ڈاکٹر اے کیو خان کا قوم سے شکوہ

ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کی تاریخ میں قائداعظم کے بعد سب سے زیادہ معتبر‘ معزز و محترم شخصیت ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ قائد نے پاکستان بنایا تو ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ڈاکٹر خان لیونگ لیجنڈ ہیں مگر مقتدر لوگوں کی بے اعتنائی کے باعث اس پذیرائی سے محروم رہے جو انکی پاکستان کیلئے عظیم اور ناقابل فراموش خدمات کا تقاضا ہے۔ ایسی پذیرائی کی خود انہوں نے کبھی خواہش کا اظہار نہیں کیا مگر ان کو جس طرح ٹارچر اور نظربند کیا گیا‘ وہ انکے اور انکے قدردانوں کیلئے یقینا دلگرفتگی کا باعث ہے۔ بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور ڈاکٹر خان اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے سزاوار ہیں۔ بھٹو کو اس جرم کی پاداش میں امریکہ نے اپنی دی گئی دھمکی کے مطابق ”ایٹمی پروگرام سے باز نہ آئے تو نشانِ عبرت بنا دینگے۔“ واقعی تخت سے تختہ دار پر پہنچا کر عبرت کا نشان بنا دیا۔ ڈاکٹر خان کو بھی ”کردہ گناہ“ پرامریکہ ایسے ہی انجام سے دوچار کرنے کیلئے سرگرداں رہا۔ مشرف کے سامنے ڈاکٹر اے کیو خان کے ایٹمی پھیلاﺅ میں ملوث ہونے کے بقول مشرف امریکہ نے ناقابل تردید ثبوت رکھ دیئے۔ امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے قبل بھی صدر صدام حسین کیخلاف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے ثبوتوں کا دنیا میں چرچا کیا تھا۔ مشرف نے ڈاکٹر اے کیو خان کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی مگر اے کیو خان کو پاکستانیوں کے دل سے نہ نکال سکے جبکہ مشرف پراللہ کا غضب ٹوٹا تو خود اس ملک سے نکل گئے جس پر کم و بیش نو سال سیاہ و سفید کا مالک بن کر حکمرانی کی۔ مشرف کے بعد اقتدار میں آنیوالوں نے بھی انکی خدمات کے دلی اعتراف کے بجائے نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی تو جوان لوگوں نے انجام پایا، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ ہر فوجی سربراہ کے ساتھ محاذآرائی کی شہرت رکھنے والے میاں محمد نوازشریف ان کو بھی فوجی سربراہ ہی گردانتے رہے۔ انکے مقابلے میں ایک آرٹی فیشل ایٹمی سائنسدان تراش کے کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی مگر اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے....
ڈاکٹر عبدالکلام نے بھارت کیلئے ایٹم بم بنایا تو انڈیا نے اسے صدر بنا دیا۔ اے کیو خان نے بھارت کے مقابلے میں کہیں معیاری بم بنا کر اسے منہ توڑ جواب اور پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا تو ہم نے انہیں رسوا اور قید کر دیا۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر خان لاہو آئے۔ انہوں نے اپنے نام سے موسوم ڈاکٹر اے کیو خان ٹرسٹ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ یہ ہسپتال ایڈیشنل بھی ہو چکا ہے جہاں روزانہ بلامبالغہ برادری مریض آتے ہیں۔ ہسپتال 9منزلہ اور 300بیڈز پر مشتمل ہوگا۔ تین منزلیں بن چکی ہیں جن میں25بیڈ فنکشنل ہیں۔یہ ہسپتال لاہور کی پسماندہ آبادی بادامی باغ میں زیرتعمیر ہے۔ شوکت ورک اس ٹرسٹ کے سیکرٹری‘ اقبال حسین لکھویرا معاون خاص اور میڈیا منیجر ہیں۔ انہوں نے شام چار بجے آنے کو کہا تھا۔ میں وہاں پہنچا تو تقریب جوبن پر تھی۔ اقبال حسین لکھویرا کی کمپیئرنگ لاجواب رہی ہے۔ ان کو عربی اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل ہے۔ سرائیکی اور پنجابی روزمرہ کی زبان ہے۔ الفاظ کا استعمال اور لب و لہجہ ایسا کہ ساز کے بغیر بھی آواز دیومالائی اور طلسم ربائی محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے آخری مقرر کے طورپر ڈاکٹر خان کو دعوت خطاب دی تو حاضرین نے کھڑے ہوکر والہانہ استقبال کیا۔ قیصر امین بٹ کے بیرون ملک ہونے کے باعث انکی مستحسن رضا اور معاذ حسین ہاشمی پر مشتمل ٹیم کی کمی محسوس کی گئی۔ قیصر امین بٹ ہسپتال کے سب سے بڑے ڈونر ہیں جو اب تک تین کروڑ روپے کا عطیہ دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے یقین دلایا کہ ڈونر کا ایک ایک پیسہ ہسپتال اور مریضوں پر خرچ ہوگا۔ انہوں نے قیصر امین بٹ اور انکی ٹیم کا خصوصی تذکرہ اور کمی محسوس کرنے کی بات کی۔
اے کیو خان کا ٹریڈمارک ہی پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ انہوں نے اسی پر زیادہ بات کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے پاکستان کے ایٹم بم کی تیاری میں بھرپور کردار کو سراہا اور کہا کہ انکے کردار کے باعث پاکستان قیامت تک کیلئے محفوظ ہو گیا۔ میاں محمد نوازشریف کا تذکرہ بھی کھلے دل اور تہنیتی الفاظ کے ساتھ کیا کہ انہوں نے ایٹمی دھماکہ اور میزائل فائر کرنے کی اجازت دیکر جرات کا مظاہرہ کیا۔ اگر دوچار ماہ میں دھماکے نہ کئے جاتے تو پھر امریکہ اور مغرب کا اتنا دباﺅ ہوتا کہ پاکستان کبھی ایٹمی پاور نہ بن سکتا۔ ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ گھاس کھا لیں گے‘ ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ پوری قوم گھاس کھا لے مگر ایٹم بم نہیں بن سکتا۔ اس کےلئے مہارت اور میٹریل کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں دستیاب ہوں تو بم بن سکتا ہے اور ہم نے بنا کر دکھا دیا۔ پاکستان میں ٹیکنو کریٹس کی بات ہوتی ہے تو سیاستدان سمجھتے ہیں کہ انکے سامنے جیسے شیطان کا نام لے دیاگیا ہے۔ ایٹم بم انہوں نے بنایا آپ کے میٹرو‘ موٹروے اور انرجی و توانائی کے منصوبے انجینئرز ہی بنا رہے ہیں۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے قوم سے شکوہ کیا کہ انکی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ حضرت علی ؓنے فرمایا تھا کہ میرے علم کے مطابق مجھ سے سوالات نہیں کئے گئے۔ ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ میری صلاحیتوں سے صرف 15 سے 20 فیصد فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ میرے پاس انڈسٹری‘ تعلیم اور سول سروس سٹرکچر سمیت دیگر شعبوں بہترین خطوط پر استوار کرنے کی صلاحیتیں ہیں۔
میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر خان نے سیاست میں آنے کا درست اور سیاست چھوڑنے کا بالکل درست فیصلہ کیا۔ ہم مقتدر طبقے سے ڈاکٹر خان کے ساتھ سردمہری کے رویئے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ سیاست میں آئے تو ہم عوام نے ان کو کونسا سر آنکھوں پر بٹھایا اور دیدہ دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے۔ راہوں میں پلکیں بچھانے کے دعوے زیبِ داستان سے آگے اس لئے نہ بڑھ سکے کہ دل میں ان سیاستدانوں کا بسیرا ہے جن کی فریب کاریوں اور مکاریوںنے غیرجانبداری سے سوچنے کی صلاحیت سلب کرلی۔ ذرا ایمانداری سے بتائیں کہ ہمارے پیارے سیاستدان اے کیو خان کی اہلیت‘ صلاحیت اور دیانت کے قریب قریب بھی آسکتے ہیں؟ ڈاکٹر خان ملک کی تقدیر سنوارنے اور اپنی ان 80 فیصد صلاحیتوں کا دعویٰ کرتے ہیں جن سے استفادہ نہیں کیا گیاتو وہ ہر ٹیسٹ پاتا کیسے؟
بھارت نے 1973ءمیں پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا تو پولینڈ سے ایک نوجوان انجینئر نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر ایٹم بم بنانے کی پیشکش کی۔ بھٹو کے پاس اس نوجوان کی صلاحیتیں جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں تھا مگر دشمن کے مقابلے کی قوت بننے کا جنون تھا۔ ایک لمحہ بھی کسی مخمصے میں پڑے اور شکوک کا اظہار کئے بغیر گواہیڈدیدیا اور ممکنہ وسائل فراہم کر دیئے۔ ڈاکٹر خان اپنے دعوے پر پورا اترے اور پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دیکر اس کا دفاع ایک سنگلاخ پہاڑ جیسابنا دیا جس سے دشمن سر ٹکرا کر پاش پاش کر رہا ہے۔ ڈاکٹر خان کے اب کے اپنی صلاحیتوں کے دعوے ایٹم بم بنانے جیسے دعوﺅں کی طرح سچے اور سُچے ہیں۔
ڈاکٹر خان سے دوستی کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ ان پر کتاب ”ڈاکٹر اے کیو خان ناکردہ گناہوں کا قیدی“ لکھی جو برادرم نواز رضا نے ڈاکٹر صاحب کو انکی نظربندی کے دوران پہنچائی۔ ڈاکٹر خان نے اسکی ایک ایک سطر پڑھی اور دس بارہ صفحات کی تصیحات اور وضاحتیں بھجوائی تھیں جو اگلے ایڈیشن میں ہونی ہیں،ان شاءاللہ۔ اسکے ایڈیشن کے ایک حصہ کو انگلش میں شائع کرنے کی تجویز تھی جس پر ڈاکٹر خان نے انگریزی میں مواد دینے کا وعدہ کیا ۔یہ کتاب بھی انشاءاللہ جلد منظر پر آئیگی۔۔۔