کیہہ کری جانا ں ایں

2017 ,اگست 9



 

گاڑیوں کی صنعت میں برق رفتاری سے آنیوالی جدت اور قیمتوں میں متوقع ہوشربا کمی انقلاب کی نوید سے کم نہیں۔ اب آدمی کی دسترس میں بھی جدید گاڑی ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عطاالرحمٰن کی تحریر بڑی معلوماتی اور حوصلہ افزاء ہے۔ انکے مطابق ’’فورڈ‘‘ امریکی موٹر گاڑیوں کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ فورڈ کے ماہر اقتصادیات پروفیسر ٹونی شبا کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے ایندھن اور مرمت پرکافی خرچ آتا ہے۔ اب وقت قریب آگیا ہے کہ دنیا کی بہت بڑی تعداد ازخود چلنے والی برقی گاڑیاں استعمال کریگی جو ایندھن والی گاڑیوں کے مقابلے میں دس گنا سستی بھی ہوں گی۔ (گویا 8 لاکھ والی گاڑی کی قیمت 80 ہزارہوگی) یہ برقی گاڑیاں کمپیوٹرکے ذریعے چلیں گی‘ ڈرائیورکی ضرورت نہیں ہوگی۔ ان موٹر گاڑیوں کی مرمت پر بھی بہت ہی کم لاگت آئیگی۔ ان خصوصیات کے پیش نظر یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ اگلے آٹھ سال میں دنیا میں کہیں بھی کوئی نئی پٹرول یا ڈیزل کی موٹرگاڑیاں، بسیں، یا ٹرک فروخت نہیں کئے جائینگے۔ دنیا کا نظام نقل و حمل برقی گاڑیوں پر منتقل ہوجائیگا نتیجتاً تیل کی قیمتوں میں شدید کمی پٹرولیم کی صنعت کی تباہی کا باعث بنے گی۔ تیل کی قیمت 25 ڈالر فی بیرل (15 روپے لٹر) سے بھی کم ہوجائیگی۔ پٹرول سٹیشنوں کو تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ اب بیٹریوں کو دو منٹ میں چارج کیا جاسکتا ہے۔ آئندہ پٹرول سٹیشن کی جگہ ایسے بیٹری سٹیشن قائم ہو جائینگے جہاں پٹرول ڈلوانے کے بجائے آپ بیٹری کے پانی کو تبدیل کیا کرینگے۔ بیٹری ایک ہی چارج میں تقریباً 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہے۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمتیں کافی تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ اس طرح تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک (جنہوں نے کوئی متبادل تلاش نہ کیا) تو دوبارہ غربت کے اندھیروں میں ڈوب جائینگے۔

قارئین! ذرا دل تھام لیں، پٹرول ٹکے ٹوکری ہونیوالا ہے، نئی اور آٹو گاڑی ہر پاکستانی کی دسترس میں آنیوالی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ گاڑیاں سستی ہوں یا مہنگی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق قوت خرید سے پڑتا ہے‘ وسائل سے پڑتاہے۔ آپکے پاس وسائل ہیں تو دس کر وڑ کی گاڑی بھی مہنگی نہیں‘ وسائل نہیں تو بائیسکل خریدنا بھی کاردارد ہوجاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کو تیل کے ذخائر کم ہونے کا احساس ہے۔ انہوں نے تیل پر انحصار کم کردیا ہے۔ انکی توجہ دیگر وسائل کی پیداوار پر ہے۔ سیاحت کو اہمیت دی جارہی ہے‘ ہوٹلنگ اور بینکنگ باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔

پاکستان میں وسائل کی قطعی کمی نہیں ہے مگر یہ عوام کی دسترس سے دور خواص کی دستبرد میں ہیں۔ اسکے سبب عام آدمی کی زندگی زبوںحالی سے دوچار ہے۔ سٹیٹس کو رہتا ہے‘ سسٹم تبدیل نہیں ہوتا۔ ہمارے پہاڑ سونے کے بن جائیں تو بھی عوام کی زندگی نہیں بدل سکتی۔ پاکستان میں حقیقت میں بھی سونے کے پہاڑ ہیں ریکوڈک کیا ہے؟ سونے کی کانیں ہیں مگر ان کو بھی کوڑیوں کے بھائو فروخت کردیا گیا۔ چنیوٹ کے پہاڑوں سے سونا نکلنے کی نوید سنائی گئی‘ جو تانبا بن گیا‘ کل اسے لوہا اور پھر کوئلہ قرار دیا جاسکتا۔ بالآخر اسے راکھ اور خاک ثابت کیا جاسکتا۔سوئٹزرلینڈ کے پہاڑ ہمارے پہاڑوں کی طرح سنگلاخ اور چٹیل تھے۔ اس چھوٹے سے ملک کے محب وطن عوام، حکام اور حکمرانوں نے انہیں سرسبز بنا کر دنیا کیلئے دلکش بنا دیا۔ قوم کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بشرطیکہ دیانت دار‘ مخلص‘ ڈیڈیکیٹڈ اور اہل لیڈر شپ میسر آجائے۔ سرِدست تو قوم کو ایسی قیادتوں سے واسطہ پڑا ہے جن کے بارے میں استاد دامن نے کئی برس قبل کہا تھا۔

کھائی جاؤ، کھائی جاؤ، بھیت کنھے کھولنے؟

وچو وچ کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ

بھکھاں کولوں آ کے تنگ، لوکاں بانگاں دتیاں

قورمہ پلاؤ رج گھراں چے اڈائی جاؤ

چارے پاسے قوراں نیں، مٹی اڈی جاپدی

پکھی واس پیدا کرو، کوٹھیاں بنائی جاؤ

چاچا دیوے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں

آپو وچ ونڈی جاؤ تے آپو وچ کھائی جاؤ

انھاں مارے انھی نوں، گھسن وجے تھمی نوں

جنی تہا توں انھی پیندی، اونی انھی پائی جاؤ

مری دیاں چوٹیاں تے چھٹیاں گزار کے

غریباں نوں کشمیر والی، سڑکوں سڑکی پائی جاؤ

ڈھڈ بھرو اپنے، تے ایہناں دی کیہہ لوڑ اے؟

بھکھیاں نوں لمیاں کہانیاں سنائی جاؤ

استاد دامن نے بھٹو دور میں ایک نظم لکھی جس پر انکی گوشمالی ہوئی۔

ایہہ کیہ کری جانا ں ایں

ایہہ کیہ کری جانا ں ایں

کدی چین جانا کدی روس جانا

بن کے توں امریکی جاسوس جانا

کدی شملے جانا، کدی مری جانا

ایہہ کیہ کری جانا ں ایں

ایہہ کیہ کری جانا ں ایں

جدھر جانا ایں، بن کے جلوس جانا

دھسا دھس جانا ایں دھسا دھوس جانا

اڑائی قوم دا توں فلوس جانا

لائی کھیس جانا، کھچی دری جانا

ایہہ کیہ کری جانا ں ایں

ایہہ کیہ کری جانا ں ایں

اس نظم پر استاد دامن کو بم کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انکو عدالت میں پیش گیا۔ انکی ضمانت کیخلاف حکومت نے سخت مخالفت کی، جج نے ان کو بولنے کی اجازت دی تو انہوں نے کہا جس نے مجھے آج کٹہرے میں کھڑا کیا‘ کل وہ بھی یہیں کھڑا ہوگا۔ واقعی جہاں استاد دامن کھڑے تھے وہاں ذوالفقار علی بھٹو کھڑے نظر آئے۔ پاکستان کے وسائل پر شب خون مارنے والوں کا احتساب شروع ہوچکا ہے امید پیدا ہوئی ہے کہ لوٹ مار کی پائی پائی قومی خزانے میں واپس آئیگی ۔ یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے‘ یہاں جس نے جو بویا ‘ بالآخر اسے کاٹنا پڑا۔

 

 

 

متعلقہ خبریں