یہ شر نہیں ہے۔ میڈیا میں اسکے چرچے ہیں، بڑے بڑے اشتہار شائع ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ترغیبات کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ ہم رمضان میں لوٹ مار کا طوفان اٹھا دیتے ہیں۔ مغربی روایت پر عمل کرتے ہوئے منافع میں نقصان تو کیا فقدان بھی کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ کلیرنس سیل تو ایک الزام ہی ہے۔ کلیرنس سیل کے نام پر دو نمبری دیکھی گئی ہے ، چکر دیئے جاتے ہیں، غیر معیاری اشیاء کو کلیرنس سیل کا نام دیدیا جاتا ہے۔ جنیوئن کلیرنس سیل بھی لگتی ہے مگر ان کمپنیوں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی رمضان المبارک میں جائز منافع لینے والوں کی۔ ان کو بھی تلاش کرنا پڑتا ہے۔
توڈھونڈ اسے چراغ رخ زیبا لے کر
مغربی روایات کو فروغ مل رہا ہے، اچھا ہے، کسی بہانے ہی لوگوں کو کم قیمت پر مرضی کا سامان اور اشیاء دستیاب ہوتی ہیں۔ اب آن لائن شاپنگ سنٹر کھل گئے ہیں، بہت سے ایسے سنٹر لوٹ سیل کے بینر لگا رہے ہیں۔ عموماً خریدار کو ہی لوٹا جاتا ہے۔ کلیرنس سیل والوں کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر 80فیصد رعایت کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ گاہک یہ دیکھ کر امڈ پڑتے ہیں، پتہ چلتا ہے دس روپے والی پنسل دو روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ چند روز قبل جس ٹیب یا موبائل کی قیمت دس ہزار تھی اس پر پندرہ ہزار کا سٹکر لگا کر پانچ ہزار کی رعایت دکھا دی جاتی ہے۔ اکثر یہی ہوتا ہے مگر فراڈ نہ کرنیوالے ادارے اور کمپنیاں بھی ہیں مگر پھر وہی بات:
تو ڈھونڈ اسے چراغِ رخ زیبا لے کر
مغرب میں سال کے آخری دنوں میں یہ روایت کیسے پڑی یہ بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔
یاست ہائے متحدہ امریکہ میں یوم شکرانہ نومبر کی چوتھی جمعرات کے بعد آنیوالے جمعہ کو منایا جاتا ہے ۔ 2000ء کے اوائل سے، امریکہ میں یہ دن کرسمس کی خریداری کرنے کے آغاز کے طور پر منایا جانے لگا۔ اس موقع پر، خریداری کے بیشتر مراکز صبح سویرے سے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور خریداری کی اشیا پر خصوصی رعایت کی پیش کش بھی کرتے ہیں۔ بلیک فرائیڈے کو اگرچہ سرکاری تعطیل نہیں ہوتی، تاہم کیلیفورنیا اور بعض دیگر ریاستوں میں سرکاری ملازمین کسی دوسری وفاقی تعطیل (مثلاً یوم کولمبس) کے بدلے ’’یومِ شکرانہ سے اگلا دن‘‘ چھٹی کے طور پر مناتے ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں یومِ شکرانہ اور اس سے اگلے دن جمعہ کو بھی چھٹی ہوتی ہے، یوں وہ چار چھٹیوں پر مشتمل طویل ویک اینڈ مناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خریداروں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2005ء سے یہ دن خریداری کے اعتبار سے سال کا سب سے مصروف ترین دن بن گیا۔
فلاڈیلفیا میں یومِ شکرانہ سے اگلے دن سڑکوں پر پاپیادہ چلنے والوں اور گاڑیوں کے بے پناہ ازدحام کے باعث اس دن کو بلیک فرائیڈے کہا جانے لگا۔ اس اصطلاح کا استعمال 1961ء سے بھی قبل ہوا، اور 1975ء کے لگ بھگ اسے فلاڈیلفیا سے باہر بھی جانا جانے لگا۔ بعد ازاں، اسکی ایک دوسری توجیہ بھی پیش کی گئی: پرچون فروشوں کو عموماً جنوری سے نومبر تک مالیاتی خسارے کا سامنا رہتا تھا (جسے ’سرخ‘ رنگ سے ظاہر کیا جاتا ہے)، اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ اس نقطے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ منافع کمانا شروع کرتے ہیں (جو ’’سیاہ‘‘ رنگ سے ظاہر کیا جاتا ہے)۔
اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اصطلاح سب سے پہلے فلاڈلفیا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ٹریفک سکواڈ نے استعمال کرنی شروع کی۔ فلاڈلفیا بلیٹن کے رپورٹر جوزف پی بیریٹ کا کہنا تھا کہ ’’شکرانے کے دن سے اگلے جمعہ کو جب کرسمس کی خریداری کے دن کے طور پر منایا جانے لگا تو اس روز بے تحاشا ٹریفک جام رہنے لگا۔ مگر ہم کسی صورت ایسے دن کو وہ نام نہیں دے سکتے تو آج ہمارے ہاں درآمد ہو کر رائج ہو رہا ہے۔ ہم نے اگر یہ سب کچھ جمعہ ہی کو کرنا ہے تو سید الایام کے احترام میں اسے گرین فرائیڈے، ہیپی فرائیڈے یا بیوٹی فل فرائیڈے کہا جا سکتا ہے ویسے بھی ہمارے ہاں یہ صرف ایک دن ہی نہیں ہفتوں پر مشتمل سیل ہوتی اسی مناسبت سے نام دیا جا سکتا ہے۔ گولڈن ویک یا سنہری ہفتہ وغیرہ۔
اگر کسی نے کہا ہے کہ گھر جنت ہوتا ہے تو غلط نہیں کہا۔ اپنے گھر کی ہر شخص کو خواہش ہوتی ہے کئی لوگ تو اپنے گھر کی حسرت لئے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ کئی پائی پائی جوڑ کر آشیانہ بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ مافیاز انسان کے اپنے گھر کی آرزو اور امنگ کو اپنے منافع اور مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں بے شمار ہائوسنگ سکیمیں ہیں ان میں ہر قسم کی موجود ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ فراڈ ہائوسنگ سکیموں میں ہوتے ہیں۔ فراڈ سکیمیں، ایسے لوگوں کیلئے بھی بدنامی کا باعث ہیں جوگو منافع تو کماتی ہیں مگر فراڈ نہیں کرتیں ۔
توڈھونڈ اسے چراغ رخ زیبا لے کر
حکومت کا کام مافیاز کے پر کترنا ہے مگر جب حکومت بھی دو نمبری کرے تو گلہ کس سے کیا جائے۔ پھر نیب کی طرف ہی نظریں اٹھتی ہیں جو عموماً حکومت کا آلہ کار رہا ہے مگر آج حالات بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔ نئے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی شخصیت مکمل طور پر غیر متنازعہ نہیں رہی ہے۔ اللہ نے ان کو ایک بہترین موقع دیا ہے جسٹس جاوید اقبال موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر لٹنے والے لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کرکے اگلے جہاں میں بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔ انکے پیشرو قمر چودھری نے خدمت گاری کا جو طوق پہنا تھا وہ بہت بڑے عہدے پر متمکن ہو کر بھی نہ اتار سکے۔
گزشتہ دنوں ایل ڈی اے سے جعلی ہائوسنگ سوسائٹیز کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ جعلی ہائوسنگ سوسائٹیز لوگوں سے اربوں روپے لوٹ چکی ہیں اور اس کاروبار میں ایل ڈی اے کے افسر و اہلکار بھی انکی مدد کر رہے ہیں۔ بے شمار ایسی سوسائٹیز بھی ہیں جن کے پاس زمین انتہائی کم ہے مگر انہوں نے ہزاروں ایکڑ زمین کاغذوں میں فروخت کر دی ہے اور اب لوگ پلاٹس کے حصول کیلئے دربدر ہو رہے ہیں۔ آج ایک حکومتی سکیم کے متاثرین بھی پریشان حال ہیں۔
پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہائوسنگ فائونڈیشن سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی کے دور میں شروع ہوئی جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ سرکاری ملازمین کیلئے اب ذاتی گھر، ملازمین کیلئے اس سکیم میں ’’کشش‘‘ یہ کہہ کر پیدا کی گئی۔ حکومت پنجاب کے تمام سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ پر مکان کی فراہمی،مکانات کی تعمیر کیلئے سرکاری زمین کی فراہمی، ہر سرکاری ملازم کو فائونڈیشن کا رکن بننے کا حق، صرف مقرر کردہ فارم پر کرنے پر، دوران ملازمت آسان ماہانہ اقساط پر قیمت کی تنخواہ سے کٹوتی۔ ممبران کی جمع شدہ رقم پر سالانہ منافع، ریٹائرمنٹ پر مکان کی بقیہ قیمت ادا کرنے کیلئے بینک سے قرضہ کی سہولت، بوقت قبضہ مالکانہ حقوق کی منتقلی۔ملازمین نے جس جوش و خروش سے اس سکیم میں حصہ لیا اور اعتماد کیا وہ آج پریشان ہیں۔
اب دیگر اضلاع میں اگرچہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے مگر یہ الاٹمنٹ بذریعہ قرعہ اندازی ہو رہی ہے، حالانکہ جس ضلع سے ریٹائرڈ ملازم کا تعلق ہو اسے ریٹائرمنٹ پر اسی ضلع میں وعدے کے مطابق تیار گھر، نہیں تو کم از کم پلاٹ ہی الاٹ ہونا چاہئے مگر فائونڈیشن نے اپنے ممبران کو اعتماد میں لئے بغیر اس میں تبدیلی کرلی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کو دور دراز اضلاع میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں وہ گھر تعمیر کروا سکتے ہیں نہ اپنے مالکانہ حقوق کی نگرانی، ممبران کو ان امور سے باخبر رکھنے کیلئے 2004ء سے 2017ء تک فائونڈیشن کی کارکردگی اخبارات میں شائع ہونی چاہئے کیونکہ فائونڈیشن کے گرد مبینہ طور پر پراپرٹی ڈیلرز کے حصار اور اہلکاروں کے ساتھ انکی ملی بھگت کی شکایات عام ہو رہی ہیں اس وقت فائونڈیشن کی کارکردگی پر کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کے ریٹائرڈ لوگوں کیلئے لاہور میں جگہ ناپید ہو چکی ہے جب ایل ڈی اے سٹی اور دیگر پرائیویٹ ہائوسنگ سکیمیں دھڑا دھڑ وجود میں آ رہی ہیں تو لاہور ڈومیسائل کے درخواست گزاروں کیلئے سکیم میں گنجائش کیوں نہیں؟ چیئرمین نیب کی طرف ہائوسنگ فائونڈیشن کے متاثرہ ملازمین امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔