عدل اور امن

2017 ,جون 12

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



نوجوان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ پولیس کی پٹرولنگ گاڑی کے قریب سے گزرا تو ایک اہلکار نے روک لیا۔ وہ جلد سے جلد پٹی کرانے کیلئے قریبی کلینک پہنچنا چاہتا تھا۔ پولیس کے استفسار پر اس نے بتایا کہ جھگڑے کے دوران ساتھی ملازم نے راڈ مار کر سر پھاڑ دیا۔ پولیس کو ایسی واردات درکار ہوتی ہے۔ اسے جائے وقوعہ پر جانے کا حکم دیا۔ وہ تنگ گلی میں ایک تہہ خانے میں لے گیا۔ جہاں ملزم موجود تھا مگر پولیس کی وہاں کے ماحول کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ بیسمنٹ میں نصب مشین تو بند تھی مگر اس سے باہر نکلنے والے کاغذ کے سبز ٹکڑے پولیس والوں کی توجہ کا مرکزبن گئے تھے۔ یہ کوئی نوٹ قسم کی چیز تھی مگر یہ پاکستانی کرنسی نہیں تھی۔ حوالدار نے دونوں نوجوانوں کی طرف حیرت سے دیدے پھاڑکر دیکھا تو ایک نے کہا۔ ”سر یہ ڈالر بنانے والی مشین ہے“۔ مشین سے باہر آنیوالے 100 ڈالر کے نوٹ تھے۔اب تک سو ڈالرہی امریکہ میں سب سے بڑی مالیت کا کرنسی نوٹ ہے۔ وہاں ایسے تازہ نوٹوں کے کچھ بنڈل بھی پڑے تھے۔

پولیس ایک اتفاقیہ کریمنل کیس کی تفتیش کیلئے آئی تھی، اس کے ہاتھ شاید ملک کی تاریخ میں جعلی کرنسی کا سب سے بڑا کیس آ گیا تھا۔ وہاں موجود تمام ڈالر اور منقولہ مشینری وغیرہ اٹھائی، گاڑی میں رکھی اور تھانے لے گئے۔ پریس کے مالک اور اس کے سرپرست کو پتہ چلا تو انہوں نے روپوش ہونے کے بجائے کیس کو فیس کرنے کا فیصلہ کیا۔ پریس مالک نے گرفتاری دے دی پولیس سے معاملہ ”مس ہینڈل“ ہوا۔جلدی میں باقاعدہ رپورٹ درج کردی۔ بڑے پولیس افسروں تک بات جا پہنچی۔ ملزم اربوں پتی تھا۔ تھانے میں اس کے ”سٹیٹس“ مطابق آﺅ بھگت ہوئی۔ ملزم کا جو بھی نام تھا اسے ڈالربٹ کے نام سے پکارا جانے لگا۔گلو بٹ کے ساتھ مماثلت کو اتفاقی سمجھا جائے۔ تھانے میں جتنے دن رہا پیسے کے بل بوتے پراسکی تھانیداری رہی۔ سپاہی سے تھانیداراور اوپر تک سب اس کے دوست بن گئے۔ تفتیش ہوتی رہی۔ ایک دن ایس پی صاحب تھانے آئے اور اسے لٹا کر پانچ چھتر لگانے کا حکم دیا۔اس نے بہتیرا کہا۔ ”ہم دوست ہیں، چتھرول کس جرم میں؟“ جس کے ہاتھ چھتر تھا وہ بھی اصل کرنسی کی نوازشات کا ممنون تھا۔ وہ سر کے اوپر پیچھے تک زور سے لگانے کیلئے چھتر لے جاتاملزم کی کمر تک آہستہ ہو جاتا اور جسم پر ایسے مَس ہوتا جیسے مالش کیلئے ہاتھ پھیرا ہو۔ ”فرینڈلی چھترول“ کے بعد ایس پی نے کہا ”تم یہ کاروبار پولیس کے علم میں لائے بغیر کر رہے تھے۔ اسی جرم میں چھترول کی گئی ہے۔ پریس سے چھاپے گئے جعلی ڈالر امریکی سفارتخانے بھیجے گئے۔ وہاں سے رپورٹ آئی کہ یہ جعلی نہیں ہیں۔ پولیس نے کروڑ برآمد کئے تھے۔سنا ہے کہ ڈالر بٹ نے پیشکش کی تھی کہ حکومت اس کے کمال سے صرف نظرِ کرے تو وہ تمام قرضے اتار سکتا ہے۔

آپ کو اس معاشرے میں ایسے پاکٹ ماسٹر مل جائیں گے جو اتنی صفائی سے جیب کا صفایا کر جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تالے توڑ ،اپنی مہارت میں یکتا پائے جاتے ہیں۔ یہ مہارتیں کیا مثبت انداز میں استعمال نہیں ہو سکتیں؟

ہمارے کولیگ فاروق احمد بھٹی کے والد فوڈ انسپکٹر ریٹائر ہوئے۔ ڈی جی خان میں تعیناتی کے دوران انسداد رشوت ستانی محکمہ کے افسر نے ان سے 65 ہزار روپے لئے۔ فاروق بھٹی نے محکمے میں والد کی طرف سے درخواست دی۔ جس پر فوری عمل ہوا، ایڈیشنل ڈائریکٹر نے فون کر کے اگلے روز آنے کو کہا ساتھ والد کو لانے کی تاکید بھی کر دی۔ ایسا تیز اور سستا احتساب ایک لاجواب نظیرنظر آئی۔ آدھے پیسے تو یہیں گویا وصول ہو گئے۔ نوجوان کی آنکھوں میں ہنڈا سی ڈی کے خواب سج گئے۔ اگلے روز چھانگا مانگا سے 64 سالہ والد کو ساتھ لیا جو دل کے مریض بھی ہیں۔ دو رویہ کشادہ شاہراہ کے گرد جھومتے درختوں اور سبز و شاداب گرین بیلٹس کے درمیان سفر آدھے پون گھنٹے میں دیکھتے ہی دیکھتے کٹ گیا جو چند سال قبل تین چار گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ لاہور کے انڈر پاسز اور اوورہیڈ بریجز نے شہر کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ شہر کی سڑکیں تو بیرون شہر سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔ دونوں باپ بیٹا 65 ہزار روپے وصول ہونے کی امید لئے آفس پہنچے تو ایڈیشنل ڈائریکٹر نے بڑے تپاک سے اپنے سامنے رکھی کرسیوں پر بٹھایا۔ چائے پانی پوچھا۔ آدھے پیسے تو فوری فون آنے پر وصول ہو گئے باقی افسر اعلیٰ کے حسن سلوک سے پورے گئے۔ فاروق بھٹی بتاتے ہیں۔” افسر اعلی نے ملزم ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی وہاں بلا لیا۔ اس نے کرسی پر بیٹھتے ہی یاوہ گوئی شروع کر دی۔ گالیاں، دشنام دھمکیاں۔۔۔ میں ان کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ والد نے بڑے نرم لہجے میں کہا، گالیوں کا کیا مطلب میری شکایت ہے اس پر بات کریں۔ یہ سننا تھا کہ سامنے بیٹھے افسر غصے سے پھنکارتے ہوئے کرسی سے اٹھے ”تسیں آپے رولا مکا لو“ کہتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ اس موقع پر ایک اور افسر اندر آئے انہوں نے کہا کہ لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں، کمیٹی روم میں آ جائیں تسلی سے بات کرتے ہیں۔ ہم کمیٹی روم پہنچے تو وہاں ہمیں بٹھائے جانے کی نوبت نہ آئی۔ چار پانچ افسروں اور اہلکاروں نے پہلے والد کو پھر مجھے گریبان سے پکڑا اور باقاعدہ تشدد کرنے لگے۔ میں شور کر رہا تھا کہ بزرگ دل کے مریض ہیں مگر کوئی مان کے نہ رہا۔ والد نے ایک دروازہ کھلا دیکھا اور بھاگ کر باہر نکل گئے۔ میں بھی ان کے پیچھے تھا ۔ جتھا بھی ساتھ ہی چلا آیا۔ باقی کسر وہاں پوری کر لی۔ شور سن کر ڈی جی صاحب آفس سے نکلے۔ ان کے گوش گزار ساری کارروائی کی۔ انہوں نے سخت ایکشن لینے کا یقین دلایا۔ چند ہمدردانہ بول بولے کہ عمران خان وزیراعظم پر کرپشن کے الزام لگاتے ہیں کیا وزیراعظم نے ان کے خلاف کوئی ایسی کارروائی کی جو یہاں ایک شکایت کنندہ کے خلاف ہوئی“۔

باپ بیٹا ایک شکایت لے کے گئے اب چند منٹ میں دورہو گئیں ۔یہ رمضان سے قبل کا واقعہ اب تک محکمے میںان کی شکایت بلکہ دو شکایتیں زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد بنی پڑی ہیں۔ فاروق بھی تذبذب میں تھے ،تھانے جا کے ایف آئی آر درج کراﺅں یا نہ کراﺅں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تھانے میں بھی وہی حال نہ ہو جو دفتر میں ہوا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تھانے جاتے ہی ایف آئی آر درج ہو جائے گی، شاید ہو بھی جائے مگر وہ اس بھمبل بھوسے میں پڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ رپورٹ ضرور درج کرا دیں۔ شاید آپ کے بچوں میں سے کوئی ایس پی بن جائے تو اس کیلئے دادے کو انصاف دلانے میں آسانی رہے۔برگیڈیئر مظفر رانجھا اس حوالے سے اپنا اور محکمے کا جو بھی مو¿قف دینا چاہیں وہ زیادہ اہتمام سے اس کالم میں شائع کیا جائیگا۔

ایف آئی آر کیسے درج ہوتی ہے،اس سے ہر خاص و عام آگاہ ہے۔ شاہدرہ کا نوجوان بنک گیا۔ 6 لاکھ روپے نکلوائے۔ بنک سے باہر آ کر رکشے میں سوار ہوا، رکشہ ابھی چلا نہیں تھا کہ دو بائیکس برق رفتاری سے گزر گئیں۔رکشہ سٹارٹ ہوا اس نے ابھی سپیڈ پکڑی ہی تھی کہ تھوڑے فاصلے پرایک موٹر سائیکل نے راستہ کاٹ لیا۔سوار وں نے ایک ہی ایکشن میں اتر کر نوجوان کو رکشے سے باہر کھینچا۔ اس کی ٹانگ میں کولہے کے اوپر گولی ماری جو جوڑ کو توڑتی ہوئی گزر گئی، اس سے چھ لاکھ روپے چھینے اور چلتے بنے۔ نوجوان نے مزاحمت نہیں کی تھی۔ وقوعہ پولیس کے علم میں آیا تو پولیس افسر نے ڈاکوﺅں کے خلاف سخت کارروائی اور رقم کی برآمدگی کا یقین دلایا۔ ان کو ایف آئی آر درج کرانے سے گریز کا مشورہ دیا یہ دوہفتے قبل کا واقعہ ہے۔ ایف آئی آر درج ہوئی نہ خبر لگی۔نوجوان چلنے پھرنے قابل تو جب ہو گا تب ہو گا۔ ڈاکوﺅں کا سراغ ملا ہے نہ رقم برآمد ہوئی ہے۔

ادھر ہمارے چرچل بھی پوچھتے ہیں ہماری رعایا کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے؟جرائم اور کرائم کی کوئی رپورٹ نہیں تو امن ہی امن ہے ،عدل ہی عدل ہے، چرچل خوش ہے۔ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا کم ازکم الیکشن میں تو نہیں دے سکتا۔

 

متعلقہ خبریں