اندھوں کی بستی

2017 ,اکتوبر 25



باپ نے مرنے سے قبل دو ہیرے بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک نقلی ہے مگر اصل اور نقل کی پہچان ممکن نہیں۔باپ کا انتقال ہوگیا تو نوجوان ہیرے لیکر نکل کھڑا ہوا۔دوسری بادشاہی میں داخل ہوکر بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کی۔بادشاہ کے سامنے ہیرے رکھے اور کہا کہ بادشاہ سلامت!ان میں ایک ہیرا نقلی ہے۔اگر آپ اور آپکے جوہری اصل کو پہچان لیں تو یہ آپکے ہوئے،ورنہ آپ مجھے اسکی قیمت کے برابر دھن دینگے۔بادشاہ نے دربار منعقد کیا،جس میں ماہرین اور جوہری سب شامل تھے۔مگر کوئی بھی حتمی طور پر کھرے اور کھوٹے میں فرق نہ بتا سکا۔ یوں بادشاہ نے پردیسی کو طے شدہ معاوضہ بطورانعام ادا کردیا۔ اسکے بعد یہ نوجوان دوسری، تیسری اور چوتھی غرضیکہ کئی ریاستوں میں گیا۔وہی ہیرے اور شرائط بادشاہوں کے سامنے رکھیں اور ہرکہیں سے کامیاب اورمال ودولت سمیٹ کر لوٹا۔ آخر میں ایک چھوٹی سی ریاست کے والی کے دربار میں جا پہنچا۔ سردی کے دن تھے‘ بادشاہ کا دربار کھلے میدان میں ہی لگا ہوا تھا۔ سب خواص و عوام صبح کی دھوپ میں بیٹھے تھے۔ یہاں بھی اس نے دربار میں اپنا بیانیہ اور دونوں ہیرے رکھے۔

بادشاہ نے انہیں دیکھ کرکہا یہ دونوں تو بالکل ایک جیسے ہیں تو اس شخص نے کہا جی ہاں دکھائی تو ایک سے ہی دیتے ہیں لیکن ہیں یکسر مختلف۔ان میں سے ایک ہے قیمتی ہیرا اور ایک کانچ ہے ۔کوئی آج تک یہ نہیں پہچان سکا کہ کون سا ہیرا ہے اور کون سا کانچ۔ نوجوان نے وہی شرائط دہرا دیں۔بادشاہ نے کہا میں تو نہیں پہچان سکتا ، وزیر و مشیر بولے ہم بھی جانچ نہیں سکتے۔اسی دوران تھوڑی سی ہلچل ہوئی۔ ایک نابینا شخص ہاتھ میں لاٹھی لیکر اٹھا ، اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ ویسے تو میں پیدائشی نابینا ہوں لیکن پھر بھی مجھے موقع دیا جائے۔ بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے اوراس نابینا شخص کو دونوں چیزیں چھو نے کیلئے دے دی گئیں ۔چھوتے ہی اس آدمی نے ایک لمحے میں کہہ دیا کہ یہ اصلی ہیرااور یہ نقلی ہے ۔جو آدمی اتنی جگہوں سے جیت کر آیا تھا وہ بہت حیران ہوا اور کہا۔’’ٹھیک ہے آپ نے صحیح پہچانا ۔مبارک ہو۔ اوروعدہ کے مطابق اب یہ ہیرا بادشاہ کا ہوا۔‘‘.

تمام لوگ بہت حیران ہوئے کہ ایک نابینا شخص نے کیسے جان لیا کہ اصلی ہیرا کونسا ہے اور سب نے یہی سوال اس نابینا شخص سے کیا۔اس نابینا شخص نے کہا کہ سیدھی سی بات ہے دھوپ میں ہم سب بیٹھے ہیں ، میں نے دونوں کو چھو کر محسوس کیا۔جو ٹھنڈا رہا وہ ہیراجو گرم ہو گیا وہ کانچ۔آج بھی کئی لوگ انگوٹھی کے نگینوں کی پہچان نگینے پر کپڑا رکھ کے کپڑے کو دیاسلائی لگا کر کرتے ہیں۔اگر کپڑے کو آگ نہ لگے تویہ عقیق ورنہ نگینہ نقلی ہوتا ہے۔

ایک وہ اندھا تھا ایک مریم نواز شریف نے دریافت کرکے کے ٹویٹر پر متعارف کرایا ہے۔مریم کا کہناہے کہ: اندھا ہے مگر دیکھ رہا ہے۔مریم نواز شریف نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایک نابینا شخص لاٹھی کا سہارا لئے، ہوا میں مکا لہراتے ہوئے نعرے لگا رہا ہے۔ ’’وزیراعظم، نواز شریف‘‘ اور آنکھوں والے لوگ بھی اس کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔مریم نواز شریف کو اس اندھے شخص کی اپنے والد کے ساتھ بے لوث اندھا دھند اوراندھی‘ محبت بھا گئی۔ظاہر ہے اس پر فریق مخالف نے تلملانا ہی تھا۔چنانچہ سوشل میڈیا پر ایک تماشہ لگا ہے۔

اس تماشے میں کوئی اندھا نہیں تمام بینا افراد شامل ہیں تاہم اکثر عقل کے اندھے ہیں اور بطور قوم ہم عقل کے ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ انصاف کو کہتے ہیں اندھا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں قانون، قانون نافذ کرنے، قانون بنانے اور انصاف کرنیوالے بھی اندھے ہیں۔ انصاف وہی تسلیم ہوتا جو اپنے فائدے میں ہو۔ قانون وہی جو دوسروں کو روند ڈالے ہمیں تحفظ دے۔ شرجیل میمن اپنے نام کی طرح گرفتاری کے حکم پر بے کل ہو گئے۔ جیل سے نہ ڈرنے کے دعوے دھواں بن کر اڑے اور میمن صاحب عدالت کے اندر دبکے رہے جبکہ وکلا اور ساتھی انہیں بچانے کیلئے کبھی اِدھر کبھی اُدھر کلانچیں بھرتے اور پروازیں کرتے نظر آئے۔ ٹھوڑی کو ہاتھ لگانے پر گرفتاری نہ دی تو ہاتھ ذرا گریبان پر چلا گیا۔ شرجیل (ش ر ج ی ل)عربی فارسی میں کوئی لفظ نہیں۔ عربی میں شرحبیل (ش رح۔ ب ی ل) پر کسی سے نکتے آگے پیچھے ہوئے تو شرجیل بن گیا اور اسکے بعد چل سو چل۔

ہماری معزز سینٹ نے نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کیخلاف ترمیمی بل منظور کیا جس پر اپوزیشن نے کہا ہے کہ یہ بل منظور کر کے کفارہ ادا کر دیا۔ اسی اپوزیشن کے ارکان نے حکومت کے ساتھ مک مکا کر کے پہلے نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کی منظوری دی تھی۔ یہ بل باقاعدہ قانون بن چکا جس سے میاں نواز استفادہ کر کے دنیا میں تماشہ بنے ہوئے ہیں۔ نااہل شخص کو کوئی چوکیدار اور گھر میں ملازم نہیں رکھتا مگر قانون نے نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنا رہا ہے۔ اس سے برطانوی قانون کے حوالے سے یہ حقیقت مزید پختہ ہو گئی کہ پارلیمان نیلی آنکھوں والے بچوں کے قتل کی قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔ اپوزیشن نے بل کی منظوری سے کوئی کفارہ ادا نہیں کیا بلکہ یہ ایسے ہی ہے کہ نانی نے خصم کیا بُرا کیا، خصم کر کے چھوڑا تو اس سے بھی بُرا کیا۔ قومی اسمبلی سے سرِ دست بل کی منظوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مارچ میں سینٹ کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی ممکنہ اکثریت اس بل پر دو حرف بھیج دیگی۔ ہماری پارلیمان بیناؤں پر مشتمل ہے مگر فیصلے اندھا دھند کرتی ہے۔

لگتا ہے ہم اندھوں کی بستی کے ایسے مکیں ہیں جنہیں روشنیوں سے غرض ہے نہ آئینے کی ضرورت‘ دل کی لاٹھی پر چلتے چلے جاتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی اکثریت دماغ سے نہیں دل سے سوچتی ہے۔ جن کے سیاست سے مفادات وابستہ ہیں وہ پیٹ سے سوچتے ہیں۔ قومی مفاد میں سوچتے ہوئے بینائی سلب ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ اپنا لیڈر غلطیوں، جرائم حتیٰ کہ گناہوں سے بھی مبرا دوسرے لیڈر جرائم اور گناہوں کے ہمالہ اور قلزم نظر آتے ہیں۔ الطاف کی منافقت پاکستان دشمنی، انڈیا سے دوستی اور غداری میں کسی کو شک رہ گیا ہے؟ مگر اسکے جانثار کہیں کھلے پھر رہے ہیں کہیں پٹے میں ہیں۔ ہے ان میں کوئی شرم کچھ حیا، کھاتے پاکستان کا‘ ہیں گن غدار کے گاتے ہیں۔ الطاف کو بُرا بھلا کہنے والوں کی کمی نہیں مگر اپنے کردار پر بھی نظر نہیں۔ جو زرداری پر فدا ہے اسے کوئی اور محبوب نظر نہیں آتا جسے نواز شریف سے عشق ہے اسکی آنکھوں اور دل کو کوئی اور بھاتا نہیں ہے۔ انکے نام پر کتنی دولت ہے؟ عدالت کے فیصلوں کی دھول اڑانے والے اپنی درماندگی اور پسماندگی پر شاکر ہیں۔ آج زر مبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر ہیں۔ اگر ہمارے دو بڑے سیاستدان اپنی دولت پاکستان لا کر بنکوں میں رکھ دیں تو یہی ذخائر 220 ارب ڈالر ہو جائینگے جس سے یک لخت پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائیگا۔ پاکستان کو ایشئن ٹائیگر بنانا میاں نواز کا خواب ہے‘ اس خواب کو وہ خود اکیلے بھی تعبیر دے سکتے ہیں۔ اسحاق ڈار بارہا کہہ چکے ہیں کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر موجود ہیں وہ واپس لائیں گے۔ وہ واپس آ سکتے ہیں یا نہیں مگر وہ جمع کیسے ہوتے ہیں اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے۔

نائیجیریا کے فرماں رواں ثانی اباچہ نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ نائیجیریا کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگا کر اسے واپس وطن لائیں گے جس سے ملک ’’ٹیکس فری‘‘ بن جائیگا۔ اس سلسلے میں ثانی اتنے پرجوش تھے کہ بہ نفس نفیس سوئٹزر لینڈ کے ایک بینک میں جا پہنچے جس کے بارے میں یہ افواہیں تھیں کہ نائیجیریا کے سیاست دان زیادہ تر اسی بینک میں اپنے اکاؤنٹ رکھتے ہیں وہ چیئرمین سے ملاقات کے دوران اصرار کرتے رہے کہ ان اکاؤنٹ ہولڈرز کی فہرست دی جائے جن کا تعلق نائیجیریا سے ہے لیکن جب چیئرمین نے ہر بار انکار کیا تو ثانی صاحب کی انقلابی رگ پھڑک اٹھی۔ انہوں نے ریوالور نکال کر اس کا رخ چیئرمین کی طرف کرتے ہوئے کہا… ’’میں الٹی گنتی شروع کر رہا ہوں، اگر تم نے آخری ہندسے کے بعد بھی اپنی ضد برقرار رکھی تو تمہیں شوٹ کر دوں گا۔ چیئرمین اپنی نوعیت کی اس انوکھی واردات پر سکتے میں آگیا۔ چیئرمین کی کیفیت سے بے خبر ثانی گنتی کرتے رہے اور آخری ہندسے کے بعد بھی چیئرمین خاموش رہا تو ثانی نے کہا… ’’تم لوگ واقعی قابل اعتماد ہو لو میرا اکاؤنٹ بھی کھول لو۔‘‘

متعلقہ خبریں