کیا یہی زینب کا قاتل ہے؟

2018 ,جنوری 24

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

ایک اور لرزہ خیز اور دل دہلا دینے والی خبر‘ اوکاڑہ کے نواح شیرگڑھ سے نہر کے پل کے نیچے سے لڑکی کی ناقابل شناخت نعش ملی ہے۔ اس کا ایک پائوں اور ایک بازو کٹا ہوا ہے۔ اسے بریف کیس میں بند کر کے آگ لگا دی گئی تھی۔ پولیس قاتلوں تک پہنچنے کے لئے پرعزم ہے۔ لڑکی کی ناک میں لونگ اور کلائی پر گھڑی بھی بندھی تھی۔ ایکسپرٹ تو بال، ماچس اور سگریٹ جیسے معمولی شواہد سے قاتل تک پہنچ جاتے ہیں، اوکاڑہ کے ڈی پی او کے پاس تو صندوق، لونگ اور گھڑی بھی ہے۔ بس تھوڑی سی کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔

قاتل اپنے نشانات ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ ان کے ذریعے اس تک پہنچنا تفتیش کرنے والوں کی مہارت اہلیت اور صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے۔ مجرم کبھی معمولی شواہد کی بنا پر پکڑا جاتا ہے اور کبھی اس کی واضح تصویر سامنے آنے پر بھی بچ نکلتا ہے۔ زینب قتل کیس میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جو بدبخت سات سال کی زینب کو ساتھ لے جا رہا ہے‘ ہو سکتا ہے اس نے بچی کو کہیں آگے سفاک ہاتھوں میں پہنچایا ہو۔ اس کا دو تین سو لوگوں کے ساتھ ڈی این اے بھی ہو چکا ہو اگر اس نے جبر نہیں کیا تو وہ ڈی این اے سے پکڑا نہیں جا سکتا یہ ممکن ہے کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اغواء کار کو سفاک ہاتھوں نے کہیں چھپا دیا یا ٹھکانے لگا دیا ہو مگر اس کی شناخت نہ ہونا ایک معمہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نوجوان نے زینب کے اغوا کے وقت حلیہ بدلا ہو۔ دو سال قبل حسین والا میں بچوں کی ویڈیوز بنانے کا سکینڈل سامنے آیا تھا۔ میں نے کالم لکھنے سے قبل قصور میں اپنے ایک دوست سے بات کی تو اس نے سہمے ہوئے لہجے اور محتاط انداز میں بات کرتے ہوئے زینب کیس کو حسین والا بچوں سے زیادتی اور ویڈیو بنانے کے سلسلے کا تسلسل قرار دیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ قصور میں فون ٹیپ ہو رہے ہیں۔

آگے چلنے سے پہلے ذرا 2009ء میں چلتے ہیں۔ بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھیں، زبان نوچی گئی تھی اور’’ اعضائ‘‘ پر چھریوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کردیا لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا تو تفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے، رادھا کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹر نیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کا ٹاسک ملا تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ ’’اعضائ‘‘ پر چھریاں چلانے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چھریاں ماری گئیں۔ اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔ پولیس مافیا کے سامنے بے بس ہوئی تو فائل بند کر دی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔

قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔ پولیس کہتی ہے قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔

زینب قتل کیس میں پولیس نے ڈی این ایز کا اتوار بازار لگا کر علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ یہ صرف نوجوانوں کے ہوئے ہیں۔ پولیس نے کتنے بڑے لوگوں کے ڈی این اے کرائے۔ ڈی پی او، ڈی سی او ایم این اے، ایم پی ایز، ضلع کونسل کے عہدیداروں، سیشن و ایڈیشنل ججز، مجسٹریٹس دیگر اعلیٰ افسروں، سیاستدانوں اور کاروباری لوگوں کیا سب کے ڈی این اے ہوئے ہیں؟

زینب قتل، حسین والا بچوں کی ویڈیو کے سکینڈل کی طرح پس منظر میں جاتا اور زینب کا خون رزقِِ خاک ہوتا نظر آتا ہے۔ بچوں کی ویڈیو بھی رادھا کی طرح بنائی جانے کی بات ہو رہی۔ زینب کے ساتھ بھی ممکنہ طور پر یہی کچھ ہوا اور اس سے قبل کئی بچیاں اسی طرح زیادتی و تشدد کا نشانہ بنیں اور قتل کر دی گئیں۔ بعید نہیں حوا کی ان بیٹیوں کو بھی بین الاقوامی گروہ نے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا ہو۔ قصور میں میری حاجی عبدالکریم سے بات ہوئی تو لرزہ خیز اور دل دہلا دینے والی معلومات سامنے آئیں۔ جنوری 2017ء کو پانچ سالہ عائشہ کی لاش اغوا کے دوسرے روز محلے میں زیر تعمیر مکان سے ملی۔ پولیس نے ڈیڑھ دو سو لوگوں کو حراست میں لے کر ڈی این اے کرایا۔ ڈی این اے تو کسی سے میچ نہ ہوا البتہ پولیس کو ’’کمائی‘‘ کا ایک ذریعہ ضرور مل گیا۔ انہی دنوں خانہ بدوش دو لڑکوں نے اپنے ہی عزیز کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا تھا۔ دونوں ملزم پکڑے گئے۔ حاجی کریم کہتے ہیں کہ وہ ان سے حوالات میں ملے۔ انہوں نے اپنے مکروہ فعل کا اعتراف کیا اور ہمیں بتایا کہ پولیس عائشہ کو قتل کرنے کے اعتراف پر بھی زور دے رہی ہے۔ لوگ عائشہ کے قتل پر احتجاج کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ اس وقت کے ڈی پی او علی ناصر رضوی جو بڑے سوشل اور سیاسی و سماجی اشرافیہ میں مقبول تھے، عائشہ کی والدہ کو گھر جا کر ملے اور قرآن کو گواہ بنا کر کہا کہ عائشہ کے قاتل پکڑے گئے ہیں۔ اُدھر اسی روز ڈی ایس پی نے پریس کانفرنس میں یہی کہانی دہرائی تو حاجی کریم نے ساتھی صحافیوں کو پندرہ روز قبل حوالات میں خانہ بدوش لڑکوں کی روداد سنا دی۔

قصور میں ایسے ہی سانحہ سے لائبہ بھی دوچار ہوئی۔ شہباز شریف قصور کسی افتتاح کے لئے گئے تو لائبہ کی ماں ان کی گاڑی کے آگے لیٹ گئی۔ انہوں نے اگلے روز اسے لاہور لانے کو کہا مگر دیگر مصروفیات کے باعث لائبہ کی ماں کی ملاقات نہ ہو سکی۔ اسی شہر میں 6 سالہ کائنات کو سنگدل مجرموں نے زیادتی کے بعد گلا دبا کر زیر تعمیر مکان میں پھینک دیا تھا مگر اس کی سانسیں کچھ باقی تھیں، اسے 35 دن بعد ہوش آیا تھا۔ شہباز شریف نے اس کے والدین کی دادرسی کے لئے پانچ لاکھ روپے دئیے تھے۔ آج کہا جا رہا ہے کہ عمران نامی نوجوان کا ڈی این اے میچ کر گیا اور اسے گرفتار کر لیا ہے اس کی طرف سے اعتراف جرم بھی سامنے آ سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق سات بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والا ایک ہی شخص ہے۔ بابا بلھے شاہ کی اسی نگری میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی ایک بچی ایمان کے دو مجرموں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر چکی ہے۔ اس پولیس مقابلے کی خادم اعلیٰ کی پولیس کیا وضاحت پیش کرے گی؟ پولیس نے جس نوجوان کو پکڑا اگر یہی اصل مجرم ہے تو وہ عبرتناک سزا کا مستوجب ہے اور یہ پولیس کی بڑی کامیابی ہے مگر ایسے واقعات میں پولیس کا ماضی کوئی مثالی اور تابناک نہیں رہا۔ شہباز شریف ایک کروڑ انعام دینے سے قبل پوری تحقیقات کر لیں کہ کیا واقعی یہی مجرم ہے؟

 

متعلقہ خبریں