دل کا میل

2017 ,ستمبر 10

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



آجکل کان کے شدید درد کے تجربے سے گزر رہا ہوں۔ دردبدن کے جس حصے میں بھی ہوبے چین کر دیتا ہے۔ آنکھ‘ کان اور دانت کا درد شدت لئے ہوئے نازل ہو جائے تو چودہ طبق روشن ہوجاتے‘ دن کو تارے نظر آتے اور روح تک بھی تڑپ جاتی ہے۔ ایسے درد کوئی آسمانی اور ناگہانی آفت بن کر وارد نہیں ہوتے، زیادہ تر اپنی ہی کوتاہی کا خمیازہ اور نتیجہ ہوتے ہیں۔ عید سے دو روز قبل جمعرات کو بایاں کان بند ہو گیا۔ سماعت پوری تو نہیں البتہ تقریباً آدھی رہ گئی۔ کان بند ہوا تو سوچا کہ عید کے بعد چیک کرا لوں گا۔ عین عید کے روز کان میں درد بھی ہونے لگا۔ تین دن درد میں اضافہ ہوتا گیا۔ جس کو بروفین سے دور کرنے کی کوشش کی مگر درد بڑھتا گیا جوں جوں ”خود ڈاکٹری“ کی۔ بڑی امید کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ای این ٹی سپیشلسٹ نے بڑی توجہ سے دیکھا۔ ڈراپس اور پین کلر لکھ کر کہا کان میں میل ہے۔ ڈراپ استعمال کریں‘ منگل کو آنا۔ پین کلر کا اندھا دھند استعمال کرنے سے گریز کیا جو کبھی چار گھنٹے بعد اثر دکھاتی ہے۔ درد اتنی شدید کہ کان بند ہونے کی پروا نہیں رہی، دل کرتا کہ درد ختم ہو‘ خواہ کان ہی کیوں نہ نکال دیا جائے۔روزمرہ کے معمولات بری طرح متاثر ہوئے۔ ابھی ڈاکٹر کے پاس جانے میں تین دن پڑے ہیں۔ کان مسلسل درد کر رہا ہے۔ اس دوران کچھ تجربات بھی ہوئے جو دلچسپی سے خالی نہیں۔ کان کے درد کا جس کو بھی بتایا وہ حکیم اور ڈاکٹر ہی نکلا۔ کسی نے لونگ کا تیل ڈالنے کو کہا‘ کسی نے لہسن کو تیل میں تل کر تیل ڈالنے کی تجویز دی۔

لوگ کہتے ہیں، ایک کان سے وہ سب کچھ سنا جا سکتا ہے جو دو کانوں سے سنتے ہیں۔ ایک اور دو، کانوں کا فرق ایک دو آنکھوں کی طرح ہے۔ ذرا ایک آنکھ بند کر کے مشاہدہ کریں کہ وہ سب کچھ ایک آنکھ سے نظر آ سکتا ہے جو کچھ دو آنکھیں دیکھتی ہیں؟

گاڑی میں یا گھر میں ریڈیو ٹی وی ٹیپ وغیرہ کا والیوم ایک کان سننے والے کو زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ آپکے بائیں سپیکر یا مخاطب ہے تو دائیں کان سے سننے والے کو لگتا ہے کہ آواز اسی طرف سے آ رہی ہے۔ آپ اس طرف دیکھیں گے بائیں جانب کھڑا شخص آپ کو بدحواس سمجھے گا۔ ایک آنکھ اور ایک کو کافی قرار دینے والے قدرت کاملہ کی حکمت کو چیلنج کرتے ہیں۔

کان کا درد ہے تو اس دوران کان کے بارے میں کچھ غور و فکر بھی کیا۔ جس کو کم سنائی دے اسے بہرہ‘ بولا ،یا ڈورا کہتے ہیں۔ ایک کان کافیوز اُڑ جائے تو اس شخص کیلئے کوئی خاص لفظ نہیں حالانکہ کان نام کی مناسبت سے اسے ”کانا“ کہنا چاہئے۔ جسے دکھائی نہ دے وہ اندھا اور ایک آنکھ والے کو کانا کہتے ہیں۔ اسے اَدھ اندھا (اَدھنا) کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے دوست‘ استاد شاعر ڈاکٹر منور صاحب کہتے ہیں جسے نظر نہ آئے وہ اندھا‘ نہ سننے والا بہرہ اور بولنے سے معذورکو گونگا کہا جاتاہے۔ جس بندے کے اندر سونگھنے کی حس نہ ہو اسے کیا کہتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کو اس لفظ کی تلاش ہے۔کئی لوگوں پر گرمی اور سردی کا اثر نہیں ہوتا۔شدید گرمی میں پسینہ نہیں آتا،برفباری میں سویٹر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔جسے رنگوں کی پہچان نہ ہو اسے تو کلر بلائنڈ کہتے ہیں،جس میں ذائقے کی حس نہ ہو اسے کیا کہتے ہیں؟نیند میں چلنے والے پائے جاتے ہیں،کئی کو نیند ہی نہیں آتی۔انکے بھی کوئی تو نام ہونگے۔

رات بارہ بجے کالم لکھ رہاہوں، کان سلگ رہا ہے‘ کبھی تو ٹیس اٹھنے سے جان ہی نکل جاتی ہے مگر سوائے برداشت اور خود کو کوسنے کے اور کچھ ہو بھی کیاجا سکتا ہے۔ کوس اس لئے رہا ہوں کہ جب بند ہونے سے پہلے کان”ٹمٹما“ رہا تھا اس وقت ڈاکٹر کو دکھایا جا سکتا تھا۔ بند ہونے پر بھی دکھایا جاتا تو تکلیف سے بچا جا سکتا ۔ کہتے ہیں جو دکھ مقدر میں ہو اس سے مفر ممکن نہیں مگر ایسے دکھ، درد ہم خود بھی اپنا مقدر بنا لیتے ہیں۔ میرے دانت 32 کبھی نہیں رہے ۔عقل داڑھ اُگی نہ عقل آئی۔جب پورے تھے تو 28 دانت تھے۔اتنے دانت والے کا بھی تو کوئی خاص نام ہوگا! اب تک تین دانت نکل چکے ہیں اور تینوں تکلیف کے بعد نکلوائے۔ تکلیف کی ابتدائی سٹیج پر غوری ہی نہیں کیا۔ گاڑی کا وائپر چلنا بند ہو گیا، ٹھیک تب کرایا جب بارش میں پریشانی کا سامنا ہوا۔ سائیکل چلانے کے دور میں چین ڈھیلی ہوکرچلتی اور شلوار کے پائنچے کالے کرتی رہتی تھی۔ اپنی حد اور مدت پوری کر کے گرتی تو قمیص اور ہاتھ بھی کالے کر کے مستری کے پاس جاکے مرمت کرانا اور کسوانا پڑتا۔ یہی ہم پاکستانیوں کی عمومی جبلت ہے‘ نعمت میسر ہو تو اسکی قدر نہیں‘ چھن جائے تو اس پر واویلا‘ آئندہ کے عہد و پیمان مگر پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے بڑوں نے جدہ سے واپسی پر کیا اوراب بے گھر اور دربدرہیں۔

میں آج کان پر ہاتھ رکھ کر درد کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خود سے عہد و پیماں کر رہا ہوں کہ آئندہ ایسے عذاب سے بچنے کیلئے ”ٹمٹماتے“ چراغ کی لو کو بجھنے سے قبل تیز کر لیا کرونگا۔ مگر میں اس پر بھی قائل ہوں کہ فطرت بدل نہیں سکتی ورنہ تو میں نے ہر مشکل کے بعد نیک صالح اور متقی بننے کے پیماں کئے تھے مگر مشکل ٹلی توآسانیوں تلے دَب گئے۔ ایسے عہدناموں کو شبِ بے سحر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ 2005ءسے زیادہ خوفناک 2016ءکا زلزلہ تھا۔ 2005ءمیں صبح آٹھ بجے میں نوائے وقت کی تیسری منزل پر تھا۔ اسکے بعد ایف آئی کی بلڈنگ میں دھماکہ ہوا تو بھی میں آفس کی تیسری منزل پر تھا۔ اتنا زور کا دھماکہ تھا،لگا کہ ہماری بلڈنگ کی بنیادوں میں بم پھٹا ہے۔ 2016ءکا زلزلہ موت کی دہلیز معلوم ہو رہا تھا۔ خوف روح تک بھی محسوس ہوا۔ ان موقعوں پر راست سمت اختیار کرنے کا عہد کیاآغاز شکرانے کے نوافل سے کیا‘دائیں طرف سلام پھیرا تو خوف کافور،بائیں پھیرا توعہدوں پیماں دنیاداری میں بہہ گئے مگر.... مگر قدرت رحیم و کریم ہے اورہماری فطرت شاید خود کو سنوارنے کےلئے کسی بڑے حادثے کی منتظر ہے۔ 21 کروڑ میں سے کئی کروڑ اپنے ایسے ہی کردار پر نادم ہوتے ہیں‘ پچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ نماز نہیں پڑھتے جس پر نادم ضرور ہوتے ہیں مگر یہ ان بدبختوں سے بہتر ہیں جو نماز‘ نمازیوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔

ہم نے اپنا مقدر ایسے سیاستدانوں سے وابستہ کر لیا ہے جو حساب دینے سے صریحاً انکاری ہیں۔مصری اسلامی سکالر حسنین ہیکل اپنی کتاب ”فاروق اعظم“ میں روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اپنے بیٹے کے خواب میں آئے۔ کسی معاملے پر کہا کل آؤں گا مگر چھ ماہ بعد آئے تو بیٹے نے پوچھا آپ اتنے عرصے بعد آئے ۔فرمایا، میری خلافت میں لکڑی کے پل میں بکری کا پاؤں پھنس گیا تھا۔ اس کا حساب دینے میں اتنا عرصہ گزر گیا۔ بہلول دانا سے ہارون رشید کی حساب آخرت پر بحث ہوئی تو بہلول نے کہا ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ آخرت میں حساب کس طرح آسان اور مشکل ہو سکتا ہے۔ بہلول کے کہنے پر ایک پتھر گرم کر کے لایا گیا۔ بہلول نے اس پر پہلے اپنا ہاتھ رکھا اور اپنی جائیداد شمار کرانے لگا۔ ”جھونپڑی، جوڑا کپڑے“۔ بہلول نے اپنی جائیداد ایک لمحے میں بتا کر پتھر سے ہاتھ اٹھا لیا۔

ہارون رشید نے پتھر پر ہاتھ رکھ کے ایک محل‘ دوسرا محل‘ اتنی اراضی‘ شاہی لباس بے شمار۔۔۔ ہی کہا تھا کہ ہاتھ جلنے لگا اور اوئے اوئے‘ ہائے ہائے کہتا پیچھے ہٹ گیا۔ اس سے بھی مشکل حقوق العباد کا حساب دینا ہے۔ جو لوگ پاکستان سے دولت لوٹ کے بیرون ممالک لے گئے یا یہیں جائیدادیں بنا لیں۔ حلال کی کمائی کا حساب دینا بھی گرم پتھر پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے۔ دوسروں کا حق مار کے جائیدادیں بنانے کا حساب کیسے دیا جائےگا؟ کھربوں کھربوں روپیہ لوٹا گیا۔ اگر یہ نہ لوٹا جاتا تو غربت کم ہوتی‘ لوگ علاج نہ رہتے‘ غیر معیاری خوراک اور پانی سے جان لیوا بیماریاں لوگوں کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور نہ کرتیں۔

میرے کان میں ویکس ایکدم نہیں پورے چالیس سال میں بنی جواب جان لیوا درد کی صورت میں سامنے ہے۔دل پر میل بھی آہستہ آہستہ جمتی چلی جاتی ہے۔اسے ساتھ ساتھ صاف کرتے رہیں تو دل کرسٹل کلیئر،شیشے و آئینے کی طرح شفاف رہتا ہے۔ہمارے دل صاف ہوں تو کرپشن، رشوت، ملاوٹ، لالچ۔منافع خوری کا نام و نشان بھی نہ ہو،ہمارے ایسے رویوں نے معاشرے کو جہنم زار بنا دیا ہوا ہے۔ دل صاف ہونے سے رویے بدلیں گے تومعاشرہ جنت نظیر بن جائےگا۔حکمرانوں کو دلوں کی صفائی کی زیادہ ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں