تحریر : چوہدری محمد اشفاق....شہید ایئر ہوسٹس صدف فاروق کے حالات زندگی
7دسمبر کو حویلیاں طیارہ حادثہ میں 47افراد شہید ہوئے یہ حادثہ طیارہ انجن کی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہو گیا تھا جس نے پورے ملک کی فضاءکو سوگوار کر دیا ہے طیارہ حادثہ میں ملک کے معرو ف نعت خوان اور مذہبی سکالر جنید جمشید اپنی اہلیہ کے ہمراہ شہید ہوئے بد قسمت طیارہ میں ایک بھی شخص زندہ نہ بچ سکا ہے اس حادثہ میں دیگر شہید ہونے والوں کی اپنی اپنی دستانیں ہیں وہاں پر ایک داستان صدف فاروق کی بھی ہے جو کہ اس طیارہ میں بطور
ایئر ہوسٹس اپنے فرائض سر انجام دے رہی تھی حویلیاں پی آئی اے طیارہ حادثہ میں شہادت پانے والی ائیر ہوسٹس صدف فاروق کا تعلق ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے گاﺅں نوتھیہ سے تھا صدف فاروق 6نومبر 1986کو آبائی گاﺅں نوتھیہ میں پیدا ہوئیں والد کیپٹن محمد فاروق جو کہ آرمی میں ملازمت کرتے تھے اس لیے مجبورا رہائش بھی راولپنڈی ہی میں رکھنا پڑ گئی صدف فاروق جب پانچ سال کی عمر کو پہنچیں تو ان کو گریسی لائن ایف جی سکول چکلالہ داخل کروا دیا گیا ابتدائی تعلیم وہاں پر ہی مکمل کی اور 2002میں اسی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا والد جو کہ خود بھی پڑھے لکھے تھے اور صدف فاروق ان کی پہلی اولاد تھی اس لیے انہوں نے اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دلوانے کا ارادہ کر لیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے صدف فاروق کو وقار النساءکالج راولپنڈی میں داخل کروادیا جہاں پر انہوں نے ایف اے اور بی ۔اے کی تعلیم مکمل کی ،تعلیم مکمل کرنے کے بعد صدف فاروق نے اپنے والدین سے مشورہ کیا کہ وہ کوئی کام کرنا چاہتی ہیں جس پر انہیں اجازت مل گئی اور اپنے والد کی مدد سے 2006میں انہیں اسلام آباد کے مقام پر ائیر ہوسٹس کی ملازمت مل گئی ہنسی خوشی دن گزرتے گئے اور صدف فاروق جوانی کی عمر میں پہنچ گئی تو والدین نے فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کی شادی کراد ی جائے چنانچہ 2012میں اس فیصلے پر عملد را ٓمد کیا گیا اورا پنے ہی خاندان میں جاوید اختر نامی شخص سے شادی ہوگئی گھر میں چونکہ خوشحالی تھی اس لیے زندگی بڑی ہنسی خوشی بسر ہونے لگی اسی دوران اللہ تعالی نے صدف فاروق کو دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا ایک بیٹا جس کا نام معید ہے اس کی عمر ساڑھے تین سال ہے دوسرے بیٹے کا نام ھاشم ہے اور اس کی عمر پونے دو سال ہے اور جب بھی کبھی بیرون ملک جاتیں تو اپنے ننھے منھے پھولوں کے لیے کھلونے اور دیگر ضروری اشیاءضرور لاتیں صدف فاروق کے دو بھائی اور دو بہنیں بھی ہیں ایک بھائی جس کا نام رضوان فاروق ہے انہوں نے انجینئرنگ کر رکھی ہے اورا س وقت آسٹریلیا میں ملازمت اختیارکیے ہوئے ہیں دوسرا بھائی جس کا نام وسیم فاروق ہے اور وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اس وقت دوبئی میں مقیم ہیں ایک بہن کے آر ایل میں انجینئر ہیے اور دوسری یونیورسٹی کی طالبہ ہے ایک بھائی رضوان فاروق جو کہ آسٹریلیا میں مقیم ہے نے اپنی والدہ کو چند ماہ کے لیے آسٹریلیا میں اپنے پاس بھلا رکھا تھا جنہوںنے 8دسمبر کو واپس آنا تھا اور ان کی واپسی کے لیے سیٹیں بھی پی آئی اے میں صدف فاروق نے ہی بک کروا رکھی تھی 6دسمبر کو اپنی والدہ سے فون پر بات کی اور کہا امی آپ جلد واپس آجائیں کیونکہ آپ کی غیر موجودگی سے سب گھر والے پریشان ہیں ۔میں نے لاہور سے آپ کے لیے سیٹیں کنفرم کروا دی ہیں آسٹریلیا سے پی آئی اے جہاز چونکہ لاہور تک آتے ہیں اس لیے لاہور تا راولپنڈی پہنچنے کے لیے سیٹیں لاہور سے بک کروائی تھیں اورصدف فاروق نے اکیلے ہی 8دسمبر کو اپنی والدہ کو لاہور سے راولپنڈی لانا تھا صدف فاروق 4سے 8دسمبر تک چھٹی پر بھی تھیں اور ایمرجنسی میں سات تاریخ کے لیے ان کو متعقلہ حکام کی طرف سے صرف ایک دن کے لیے ڈیوٹی سر انجام دینے کے لیے کہا گیا تھا جو انہوں نے من عن تسلیم کر لیا 7دسمبر صبح اپنے والد کیپٹن محمد فاروق کے ساتھ 9بجے اکھٹے ناشتہ کیا اور دونوں باپ بیٹی نے خوب باتیں کیں۔ والد نے کہا کہ مجھے آج گاﺅں بھی جانا ہے کیونکہ گاﺅں میں چند ضروری کام ہیں جن کو آج ہی مکمل کرنا ہے تو اس بار صدف فاروق نے کہا کہ ابو آپ ضرور جائیں میں بھی شام کو واپس آجاﺅں گی اور آپ آرام سے کام کریں بلکہ رات بھی آپ گاﺅں میں ہی گزار کر آئیں اور 8دسمبر کو صبح گھر واپس آجائیں کیونکہ میں نے امی کو بھی لینے کے لیے جانا ہے۔ صدف فاروق کو کیا معلوم تھا کہ آج اس کی زندگی کا آخری دن ہے اور 8دسمبر اس کی زندگی میں کبھی بھی نہیں آئے گا اور نہ ہی وہ اپنی والدہ کو لینے کے لیے لاہور جاسکیں گی اور واپس گھر زندہ بھی نہ لوٹ سکیں گی ۔بہر حال وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے گھر سے روانہ ہوئیں فلائیٹ کا ٹائم گیارہ بجے تھا جہاز اپنے وقت کے مطابق چترال مقررہ جگہ پر پہنچ گیا اور چار بجے وہاں سے واپسی کا وقت مقرر تھا جہاز اپنے مقررہ وقت پر چترال سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا جہاز میں سوار افرا د کو اگر اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ آج ان کی زندگی ختم ہوجائے تو کیا وہ اس جہاز میں سفر کرتے ہرگز ایسا نہ ہوتا لیکن چونکہ خدائے بزرگ و برتر نے ایسے تمام معاملات کو پوشیدہ رکھا ہوا ہے اور کسی کو کچھ علم نہیں ہے کب اس کو موت کا فرشتہ آجکڑے گا جہاز جونہی حویلیاں کے مقام پر پہنچا تو اچانک انجن میں خرابی پیدا ہوئی اور جہاز زمین پر گر گیا۔ اس میں سوار تمام مسافروں نے جام شہادت نوش کر لیا ۔خبر پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر شخص آنسو کی لڑیا بہاتا نظر آیا اور بالخصوص صدف فاروق کی شہادت نے تحصیل کلر سیداں میں کہرام مچا دیا۔ ہر شخص اشکبار نظر آیا صدف فاروق کے دو ننھے منھے پھول آج بھی اپنی والدہ کے بارے میں استفسار کر رہے ہیں اور ان کو یہ کہہ کر تسلی دے دی جاتی ہے کہ تمہاری والدہ ڈیوٹی پر گئی ہوئی ہیں اور کچھ دن بعد واپس آ جائیں گی لیکن ان معصوموں کو کیا معلوم کہ ان کی والدہ ایسی جگہ پر پہنچ چکی ہیں جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آسکتا ہے وہ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں ، خاوند ، سسرال اور اہل علاقہ ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گئی ہیں۔ صدف فاروق کو دس دسمبر اپنے آبائی گاﺅں نوتھیہ میں دربار بابا غلام بادشاہ کے بالکل قریب سپر د خاک کر دیا گیا ہے۔ آج بھی ان کے گھر میں تعزیت کے لیے آنے والوں کو تانتا بندھا ہوا ہے ۔اللہ تعالی حویلیاں جہاز حادثہ میں شہید ہونے والے تما م افراد کے درجا ت بلند فرمائے اور اہل خانہ کو صبر و جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔