خطا کار، وفادار اور....

افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی جوکہ نادر شاہ کے فوج کے سالار تھے لویہ جرگہ کے ذریعے بادشاہ منتخب ہوئے، یہ جرگہ شیر سرخ بابا کے مزار پر منعقد ہوا تھا، اسی دوران صابر شاہ ملنگ نے ایک گندم کا خوشہ انکے سر پر بطور تاج کے لگایا اور احمد شاہ کو بطور بادشاہ تسلیم کرلیا گیا، احمد شاہ ابدالی کو افغانستان کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان پر کئی حملے کیے۔پہلا معرکہ پنجاب کے حاکم میر معین الملک عرف میر منو کے ساتھ ہو اجس نے بہادری اور دلیری کی داستان رقم کی۔ مان پور میں مغلوں کا جرنیل ڈٹا رہا۔ آخرکار ابدالی فوج کو شکست ہوئی۔ یہ مغل سلطنت کی آخری فتح تھی اسکے بعد مغلوں نے پنجاب کو اسکے حال پر چھوڑ دیا۔ احمدشاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملوں میں سے سب سے مشہور حملہ 1761ءمیں ہوا۔ اس حملے میں اس نے مرہٹوں کو پانی پت کی تیسری لڑائی میں شکست فاش دی۔ 1756ءمیں دہلی کو تاخت و تاراج کیا اور بہت سا مال غنیمت لے کر واپس چلا گیا۔ ان حملوں نے مغلیہ سلطنت کی رہی سہی طاقت بھی ختم کردی۔
اکتوبر 1760 سے جنوری 1761 تک مرہٹوں کی اتحادی افواج مختلف مقامات پر ابدالی لشکر سے ٹکراتی رہی، مر ہٹوں کی اتحادی افواج میں ابراہیم خان گاردی بھی تھا جو اپنے ساتھ دو ہزار سوار اور 9 ہزار پیدل فوج لایا تھا۔احمد شاہ ابدالی نے اسے پیغام بھیجا کہ گاردی خان! تم مسلمان ہو،تمہارا مسلمانوں کےخلاف لڑنا مناسب نہیں،ہمارے ساتھ مل کر مرہٹوں سے لڑو۔ اس پر گاردی خان کا جواب تھا کہ اس نے مرہٹوں کا نمک کھایا ہے اور وہ انکی طرف سے ہی لڑے گا۔ آخری لڑائی میں مرہٹوں کی اتحادی افواج کا سپہ سالار بسواں راﺅ مارا گیا، ابدالی کے لشکر نے اتحادی لشکر کا قتل عام شروع کر دیا، مرہٹوں کی کمر توڑ دی گئی تو احمد شاہ ابدالی نے تلوار نیام ڈال دی، شکست خوردہ اتحادی افواج کے گرفتار ہونیوالے سرداروں اور فوجیوں میں گیارہ ہزار فوجی مہیا کرنےوالا مسلمان سردار ابراہیم خان گاردی بھی شامل تھا۔ جب اسے فاتح بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو احمد شاہ ابدالی نے اس سے پوچھا ، کہو خان صاحب کیا حال ہے ؟ کس طرح تشریف آوری ہوئی؟ ابراہیم گاردی نے کہا ، میں ایک جاں فروش سپاہی ہوں، حضور جان بخشی کرینگے تو اسی طرح حق نمک ادا کرونگا۔ نفرت اور غصے سے احمد شاہ ابدالی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ گاردی !خطا کار کی جان بخشی تو ہو سکتی ہے، ایمان فروش اور غدار کی نہیں۔یہ تاریخی جملہ کہنے کے بعد احمد شاہ ابدالی نے حکم دیا ” اس غدار کو توپ کے دہانے سے باندھ کر اڑا دیا جائے ۔“اور ایسا ہی کیا گیا۔
علامہ خادم حسین رضوی نے ابراہیم خان گاردی کے عبرت ناک انجام کا واقعہ دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سنایا۔ انہوں نے ضمناً کہا کہ پاکستان میں قیام کے بعد سے غداروں کو معاف کیا جا رہا ہے اگر ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا تو نہ مشرقی پاکستان ٹوٹتا، نہ آج خودکش دھماکے ہوتے، نہ مسجدوں، عبداللہ شاہ غازی، داتا صاحب، بابا فرید گنج شکر اور بہت سے دیگر اولیائے کرام کے مزارات پر حملے ہوتے نہ ممتاز قادری کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا نہ مسجدوں سے سپیکر اتارنے کے احکامات دیئے جاتے۔ مولانا خادم حسین رضوی کو پولیس نے متعدد بار حراست میں لیا‘ الزام یہ تھا کہ انہوں نے مسجد سے سپیکر اتارنے سے انکار کر دیا تھا۔ مولانا خادم حسین رضوی وہیل چیئر پر رہتے ہیں۔ ایک حادثے کے دوران انکی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی۔ اسکے بعد کئی سال سے چلنے پھرنے کے قابل نہیں۔ ختم نبوت کا علم پوری قوت سے اٹھائے ہوئے ہیں۔ عشقِ رسول میں جان بھی قربان کا محض نعرہ ہی نہیں لگاتے اس پر عمل پیرا ہونے کےلئے عزم و ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ تاجدارِ ختم نبوت سے عشق و محبت کا یہ عالم کہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم کو بس خدا نہ کہو اور آپکی شان میں جو مرضی کہتے رہیں۔ برادرم اسلم خان کہہ رہے تھے کہ برسوں سے جب بھی ان کو سٹریس یا ذہنی ٹنشن ہوتی تو وہ اپنے دوست ریاض قدیر کو فون کر کے اشعار سنتے‘ انہیں ایک لاکھ سے زائد شعر یاد ہیں۔ زاہد سرفراز کو فون کرتے جو دانش کے موتی بکھیرتے یا پھر تالیف قلب کیلئے حبیب جالب کی نظموں کی ویڈیو سنتے مگر اب کچھ عرصہ سے مولانا خادم حسین رضوی کی کوئی بھی تقریر سن لیتا ہوں تو سکون آ جاتا ہے۔
آج مولانا خادم حسین رضوی فیض آباد کو چاروں اور بلاک کئے ہوئے ہیں۔ مطالبہ ایک ہی کہ وزیر قانون زاہد حامد استعفیٰ دیں۔ وہ اور دیگر بہت سے لوگ بھی حلف نامے میں تبدیلی کو وزیر قانون زاہد حامد کی اختراع قرار دیتے ہیں۔ توپوں کا رخ زاہد حامد کی طرف ہے۔ جو میاں نواز شریف کے اتنی ہی دیانتداری سے جاں نثار ہیں جتنے جنرل مشرف کے تھے۔
گو وہ حلف نامہ پھر سے اپنی اوریجنل شکل میں آئینی ترمیم کے بعد آ چکا ہے مگر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سے یہ مطالبہ پورے زور سے دہرایا گیا کہ حلف نامے میں تبدیلی کے ذمہ دار کا نام سامنے لایا جائے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے تو میاں نواز شریف کی موجودگی میں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ذمہ دار کو سزا دینے اور حکومت سے نکالنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ذمہ دار شخص کا تعین کرنے کیلئے احسن اقبال اور مشاہد اللہ پر مشتمل کمیٹی بنائی جسے 24 گھنٹے میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی۔ کمیٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے مگر اس رپورٹ کا اجرا نہیں ہوا۔ رپورٹ کے حوالے سے ایک خبر سامنے لائی گئی کہ رپورٹ میں زاہد حامد کو قصوروار قرار نہیں دیا گیا حلف نامے میں تبدیلی کا فیصلہ 34 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا تھا۔اسکی بعدازاں خود راجہ ظفرالحق نے تردید کردی اور کہا کہ انہوں نے ایسی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی۔
آج عدالتیں دھرنے کا نوٹس لے رہی ہیں پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے دھرنے والوں کو سمجھانے اور حکومت کو لٹھ لے کر انہیں وہاں سے اٹھانے کی بات کی‘ اب سپریم کورٹ نے سخت نوٹس لیا ہے جس پر حکومت عدلیہ کی اس کارروائی، احکامات اور سرزنش پر مطمئن ہے جبکہ یہی عدالتیں اگر وہ فیصلہ کر دیں جو من کو نہ بھائے تو پھر ہائے ہائے؟
وزیر قانون زاہد حامد کی حلف نامے میں تبدیلی میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ان کو کہاں سے ہدایت ملی اور کس کے ذریعے ملی۔ اس راز کی نقاب کشائی ہوئی تو فیض آباد چوک میں محصور طوفان بے قابو ہو کر بہت کچھ راکھ کر سکتا اور خاک میں ملا سکتا ہے۔ایسے دھرنے کو منتشر کرنا چنداں مشکل نہیں مگر اسکے نتائج و عواقب خوفناک ہو سکتے ہیں بلکہ آپریشن سرے سے آپشن ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ فوجی ترجمان نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا ہے فوج کو حکومت نے کہا تو وہ کارروائی کرےگی۔ فوج نے کارروائی تو پی این اے کی تحریک ناکام بنانے کےلئے بھی کی تھی۔ بریگیڈئر نیاز نے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کیا تو ان کو برطرف کر دیا گیا تھا چند ماہ بعد گولی چلانے کا حکم دینے والی بھٹو حکومت ختم ہو گئی تھی۔ لال مسجد آپریشن کا حکم دینے والی حکومت کے بعد میں کتنا عرصہ برقرار رہی تھی؟؟؟؟