فیلڈ مارشل میکارتھر،جنرل راحیل شریف

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 27, 2016 | 09:42 صبح

 

جنرل میکار تھر کو امریکہ کا سب سے زیادہ کامیاب اور قابل احترام جرنیل سمجھا جاتا ہے، دوسری جنگ عظیم میں جہاں انہوں نے جاپانی فوج سے ہتھیار ڈلوائے وہیں بادشاہت بچانے میں ان کا کردار اہم تھا۔ جنگ عظیم کے بعد بھی ان کے کارنامے ان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں 5 جرنیلوں کو جنرل آف دی آرمی(فائیو سٹار جنرل) کا رینک دیا گیا ان میں ایک میکارتھر تھے۔میکارتھر واحد امریکی ہیں جو فیلڈ مارشل کے رینک تک پہنچے ۔جاپان کو فتح کرنے کے بعد وہ طویل عرصہ تک جاپان کے معاملات چلاتے رہے۔ ان کے تجربات کا فائدہ اٹھانے کیلئے انہیں جنگ کوریا میں شمالی کوریا کیخلاف عالمی فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ چین شمالی کوریا کی پشت پناہی کرتا تھا۔ جنرل میکاتھر چین کی کوریا کی جنگ میں مداخلت روکنا چاہتا تھا۔ اس کیلئے اسکی تجویز تھی کہ ایک ایٹم بم چین پر بھی برسا دیا جائے۔ صدر ہیری ٹرومین کے ضمیر پر شاید ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کا بوجھ تھا اس لئے کوشش تھی کہ جنگ بندی ہوجائے۔ دوسری طرف جنرل میکارتھر نے ایوان نمائندگان کے اقلیتی لیڈر جومارٹن کو خط لکھ کر صدر اور انکے ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خود سے چین کو الٹی میٹم بھی دیدیا کہ وہ کوریا سے فوجی دستے نکالے یا امریکہ کے حملے کا سامنا کرے۔ یہ وائٹ ہاﺅس کی جنگ بندی کی کوششوں کو ایک دھچکا تھا۔ صدارتی اختیارت میں مداخلت اور فوج کی پیشہ ورانہ غیرجانبداری کی روایت کو توڑنے کی پاداش میں صدر ہیری ٹرومین نے جنرل میکارتھر کو کوریا کی کمان سے فارغ کردیا۔ یوں امریکی فوجی ہیرو کا تابناک کیرئیر ناخوشگوار انداز میں اختتام کو پہنچا۔ جنرل میکارتھر امریکہ پہنچا تو اسکا فوجی ہیرو کے طور پر بھرپور استقبال کیا گیا۔ اس پر اس قدر پھول نچھاور کئے گئے کہ بلدیہ کو مسلسل تین روز تک صفائی کرنا پڑی۔ کانگریس نے جنرل ڈگلس میکارتھر کو اجلاس سے خطاب کی دعوت دی تو ان کی پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ اسے 30 مرتبہ خطاب اس لئے روکنا پڑا کہ ارکان اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کلیپ کرتے ہوئے اسے داد دیتے اور خراج تحسین پیش کررہے تھے۔میکارتھر کا نام آج بھی امریکیوں اور جاپانیوں کیلئے محترم ہے۔ جنرل میکارتھر نے کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔

Old Soldiers never die they Just Fade away

پرانے سپاہی کبھی نہیں مرتے، تاہم ان کی چمک آہستہ آہستہ ماند پڑ جاتی ہے۔ ان کا یہ قول حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ خود میکارتھر کو مرے نصف صدی ہو گئی امریکیوں اور جاپانیوں کیلئے ان کی قدر و منزلت کم نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی زندہ جاوید اور محترم ہے۔ خالد بن ولید کی شجاعت عسکری تاریخ میں روشن باب کی حیثیت سے صدیوں سے موجود ہے۔ میجر عزیز بھٹی کو قوم نے کب فراموش کیا؟ جنرل اختر ملک، ٹکہ خان اور ایم ایم عالم کی چمک کبھی ماند نہیں پڑی۔

آج جنرل راحیل شریف کو پاکستانیوں میں وہی عزت و احترام کا مقام حاصل ہے جو امریکیوں میں میکارتھر کو ہے مگر انجام کار میں بڑا فرق ہے۔ جنرل راحیل شریف باوقار طریقے سے ریٹائر ہوئے۔ قوم کی طرف سے ایسی عزت پاکستان کی تاریخ میں کسی سپہ سالار کے حصے میں نہیں آئی۔ایک موقع پر جسٹس افتخار محمد چودھری بھی عوامی چیف بن گئے تھے مگر وہ اپنا بھرم برقرار نہ رکھ سکے۔ جنرل راحیل کو توسیع مل جاتی تو شاید وہ بھی ....

جنرل راحیل شریف نے اپنی تین سالہ کمانڈری میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ان کے جاں نشین قمر جاوید باجوہ بھی ایسا کرتے ہیں تو یہ روایت بن جائے گی۔ جنرل راحیل کے ابتدائی چند ہفتوں کا جائزہ لیں تو دہشتگردوں کی طرف سے فوج پر حملوں کا سخت اور شدت سے جواب دیا جانے لگا۔ بھارت کو ایل او سی اور ورکنگ باﺅنڈری پر جنرل راحیل کی مدت ملازمت کے آخری دنوں بھی جواب پتھر سے دیا جا رہا ہے۔ آپ دشمن کو اس کے پہنچائے نقصان سے زیادہ تباہ کریں تو اینٹ کا جواب پتھر ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی جنگ کی تیاری مکمل ہے، اس کی فوج کیل کانٹے سے لیس بارڈر پر تیار کھڑی ہے مگر آگے بڑھنے کی جرا¿ت نہیں کر رہی کیونکہ سامنے جنرل راحیل کا مُکّا لہراتا نظر آتا ہے۔

جنرل راحیل کی وزیراعظم ہاﺅس میں الوداعی تقریب میں خطاب کے دوران یہ کہنا قوم کے حوصلے بڑھا گیاکہ ہم نے سرجیکل سٹرائیک کی تو بھارت نصاب میں پاک فوج کے قصے پڑھائے گا۔ بھارت کی طرف سے خدانخواستہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کا انتظار نہ کیا جا رہا ہو۔جس طرح بنیے نے حیدر آباد دکن پر حملے اور قبضے کیلئے قائداعظم کی رحلت کا انتظار کیا تھا۔

وزیراعظم نواز شریف نے جنرل راحیل کو بڑے تزک و احتشام سے الوداعیہ دیا۔ اس عشائیہ میں متواتر قومی نغمے بجتے رہے، جرنیلوں نے سرمونیئل ڈریس پہن رکھے تھے، اس تقریب میں وزیراعظم نے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے خود کو بہترین سپہ سالار ثابت کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف جنرل کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ مریم نواز بھی خراج تحسین پیش کر چکی ہیں۔ خورشید شاہ کی طرف سے توصیفی کلمات کے ساتھ ان کی خدمات کو سراہا گیا ہے۔ یہ تعریفیں یہ عزت و احترام خراج تحسین سیاستدانوں کے دُہرے معیار کی ذہنیت کا شاہکار ہے۔ یہ لوگ جنرل راحیل کو جمہوریت کے لئے خطرہ سمجھتے رہے۔ کرپشن اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے بیانات کو سیاست میں مداخلت قرار دیتے رہے۔ اگر ن لیگ کو ان سے اتنا ہی پیار تھا جتنا اب جتایا جارہاہے تو کم از کم ان کو اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کر لینے دیتے جو انہوں نے قومی مفاد میں شروع کیا تھا۔ ان کو مدت ملازمت میں توسیع کے مطالبات ہوتے رہے، عمومی رائے عامہ بھی یہی تھی جبکہ جنرل کیانی کی توسیع کیلئے ایک بھی آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔ جنرل راحیل کو توسیع کی اس لئے بھی ضرورت نہیں تھی کہ انہوں نے ایک مضبوط اور پاور فل لیگیسی چھوڑی ہے، نظر تو یہی آتا ہے۔ جنرل راحیل کا ایجنڈا ان کا ذاتی و مفاداتی ایجنڈا نہیں تھا، قومی ایجنڈا تھا۔ اس کی تکمیل میں وہ زیادہ مصلحتوں کا شکار نہیں ہوئے تاہم مروجہ جمہوریت میں ان کا رویہ کئی مراحل میں لچکدار رہا۔ ویسے جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ پر سب سے زیادہ خوش بلکہ شاداں و فرحاں جنرل کیانی ہونگے جن کے بھائی کامران کیانی پر ان کی کرپشن کے باعث ہاتھ ڈالا گیا اور جنرل کیانی کے استحقاق سے زیادہ پلاٹ بھی تنازع کی صورت شکل اختیار کئے رہے۔

جنرل راحیل شریف بطور آرمی چیف کوئی اخیر نہیں کر گئے، ان کے جاں نشیں کیلئے ان سے کہیں بڑھ کر اپنی اہلیت ثابت کرنے اور کارنامے انجام دینے کے مواقع موجود ہیں۔ جو جرنیل کشمیر آزاد کروائے گا وہ ہر پاکستانی اور ملت کے ہر فرد کی آنکھوں کا ستارہ ہو گا۔ یہ میدان نئے فوجی سربراہ کے لئے کھلا ہے۔

شفق