اپنا گھر

2017 ,ستمبر 25



سیکنڈے نیویئن کنٹریز میں عمر لاز لاگو ہیں۔ وہاں سے آنے والے عمر لاز کی تشہیر اور اطلاق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ناروے‘ سویڈن‘ فن لینڈ اور ڈنمارک دنیا کی پرامن سوسائٹیز ہیں۔ ان ممالک کی کوئی فوج نہیں ہے۔ اس معاشرے کی سب سے بڑی برائی پرمیسیو ہونا ہے۔ خاندانی سسٹم ناپید ہے۔ وہاں کے لوگ تنہائی دور کرنے کی بھی قیمت ادا کرتے ہیں۔عموماً غیر ملکیوں کو وہاں کے بوڑھے بزرگ گپ شپ لگانے کے لئے ادائیگی کرتے ہیں۔برائیوں کی موجودگی کی وجہ اس معاشرے کی آزاد خیالی ہے یہ تصور انہوں نے کہاں سے لیا یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم عمر لازنے حقیقی معنوں میں ان ممالک کو فلاحی ریاستیں بنا دیاہے۔ ویلفیئر سٹیٹ کا تصور عمر لاز کی عطا ہے۔ ان لوگوں کو جھوٹ سے واقفیت ہی نہیں ہے۔ ڈاکے کجا چوری کا تصور تک نہیں۔ وہاں بڑے بڑے سٹورز میں کروڑوں ڈالر کا سامان پڑا ہے مگر کوئی اٹنڈنٹ نہیں ہے۔ لوگ جاتے ہیں‘ سامان ٹرالی میں رکھتے ہیں، کلومیٹرز پر پھیلے سٹورز سے نکلتے ہوئے‘ خود اپنے سامان کی قیمت سکین کر کے رقم بوکس میں ڈالتے ہیں یا کارڈ سوائپ کر کے ادائیگی کرتے ہیں۔
 عمر لاز لنکز ان میں بیرسٹری کے نصاب کا حصہ ہے۔ لنکز ان سے قائداعظم محمد علی جناح نے بیرسٹری کی تھی۔ انہوں نے لنکز ان میں داخلے کا فیصلہ اس لئے کیا کیونکہ دنیا کے عظیم قانون سازوں کی فہرست میں نبی کریم کا نام پہلے نمبر پر تھا۔آج بھی لنکز ان سے بیرسٹری کی ڈگری ”عمر لاز“ پاس کرنے کے بغیر نہیں مل سکتی۔
سیکنڈے نیوی کنٹریز میں پاکستانی اورانڈی بھی اُسی ماحول کا عموماً حصہ بن جاتے ہیں مگر کچھ وہاں بھی اپنی اوقات دکھا جاتے ہیں۔ بیرون ممالک جانے والے اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں مگر بعض نیت کے فقیر ہی رہتے ہیں۔ فون کے لئے ٹوکن کو دھاگہ باندھ لیتے ہیں۔اندرویئرکی قیمت کا سٹکر سوٹ پر لگالیتے ہیں۔ دس چیزیں خریدیں تو پانچ بغیر قیمت شمار کئے رکھ لیں۔ایسی ہی ذہنیت کے لوگوں کے ہاتھ میں کبھی پاکستان کی زمام کار بھی آجاتی ہے۔ اربوں ڈالر کے سٹورز کو چھوٹی موٹی چوری سے کوئی خسارہ نہیں ہوتا اس لئے وہ ایسی بے ضابطگیوں کو نظرانداز کر جاتے مگر اب ہم لوگ انکو سیانا بنا رہے ہیں۔
 ایک دانشور کی ”چاپلو تھراپی اورمالشو گرافی“ سے سرشار ہو کر حاکم وقت نے اسے سفیر بنا دیا۔ ان ممالک میں لکڑی کے خوبصورت گھر ہیں‘ سفیر کو گھر کرائے پر لے کے دیا گیا۔ اپنے کلچر اور ضرورت کے مطابق لکڑی کی دیواروں میں کیل ٹھونک دیئے۔ سفیر سبکدوش ہو کر پاکستان چلے آئے۔ مالکوں نے ”کیلوگرافی“ پر چالیس لاکھ روپے ڈیمرج کابل بنا دیا۔
 ہمارے وزراءکیا وزیراعظم تک سرکاری گھر چھوڑتے ہوئے کراکری‘ پردے اور ریاستی ملکیت کے تحائف ساتھ لے جاتے ہیں۔ ایک وزیر،مشیریا بیوروکریٹ کی استعمال کردہ رہائش گاہ کی آرائش پرنیامکین لاکھوں روپے خرچ کرا دیتا ہے۔ قوم کے خدمت گزاروں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا ایک گھر میں گزارا نہیں ہوتا۔ تین تین چار چار سیکرٹریٹ اور رہائش گاہیں سرکاری وسائل پر پلتی اور پنپتی ہیں۔
وسائل کے مطابق اپنے گھر کو سنوارنا‘ محفوظ بنانا اور اس کی حفاظت کرنا انسانی فطرت تو ہے ہی چرند پرند بھی اپنے گھر کے تحفظ کی کوشش کرتے ہیں۔ جھونپڑی‘ جھُگی اور محلات کے مکینوں کے اپنے گھر سے لگا اور محبت کے جذبات قطع نظر سہولیات میں زمین و آسمان کے فرق کے باوجود یکساں ہوتے ہیں۔
 گھر جنت ہوتے ہیں ان کو رویے دوزخ بھی بنا دیتے ہیں‘ انتقامی رویے گھر کو جلا دیتے ہیں۔ گھروں اور خاندانوں میں چھوٹے بڑے جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ عقل مند اندر سے بال برابر مسئلہ باہر نہیں آنے دیتے ۔ پھوہڑ گھر کی لڑائی صحن سے بھی باہر گلی بازار اور سڑک پر لڑ کر اپنے سر گھٹا ڈالتے اور جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔
پاکستان ہمارا گھر ہے۔ اس میں خرابی ہو سکتی ہے جو دانشمندی سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی افغانستان نے بھی دنیا کے سامنے اپنے گھر کے درست نہ ہونے کا چرچا نہیں کیا ؟؟حالانکہ ان کے گھر کی کوئی رَگ اور کل سیدھی نہیں۔رُہنگیاوالوں سے گھر اور وطن کی قدر پوچھیں۔وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنا گھر درست کرنے کی بات کی‘ اس پر چودھری نثار نے سخت گرفت کی تو خواجہ آصف نے کہہ دیا کہ انہوں نے گذشتہ چار سال کے تناظر میں بات کی تھی۔ احسن اقبال اپنے پیشرو سے شاید اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔ بولے، خواجہ آصف نے درست کہا گویا چار سال والی بات نہیں آج بھی گھر بگڑا ہوا ہے ۔ شاہد خاقان عباسی کی لندن میں میاں نوازشریف سے ملاقات ہوئی۔باہر آکر انہوں نے بھی گرد اور دھول اڑا دی کہ گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ٹرمپ نے بھی یہی کہا،ڈان لیکس بھی یہی داستان ہے۔ بھارت نے پاکستان کی تقدیر کے مالکوں کے بیانات کو جتنا ممکن تھا اُچھالا۔ ٹرمپ نے پاکستان کوجنگ وجارحیت اور سیدھی راہ پر آنے کی دھمکی دی ، اب بھارت بھاشن دے رہا ہے۔
پاکستان میں کوئی آفت آئے‘ طوفان اٹھے‘ جنگ کی لپیٹ میں آئے یا دہشتگردی کی زد پر رہے۔ ہم پاکستانیوں کا پاکستان میں گھر ہے‘ پاکستان ہی گھر ہے۔ یہیں رہنا، یہیں جینا اور مرنا ہے۔باہرہ کوئی ٹھکانہ نہیں ہے جن کے پاکستان کے باہر گھر ہیں وہاں جا بسے ہیں انہیں کیا پرواءکہ ان کی رعایا کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔
میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اہلیت میں چمک دمک آ گئی ہے۔ جن کو اپنی دانست میں نااہلیت کاذمہ دار سمجھتے ہیں ان پر پلٹ کے جھپٹتے ہیں۔ عدلیہ اور طاقت کا گٹھ جوڑ توڑنے کا غیر مبہم اعلان اور عزم ظاہر کیاگیا۔ عدلیہ کو ان سے کیا پُرخاش ہو سکتی ہے؟ فوج کیوں انکے پیچھے پڑے گی؟ جواب دیا جاتا ہے کہ ملک کی ترقی و خوشحالی برداشت نہیں ہو رہی۔ اگر کوئی بھی ادارہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا دشمن ہے تو یہ ایک لمحہ کی بھی برداشت نہیں ہونی چاہئے۔ اب میاں نوازشریف پاکستان میں عدالتوں کو مطلوب ہونے کے باوجود لندن میں آزاد اور وزیراعظم خاقان عباسی کے حقیقی باس ہیں۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ عمران کے بارے وہ بہت کچھ جانتے ہیں جو بتایا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ عمران نے جو کچھ زرداری کے بارے میں کہہ دیا اب اور مزید کیا سننا ہے جس کے بعد خورشید شاہ‘ عمران خان کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ عمران خان کے بارے میں ایک زبردست تبصرہ سامنے آیا۔” عمران وہ چڑیل ہے جسے چمٹ جائے اسے برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ پہلے یہ چڑیل نوازشریف کو چمٹی اب زرداری کو پاکستان کی بیماری کہہ کر چمٹ گئی ہے“۔
میاں نوازشریف بے اقتداراوررسوا ہوئے ہیں۔دیانت و ایمانداری کے درجے سے عدالت کی نظر میں گر گئے،اس سے زیادہ ان کے ساتھ بُرا اور کیا ہوسکتاہے؟ کھل کر ان لوگوں کا نام لیں جنہوں نے انکے بقول پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ روک دی۔ اپنے وزیراعظم کو اختیارات استعمال کرنے کا حکم دیں۔ ججوں کے بارے میںزہر افشانی کے بجائے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ جرنیل اگر ملک کی ترقی اور سی پیک کی راہ کھوٹی کرنے کی سازش کر رہے ہیں تو ان کو سیک کرنے میں دیر نہ لگائیں۔جرنیل پاکستان میں بیٹھ کر لندن میں آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ گھر درست کرنے کی باتیں کر کے،الزامات لگاکر اداروں کو بدنام نہ کریں۔وزراءاور اکثرپارٹی لیڈر فوج اورعدلیہ کے خلاف اشاروں کنایوں بات کرتے ہیں۔ جس سے حکومت کے اندر حکومت کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔اگر آپ حق پر ہیں توکھل کر بات کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ایسا کرنے کی ہمت نہیں توکھسر پھسر،چہ میگوئیاں،لگائی بجھائی،’منمن‘،چخ چخ اور سازشی رویوں کے اظہار کے بجائے حکومت چھوڑ کے اداروں پر کھل کر برسیں۔گھر درست کرنے کے بیانات دے کر کس کو نیچا دکھا رہے ہیں؟۔سربازار گھر درست کرنے کا ماتم کرکے پاکستان کی عزت اور وقار کو سربازار نیلام کرنے کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔اکثرنامور سیاستدان تو لندن،جدہ،استنبول ،ترنگا لہراتے دلی چلے جائیں گے،دل والے سبز پرچم کو لہراتے یہیں رہیں گے انکو بخش دیں۔
 

متعلقہ خبریں