ایک سوموٹو عمران ریحام پر بھی

2018 ,جون 13



ریحام خان کی کتاب اور کتاب سے زیادہ انکی ذات ٹاک آف دی ٹاﺅن ہی نہیں ٹاک آف ورلڈ بن چکی ہے۔ طلاق کے کچھ عرصہ بعد ریحام خان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ” انہوں نے کسی بڑی شخصیت سے نہیں‘ اس شخص سے شادی کی جو بری طرح تنہا تھا۔ سوال کیا گیا کہ آخر ہوا کیا تھا کہ نوبت طلاق تک آگئی۔ اس کا جواب دیتے ریحام نے کہا کہ طلاق ہو گئی‘ بات گزر گئی۔ کیا کسی کے گھر میں ہوتا ہے‘ اس میں کسی کو دلچسپی نہیں لینی چاہئے۔ ہمارا مذہب بھی بتاتا ہے اس پر افسوس کرنا چاہئے۔ اگر ممکن ہو تو فریقین کو سمجھایا جائے۔ اسکے بارے میں گندے طریقے سے بات نہیں کرنی چاہئے۔ جو بھی ہو‘ طلاق جس وجہ سے بھی ہوئی‘ خواہ مجھ میں سو بُرائیاں ہوں‘ اب باب بند ہو گیا‘ آگے بڑھنا چاہئے۔ وہ اپنا کام کر رہے ہیں اللہ ان کو کامیاب کرے۔ میں جو کام پہلے کر رہی تھی‘ اس پر توجہ دوں گی۔ بچوں پر توجہ دوں گی۔ یہ رواج کہ عمران خان ریحام خان کی شادی پر بات کی جائے۔ میڈیا اس بارے میں بات کر رہا ہے۔ کس قسم کی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ اس سے پاکستان کا کیا امیج باہر جا رہا ہے۔ لوگ اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہتے۔ خاندانی کہہ رہے ہیں۔ جس طرح کے الفاظ ہو رہے ہیں یہ پاکستان کی‘ پاکستان کے کلچر اور اقدار کی بے عزتی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے‘ انڈیا دیکھ رہا ہے‘ مغربی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہر کسی کے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے کسی کی کتنی رسوائی ہو رہی ہے۔ ہمارا کلچر اور ہمارا مذہب اور روایات اس سے منع کرتی ہیں۔“
یہ سب کچھ ریحام نے طلاق کے فوری بعد کہا یہ ایک مشرقی عورت کا مافی الضمیر تھا مگر پھر خدا جانے کیسے پلٹی دو روز قبل ایک پاکستانی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں ”مجھ عاجز‘ مسکین کی کتاب سے الیکشن کو کیا فرق پڑیگا۔ ہاں میں چاہوں گی لوگ اندھوں کی طرح فالو نہ کریں۔ یہ میری کہانی ہے۔ میری کہانی سے اگر آپ جڑے ہوئے ہیں تو آپ کا ذکر ہوگا۔ آپکے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو آپ کو ڈرنا نہیں چاہئے۔ ہائپ کریئٹ کررہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے اگر مجھے موزوں لگا کہ کتاب لیکر آﺅں‘ الیکشن سے پہلے بھی نہیں اگر مجھے موزوں لگا تو کسی بھی تاریخ کو لے آﺅں گی۔ یہ جو کررہے ہیں ٹینشن دکھا رہے ہیں‘ یہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ گھبرائے ہوئے ہیں اگر نہیں گھبرائے ہوئے تو میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیں۔ اپنی زندگی آرام سے گزاریں۔ مجھے میری زندگی بسر کرنے دیں۔ الیکشن سے پہلے اگر کتاب آتی ہے تو بہت ضروری ہے جب الیکشن آتے ہیں تو میڈیا ایک ہی زاویہ پر دکھاتا ہے جبکہ ضروری ہے کہ تمام زاویئے دکھائے جائیں۔ اگر کوئی سچ جاننا چاہتا ہے‘ اس کیلئے یہ کتاب مددگار ہو سکتی ہے۔ جو انسان ای میل صحیح طریقے سے نہ چلا سکے کیا وہ ملک صحیح طریقے سے چلا سکتا ہے۔ جو شخص ایک نگران وزیراعلیٰ کا نام نہ بتا سکے کیا وہ ملک چلا سکتا ہے۔
ریحام کے حوالے سے محترمہ طیبہ ضیاءنے ”ریحام زادی“ کے عنوان سے چشم کشا کالم لکھا جس میں کہا گیا ہم نے ریحام کے بارے میں بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ یہ خاتون کسی سازشی مہم پر عمران خان کے پیچھے لگائی گئی ہے۔ ریحام نے اپنے انڈین بوائے فرینڈ کی مدد سے کتاب لکھی، شائع کرےگی اور انڈین میڈیا اسے پروموٹ کریگا جبکہ پاکستان مفت میں پروموٹ کر چکا۔ ہر طرف ریحام کی کتاب کا چرچا ہے۔ ریحام کی کتاب عمران خان کو فائدہ دےگی۔ ہمدردی کے ووٹ ملیں گے۔ بھارتی جاسوسہ نے اپنی اصلیت دکھا دی ہے۔ ریحام خان کو شاید علم نہیں کہ عمران خان کیخلاف مواد شائع کرنے کے باوجود عمران کی شہرت میں کمی واقع ہونے کا امکان نہیں۔ عوام انکشافات کے عادی ہیں البتہ عمران خان کے سیاسی حریف ریحام کی کتاب کے بے چینی سے منتظر ہیں۔ ریحام خان سابق شوہروں کےخلاف انتقامی کتاب لکھ کر جمائما کے سامنے بونی نظر آتی ہیں۔ جمائما غیر مسلم ہونے کے باوجود سابق شوہر کے حق میں باوفا اور باحیاءثابت ہوئی اور ریحام خان نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اس نے وہی کام کیا جو کسی بھارتی جاسوسہ سے توقع کی جا سکتی ہے۔
ریحام کی کتاب سے پاکستان اور پاکستان کی سیاست بدنام ہو رہی ہے۔ جو ریحام کی کتاب سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں‘ ان کو پاکستان اور پاکستان کے وقار سے کوئی غرض نہیں۔ کتاب کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی گئی ہے۔ چیف جسٹس اس قسم کا نوٹس نہ لیں جس کا تقاضا کتاب کی زد میںآنے والوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ وہ حمزہ شہباز اور عائشہ احد کی طرز پر نوٹس لے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے خبر شائع ہوئی کہ دونوں کا چیف جسٹس کے چیمبر میں راضی نامہ‘ مقدمات واپس لینے پر رضامند ہوگئے مگر سچ ہنوز پردے میں ہے۔ 
عائشہ احد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حلفاً کہتی ہوں میرا حمزہ شہباز سے نکاح ہوا، حمزہ شہباز شریف نے مجھ پر تشدد کیا اور نکاح سے انکاری ہے۔ حمزہ شہباز کے ساتھ نکاح کے ثبوت اور گواہ موجود ہیں۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ یہ میرے اوپر واضح الزام ہے۔ حلفیہ کہتا ہوں کہ میرا عائشہ احد سے کوئی نکاح نہیں ہوا، نکا ح کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس حوالے سے عدالتی فیصلہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آپکا نجی معاملہ ہے، آپ دونوں میرے بچوں کی طرح ہیں۔ بڑے ہونے کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیں ورنہ جے آئی ٹی قائم کریں گے۔ جے آئی ٹی بنی تو اس میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کے افسران کو شامل کیا جائیگا۔ چیف جسٹس نے حمزہ شہباز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرشادی ہوئی ہے تو طلاق دیکر عزت سے علیحدہ کردیں۔ نکاح رجسٹرڈ نہیں توکوئی بات نہیں۔ شرعی گواہ ہونے چاہئیں۔ نکاح نہیں ہوا تو زبردستی تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں، اگر یہ ثابت ہوگیا کہ آپ اکٹھے رہتے رہے ہیں تو اسکے نتائج سے آگاہ رہنا چاہئے جس پر دونوں فریقین نے چیف جسٹس کے چیمبر میں جا کر اپنا مو¿قف اختیار کرنے پر اتفاق رائے کیا جسے راضی نامے سے تعبیر کیا گیا۔ عائشہ احد کی طرف سے انصاف ملنے پر بیان سامنے نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے اتفاق رائے ہونے پر درخواست نمٹا دی ۔

متعلقہ خبریں