انسانیت،اسلامیت،پاکستانیت

2017 ,اپریل 23

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

 

نواب حیدر آباد دکن پُرشکوہ بگھی شاہراہ سے گزر رہے تھے۔ ساتھ کمسن بیٹا بھی تھا ، اس نے بگھی رکوا ایک کم سن بچے کی طرف اشارہ کیا، اسکے ہاتھ میں بُلبُل کا بچہ تھا،جو چھوٹے نواب صاحب کو پسندآگیا۔ اس بچے کو نواب صاحب کے میر منشی نے بلکرکہا۔”ایک ہزاربلبل ہمیں دیدو“۔ غریب بچے نے ناں کر دی۔ دو ہزار، پانچ ہزار، دس بیس حتیٰ کہ بچہ ایک لاکھ روپے میں بھی خوبصورت پرندہ فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔پاﺅں سے ننگایہ بچہ اپنی ہی عمر کے بگھی سوار بچے کو حسرت سے بسکٹ کھاتے دیکھ رہا تھا۔ منشی معاملے کی طے تک پہنچ گیا۔ اس نے کہا بیٹا بسکٹ کے بدلے بلبل دیدو ۔ بچے دونوں ہاتھ بغیر کچھ بولے آگے بڑھا دیئے۔ ایک بلبل تھمانے دوسرا بسکٹ پانے کےلئے۔ نواب صاحب نے بسکٹوں کے ایک ڈبے کے بدلے بلبل خرید لیا۔

دو روز قبل زیارت میں الہجرہ ریذنڈنشل سکول اینڈ کالج کی 13 ویں انورسری تھی۔ یہ سکول عبدالکریم ثاقب کی چیئرمین شپ میں ایک ٹرسٹ کے تحت چل رہا ہے۔ یہاں غریب والدین کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔اب بچوں کی تعداد دوسوہے۔ ٹرسٹ  انتظامیہ کے مطابق  سٹوڈنٹس کے کمروں کی روٹین انسکپشن کے دوران ایک بچے کے سامان سے سیب ملا۔ دو تین روز قبل کھانے کے ساتھ بچوں کو سیب دیئے گئے تھے۔ اس بچے سے پوچھا کہ تم نے سیب کھایا کیوں نہیں؟ اس کا جواب تھا، دو تین روز بعد چھٹی جانا ہے، یہ چھوٹی بہن بھائی کیلئے رکھ لیاتھا۔

زیارت میں الہجرہ سکول و کالج میں ساتویں سے ایف ایس سی تک کلاسیں ہوتی ہیں۔ بچوں کی سلیکشن کا طریقہ بھی بڑا منفرد ہے۔ بلوچستان کے 31 اضلاع ہیںاب ایک نیا ضلع صحبت پور شامل ہورہا ہے، ہر ضلع سے ٹیسٹ انٹرویو کے بعد دو بچے لیے جاتے ہیں۔ میرٹ یہی ہے کہ:۔ والد کی ماہانہ آمدنی بارہ ہزار سے زیادہ نہ ہو، بچے نے چھٹی کلاس سرکاری سکول کی پاس کی ہو۔ ادارے کا ماٹوانسانیت ،اسلامیت اور پاکستانیت ہے۔ یہ محض ماٹو برائے ماٹو نہیں، اسکے مطابق تدریس اور تربیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تدریس کے تین میڈیم اردو، انگلش، عربی ہیں۔ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبا کچھ تو یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں، کچھ برسرِروزگار ہیں، تیس ڈاکٹرلگ بھگ اتنے ہی انجینئر اور کچھ فوج میں ہیں۔ کاکول میں ایک لڑکا گیا تو وہاں عرب ممالک کے کیڈٹ بھی تھے۔ اسے عربی آتی تھی، عرب کیڈٹس کے ساتھ اکیڈمی کی کمیونیکیشن سہل ہو گئی۔ کمانڈنٹ نے ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالکریم ثاقب کو خصوصی طور پر مدعوکیاتھا۔ الہجرہ سکول و کالج کے معیار کے پیش نظر بڑے لوگ اپنے بچوں کو داخل کرانا چاہتے ہیں مگر ایسا ممکن نہیں۔ ادارے کے چیف ایگزیکٹوعبدالرحمن عثمانی کی اپنی خواہش ہے کہ انکے بچے اس ادارے میں تعلیم حاصل کریں مگر اصول انحراف ممکن نہیں۔

زیارت کے قریب 56 ایکڑ پر سکول محیط ہے تاہم مختصر حصے پر تعمیرات کی گئی ہیں۔ عبدالکریم ثاقب خود لندن میں ہوتے ہیں، وہاں سے فنڈنگ کرتے اور دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک بار مشکل گھڑی میں لندن کا گھر فروخت کرکے ادارے کے اخراجات پورے کئے۔ ایسے ادارے فنڈنگ سے زیادہ عزم و ارادے پر چلتے ہیں۔ سکول کی چار دیواری ابھی تک نہیں ہو سکی۔ بہرحال انتظامیہ اپنے کاز کےلئے پرعزم ہے۔ اسکے پاس وسائل ہوں تو اگلا منصوبہ خیبر پی کے، اسکے بعد سندھ اور جنوبی پنجاب تک ایسے ماڈل متعارف کرانے کا پلان ہے۔

 ادارے میں تدریس و تربیت ہوتی ہے،ڈسپلن کو بھی حرزِ جاں بنایا گیا ہے۔ صبح اسمبلی ڈسپلن کی عمدہ مثال ہے۔ قائداعظم، علامہ اقبال، حکیم سعید، ڈاکٹر عبدالقدیر بلاک بنائے گئے ہیں۔ انکے الگ الگ کلر ہیں۔ ادارے میں شروع میں صرف اردو میں بات چیت کی جاتی ہے۔ انگلش اور عربی سیکھنے پر اس قدر زور ہے کہ ایف ایس سی پہنچنے تک بچے انگلش اور اردو میں گفتگو کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

تقریب میں جنرل عبدالقادر بلوچ مدعو تھے ان کو ایران جانا پڑ گیا۔انکی ”عدم دستیابی“میں برگیڈیئر سرفراز کو مہمان خاص بنایا گیا۔ یہ المصطفیٰ ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ہیں۔

خبیب احمد واحدی،محمد شعیب ،نثار صابر،خیر محمد،پرنسپل پرنسپل  ارشد جاوید کھوکھر  وائس پرنسپل محمد عمران،ڈاکٹر افتخار،تسنیم فاروقی،کرنل محمد اکمل خان، کرنل طارق صدیقی،نجیب احمد،انیس ابراہیم،انور کمال،انجینئر الیاس احمد،محمد فرقان اور دیگر نے تقریب کو رونق بخشی۔ محمدی میڈیکل ٹرسٹ کے ڈائریکٹر ندیم شفیق اور ایف سی کالج سے پروفیسر محمدعمران بھی لاہور سے گئے۔ اسلام آباد سے بی بی سی پشتو سروس کے طاہر خان اور نوائے وقت سے وابستہ رہنے والے نعیم اللہ آئے تھے۔کراچی سے برادرانٹر پرائزکے چیئرمین محمد احمد اپنی ٹیم سمیت آئے تھے۔ انہوں نے ہر سال ٹاپ کرنےوالے بچوں کےلئے دو گولڈ میڈلز کا اعلان کیا،دس لاکھ کا چیک موقع پر دیدیا۔ شام کو کوئٹہ میں ایک میٹنگ میں المصطفیٰ ٹرسٹ کو دس لاکھ کا چیک اور اگلے روز تعمیر نو ایجوکیشن ٹرسٹ کو بھی دس لاکھ کا عطیہ دیا۔تعمیر نو سیکرٹری پروفیسر فضل حق میر، آغا جان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کو بلوچستان کا سرسید کہا جاتا ہے۔

الہجرہ سکول و کالج کی تقریب میں ہونیوالی تقاریر پرمغز تھیں۔ زبان سے ادا ہونےوالے الفاظ دل سے نکل اور دلوں میں اتر رہے تھے۔ ثمینہ سعید سابق ایم پی اے اس ادارے کی پیٹرن ہیں۔ ثمینہ سعید جامعة المحصنات کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔وہ الہجرہ سکول وکالج کی تعمیر وترقی میں سیاسی وسماجی حوالے سے ممدومعاون ہیں۔

عبدالکریم ثاقب نے جنگل میں منگل بنا دیا۔ پسماندہ علاقے کے غریبوں کو عزت و وقار سے جینا سکھا دیا۔ الہجرین خود کو ثاقبین کہلایا کریں تو یہ عبدالکریم ثاقب کو ہمیشہ کےلئے خراج تحسین ہوگا۔ الہجرہ ٹرسٹ ڈونیشن پر چل رہا ہے۔ اسکے اخراجات پانچ کروڑ روپے سالانہ ہیں۔ جو کئی ادارے اور حضرات انفرادی طور پر ادا کرنے کی حیثیت میں ہیں۔ ایک کالم میں اس سفراور سکول روداد بیان نہیں کی جا سکتی، اس کےلئے سفرنامے کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ ایک شمع ہے اور ایسی ملک میں بہت سی شمعیں روشن ہیں انکی تعداد بڑھاتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔کرنل اکمل خان نے الہجرہ جیسا ماڈل سکول آزاد کشمیر میں بھی بروئے عمل لانے کا اعلان کیا۔

ذرا پھر کالم کے آغاز کی طرف آتے ہیں۔نواب حیدرآباد دکن نے بلبل کی قیمت ایک لاکھ لگائی تھی جس کی ادائیگی کردی گئی۔ سیب والے واقعہ کے بعد انتظامیہ الہجرہ چھٹی جانیوالے طلبا کے گھروالوں کیلئے پانچ کلو سیب بھجواتی ہے۔

زیارت میں بجلی کی یہ حالت ہے کہ شام کو چھ سے بارہ بجے اور صبح نو سے ایک بجے تک یعنی دن میں دس گھنٹے بجلی دستیاب رہتی ہے،یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔مستونگ میں نوجوان سلمان احمد اور کامران امین درانی ایک فلاحی ادارہ چلارہے ہیں،وہ بتا رہے تھے کہ انکے علاقے میں صرف تین گھنٹے بجلی آتی ہے۔ تعلیمی،معاشی اور سماجی ترقی و خوشحالی کیلئے ضرورت کے مطابق بجلی جیسی بنیادی ضروریات بھی ناگزیر ہیں۔

 

متعلقہ خبریں