قلم چہرے

2018 ,جنوری 3

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



مولانا کوثر نیازی بھٹو دور میں بڑا سیاسی کردار تھے۔ میانوالی سے میٹرک کرکے قسمت آزمائی کے لئے لاہور آئے تحریر و تقریر میں ملکہ رکھتے تھے۔ اپنی امنگوں اور آرزوئوں کی تکمیل کے لئے جماعت اسلامی کے در پر دستک دی اور بھٹو کے دربار تک رسائی حاصل کر لی۔جنرل ضیاء کے بھی نقاب پوش درباری رہے۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے ساتھ جماعت کے روزنامہ تسنیم کے لئے بھی کام کرتے۔ اس میں ہفتہ وار اشتہار شائع کراتے ’’خطیب اسلام مولانا حیات اللہ خان کوثر نیازی جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمائیں گے‘‘ مولانا کے والد گائوں میں سکول ٹیچر اور جزوقتی ڈاکئے کا کام بھی کرتے تھے جس کا شرمناک حد تک معمولی الائونس ملتا۔ کسی نے شکایت کر دی تو الائونس بند ہو گیا۔ کوثر نیازی نے الائونس کی بحالی کے لئے اپنے گھوڑے دوڑائے۔ ضیا محمد کو لے کر محکمہ کے دفتر گئے۔ محکمے کا افسر کچھ سننے کو تیار نہ تھا وہ ان کے باپ کو اندھا اور بے ایمان کہہ رہا تھا۔ اس موقع پر ضیاء محمد نے اس افسر پر چڑھائی کر دی اور دھمکی دی کہ دفتر سے باہر نکلو تو دیکھ لوں گا۔ وہ افسر گھبرا گیا اور مولانا کے والد کی بحالی پر آمادہ ہو گیا۔ یہ ضیاء محمد ضیاء شاہد کے نام سے معروف ہوئے جو آج ایک بہت بڑے میڈیا گروپ خبریں کے مالک اور صحافت کی دنیا میں بڑا نام ہیں۔ مولانا کوثر نیازی کے حوالے سے یہ چند سطریں ضیاء شاہد کی تازہ ترین کتاب قلم چہرے سے لی ہیں۔ اس کتاب میں ضیاء شاہد صاحب نے ان لوگوں کے بارے خامہ فرسائی کی ہے جن سے بہت قریب رہے۔ کتاب میں بڑے بڑے انکشافات تو ہیں ہی ساتھ کچھ شرارتیں بھی ہیں۔ انہی مولانا کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے کابینہ بناتے ہوئے لفٹ نہ کرائی تو مولانا پامسٹ ایم اے ملک سے ملانے کے لئے ضیاء شاہد کو ساتھ لے گئے۔ اس دوران موقع ملتے ہی ضیاء شاہد نے ایم اے ملک کے کان میں کچھ کہا تھا جو کچھ کہا یہ بھی کتاب میں موجود ہے۔سقوط ڈھاکہ پر کوثر نیازی نے پی ٹی وی پر دھواں دار جذباتی تقریر کر کے قوم کے تازہ زخم مندمل کرنے کی کوشش کی۔ اگلے روز ضیا شاہد ایک ساتھی کو لے کر ان کے گھر گئے، جس کمرے میں وہ بیٹھے تھے‘ دروازہ کھولا تو عجب منظر تھا، مولانا خرمستیاں کر رہے تھے جس پر ضیا شاہد نے منہ میں جو آیا کہا اور واپس لوٹ آئے۔ کیا اور کس کے ساتھ خر مستیاں کر رہے تھے،یہ بھی کتاب میں لکھا ہے۔بھٹو کے قدموں کو چھو کر مولانا کوثر نیازی وزیر بنے تو ایک روز لاہور آئے‘ بھٹو کا دیا عوامی شعور عروج پر تھا‘ مولانا نے ضیاشاہد کو فون کرکے جہاں مقیم تھے وہاں بلا لیا مگر عوامی طوفان مولانا سے ملاقات کیلئے امڈ آیا تھا۔ پی اے سب کو ان کی غیر موجودگی کی اطلاع دے رہا تھا۔ ضیاصاحب کو بہرحال لوگوں کی نظروں سے بچا کر لے گیا‘ مولانا ٹائلٹ میں تھے، وہیں ضیاشاہد کو لے جایا گیا تو وہ کموڈ بند کرکے اوپر بیٹھے فائلیں دیکھ رہے تھے۔ مولانا کو ان کے ساتھی مولانا وسکی بھی کہا کرتے تھے۔ ان کے مجموعی کردار کا جائزہ لیا جائے تو مولانا نوسربازی کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ شوکت علی شاہ نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ بطور وزیر وہ ایک ریسٹ ہائوس میں ٹھہرنے جہاں ڈٹ کر کھایا پیا اس کے بعد ضمنی الیکشن کے جلسے میں تقریر کی اور افطاری میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔قلم چہرے میں ہی انکشاف ہوا کہ شورش کاشمیری 1947ء سے قبل پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے۔ ان کا نام عبدالکریم‘ پہلے الفت تخلص تھا پھر شورش بن گئے۔ الفت سے شورش بننے کی کہانی بھی قلم چہرے میں موجود ہے۔ شورش بہرحال شعلہ مستعجل تھے مگر ضیاشاہد کے بقول وہ اپنے اندر ایک شرارتی بچہ بھی چھپائے پھرتے تھے۔ ایک بار ان کے اندر کا شرارتی بچہ مچلا تو نوجوان قوی الجثہ مولانا کوثرنیازی سے سربازار کُٹ بھی کھائی۔ گالیوں کا ایک ذخیرہ شورش کے پاس تھا۔ الطاف حسن قریشی کو شورش ’’ککا بھورا‘‘ کہا کرتے تھے۔ ایک بار کچھ لوگ ملنے آئے‘ یہ ابھی باتھ روم گئے ہی تھے ، اطلاع دی گئی تو تولیہ باندھ کر باتھ روم سے باہر آئے، مہمانوں سے ہاتھ ملایا‘ بیٹھنے کا کہہ کر پھر باتھ روم چلے گئے مگر اب جاتے ہوئے تولیہ کندھے پر تھا۔ مہمان منہ چھپا کے واپس چلے گئے۔

مجید نظامی اور میر خلیل الرحمن سے وابستہ یادیں۔ ان شخصیات کی اپنے پیشے سے لگن محنت اور کامیابیوں کی معراج تک پہنچنے کی نوجوان نسل کے لئے قابل تقلید داستانیں ہیں۔ میر خلیل الرحمن ایڈونچرازم اور نئے تجربات سے دور رہے جبکہ ان کے جاں نشیں مہم جوئی میں شہرت رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان میں بل فائٹنگ کرانا چاہتے تھے جس کے لئے فائٹنگ بُلز کی بکنگ ہو چکی تھی، میر خلیل الرحمن کو معلوم ہوا تو سخت ناراض ہوئے اور یہ منصوبہ ٹھپ ہو گیا۔

ضیاء شاہد نے نوائے وقت اور جنگ میں کام کیا اور روزنامہ پاکستان ان کی تخلیق ہے۔ اکبر علی بھٹی اس اخبار کے مالک تھے۔ دفتر ضیاء شاہد نے خود بنوایا۔ ان دنوں مالک کے چیف ایڈیٹر بننے کا رواج نہیں پڑا تھا۔ اکبر بھٹی ان دنوں ایم این اے تھے۔ میڈیسن کا کاروبار تھا پیسے کی کمی نہ تھی۔ اورئنٹ کے مالک ایس ایچ ہاشمی کراچی سے لاہور آئے ان کو ضیاء شاہد اپنے دفتر لے گئے جہاں اکبر بھٹی بھی ملے۔ انہوں نے ہاشمی صاحب کو بتایا کہ میں کاغذ کے بجائے لٹھے کے کپڑے پر اخبار چھاپنا چاہتا ہوں تاکہ ریڈر پڑھنے کے بعد اخبار کا لباس سلوا لے۔ بھٹی نے ہاشمی صاحب کو اپنے گیسٹ ہائوس میں ٹھہرانے کی پیشکش کی جہاں فائیو سٹار ہوٹل سے زیادہ آسائش، سہولتیں کھانے ’’پینے‘‘ کے بعد کے لوازمات کی دستیابی کا بھی ذکر کیا۔ ہاشمی صاحب نے اس ملاقات کے بعد ضیا صاحب سے کہا تھا آپ اس شخص کے ساتھ نہیں چل سکیں گے ایسا ہی ہوا۔ تاہم ضیاء شاہد جب تک وہاں رہے ایڈیٹر کے طور پر مکمل بااختیار رہے۔

صحافت ضیاء شاہد کا اخبار تھا۔ خوشنود علی خان کے ساتھ پارٹنر شپ الگ کی تو صحافت جو ان دنوں خبریں کے ساتھ دوپہر کا اخبار تھا وہ خوشنود علی خان کے حصے میں آیا جو انہوں نے صبح کے اخبار کے طور پر چلایا۔ اس میں میں نے بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ ان دنوں میں شوقیہ اخبار نویس تھا۔ صحافت میں ہمارے ساتھ ایک انوار بخاری ہوا کرتے تھے اسے ان کے پستہ قد اور اسودی رنگت کے باعث ملوک بخاری کہا کرتے تھے۔ وہ بڑا ’’ادھاریہ‘‘ تھا مجھ سے اپنی تنخواہ جتنا ادھار لے لیا اس کے بعد پکڑائی دیا نہ دکھائی دیا۔ وہ پاکستان میں ضیاء صاحب کا پی اے رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ضیاء صاحب ایک روز دفتر آئے تو بھٹی صاحب ان کی چیئر پر بیٹھے تھے جسے انگلی کے اشارے سے ضیاء صاحب نے اٹھنے کو کہا اور وہ اٹھ کر چل دئیے۔ ایک روز ضیاء شاہد حسب معمول پہلی ڈاک کا پرچہ دیکھ رہے تھے ایک خبر کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا بھٹی صاحب نے لگوائی ہے ضیاء شاہد نے اگلی ڈاک سے وہ خبر اتروا دی۔ ایک مرتبہ وزیر اعظم میاں نوازشریف  دیگر ایڈیٹرز کے ساتھ ضیاء شاہد کو بھی چین دورے پر لے گئے واپس آئے تو اکبر علی بھٹی نے یہ کہہ کر چھٹی کرا دی کہ پیسے میں نے لگائے  وزیر اعظم  کے ساتھ آپ چلے گئے۔ نان پروفیشنل لوگوں کی ایسی ہی مت ہوتی ہے۔ قلم چہرے کتاب کا سب سے زیادہ دلچسپ باب ایم شفاعت شیخ کے حوالے سے ہے۔ وہ روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ کے مالک تھے۔ ان کی کفایت شعاری بخل کی حدوں کو چھوتی تھی وہ سگریٹ مہمان کی ڈبیا سے نکال کردیگر سگریٹ نوش مہمانوں کو پیش کرنے کے لئے دراز میں رکھ لیتے تھے۔

 

 

 

 

1980ء کے عشرے کے اوائل کی بات ہے ایس ایچ ہاشمی کے صاحبزادے مسعود ہاشمی بی کام کے طالب علم تھے۔ ایس ایچ ہاشمی نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ آپ اپنے لئے ایک اچھی سی گاڑی خرید لو۔ نوجوان مسعود کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ اوائل عمری میں کسی بچے کو بڑی گاڑی والدین کی طرف سے ملنا خوش نصیبی تو ہے ہی بچوں پر ان کے والدین کے اعتماد کا اظہار بھی ہے۔لیکن عجیب اتفاق کہ ابھی مسعود کا نئی گاڑی میں گھومنے پھرنے کا شوق پوری طرح پورا نہیں ہوا تھا کہ ایس ایچ ہاشمی صاحب نے حکم سنا دیا کہ مسعود! یہ گاڑی بیچ دو، سو گاڑی بیچ دی گئی۔

 

 

 

ابھی گاڑی بیچے ہوئے بمشکل ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ ایس ایچ ہاشمی نے اپنے بیٹے مسعود کو بلایا اور کہا کہ اب آپ ایک اور گاڑی خرید لیں جو قیمت میں پہلے والی گاڑی سے بھی زیادہ ہو۔ اس خوشخبری سے ایک طرف مسعود ہاشمی کی خوشی کی انتہا نہ رہی دوسری جانب وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ایک ہفتے بعد مہنگی گاڑی خریدنا اور ہفتہ پہلے ایک ایسی گاڑی بیچ دینا جو بعدازاں کم قیمت میں شو روم والوں کو واپس کی گئی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سو مسعود ہاشمی نے ہمت کرکے والد سے پوچھ ہی لیا جس پر ایس ایچ ہاشمی نے برجستہ جواب دیا بیٹا! اس وقت میرے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اگرچہ دفتر میں کم از کم ایک سو گاڑیاں کھڑی تھیں لیکن چونکہ وہ بالخصوص دفتر کے سٹاف اور دفتری امور کے لئے مختص ہیں لہٰذا اپنے ملازمین اور دفتر کی گاڑیوں میں سے کوئی گاڑی بیچنا میرے ضمیر پر بوجھ محسوس ہوتا۔ تم چونکہ میرے بیٹے ہو میرا خون ہو لہٰذا تمہاری گاڑی بیچنے میں کوئی قباحت نہ تھی سو میں نے ایک خاص مفہوم میں ناراضگی کو مول لینا گوارہ کر لیا لیکن دفتر کے امور ڈسٹرب ہونا اور ملازمین کا پریشان ہونا مجھے قطعاً منظور نہ تھا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسعود پیسوں کا لین دین بڑا عجیب طرح کا ہوتا ہے اگر 30 دنوں کی مزدوری کے بعد کارکنوں کو تنخواہیں ادا نہ کی جائیں تو ان کے گھروں کے چولہے نہیں جلتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسعود میں تمہاری ماں کو بھی ہر ماہ کی یکم، دو تاریخ تک پیسے نہ دوں تو اس کی نظریں بھی بدل جاتی ہیں یہ تو پھر ملازم ہیں جن کا پورا پورا حق ہے کہ ان تمام کو اپنی فیملی کی طرح رکھا اور سمجھا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں گزشتہ 30 برس سے تنخواہیں بروقت بلا ادنیٰ تاخیر ادا کرتا چلا آ رہا ہوں۔ ’’ قلم چہرے‘‘ میںنسیم حجازی، مختار مسعود، شفیق الرحمن ، اشفاق احمد، مقبول جہانگیر، ارشاد حقانی، چودھری عنایت اللہ، فیض احمد فیض، جیسی معروف شخصیات کے تذکرے، یادیں اور ہوشربا انکشافات ہیں۔ یہ سب ضیاء شاہد کے منفرد طرز تحریر میں ہو تو یہ بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

آخر میں ایک واقعہ ’’سیاستدانوں کی باتیں‘‘ سے، یہ کتاب بھی قلم فائونڈیشن نے شائع کی ہے۔

ان دنوں جماعت اسلامی کا ایک سالانہ اجتماع راوی روڈ لاہور پر بھاٹی اور ٹیکسالی کے درمیان سڑک کے دائیں جانب اس پارک میں ہوا جو اندرون شہر سے منسلک تھا یہ ایک لمبی پٹی تھی جو بھاٹی سے ٹیکسالی تک پرانے شہر کو سڑک سے جوڑتی تھی۔ ملک امیر محمد خان گورنر تھے اور لاہور کے اس وقت کے معروف بدمعاش اچھا شوکر والا کا بہت خوف اور دبدبہ تھا۔ جماعت اسلامی کا اجلاس الٹانے کے لئے گورنر صاحب کے حکم پر مودودی صاحب کے جلسے میں آنے سے پہلے ہی اچھا شوکر والا کے بھیجے ہوئے بدمعاشوں نے جلسہ گاہ میں بے تحاشا فائرنگ کی اس سے جماعت کا ایک رکن اللہ بخش شہید ہو گیا۔ جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ مودودی صاحب سے بہت کہا گیا کہ آپ جلسہ میں نہ جائیں مگر انہوں نے یہ تجویز قبول نہ کی۔ بجلی اور لائوڈ سپیکر کے تار کٹ چکے تھے ہر طرف خوف کا سماں تھا۔ پولیس کے لوگ خود بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں بچا کر ساتھ لے گئے تھے۔ جماعت اسلامی والوں نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑنے والے مائیک اور سپیکر ٹو ان ون کا بندوبست کیا جب ہم جلسہ گاہ میں پہنچے تو میں نے سید مودودی کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔ مزاج کے مطابق وہ ہمیشہ کی طرح پرسکون تھے اور انتہائی اطمینان کے ساتھ خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہمارے نہتے ساتھیوں پر جس طرح بدمعاشوں نے فائرنگ کی ہے اور جس طرح سب لوگوں نے دیکھا کہ پولیس حملہ آوروں کی حفاظت کر رہی تھی اس کے پیش نظر ہم کوئی مقدمہ درج نہیں کرائیں گے کیونکہ یہ بات لاہور میں پھیلی ہوئی ہے کہ حملہ گورنر صاحب نے کروایا ہے۔ ہم اللہ کی عدالت میں مقدمہ کروائیں گے اور ہم انصاف کا معاملہ اس ہستی پر چھوڑتے ہیں جو کائنات کو تشکیل دینے والی ہے اس سے بڑا منصف ہمیں اور کوئی نہیں مل سکتا پھر وہ رکے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیہ انداز میں بولے اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے ساتھی بے گناہ ہیں وہ غیر مسلح ہیں اور پاکستان میں اسلام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے ظالموں سے اور شدادوں سے تو ہی اس ظلم کا بدلہ لے۔ ہم اپنا انصاف تیرے ہی سپرد کرتے ہیں۔ سید مودودی کی گفتگو میں جذباتیت تھی نہ جواب میں انہوں نے ایک لفظ بھی برا بھلا کہا۔ بس انہوں نے اپنا معاملہ اپنے رب کے حضور پیش کر دیا۔ میرے گرد جو لوگ کھڑے تھے ان میں سے کئی ایک نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ اس دوران کسی نے اچانک کہا یا اللہ رحم کر۔ اگر دعا قبول ہو گئی تو قاتل جہاں کہیں بھی چھپ کر بیٹھا ہو خواہ اس کی پناہ گاہ سرکاری عمارت ہو یا گورنر ہائوس وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔

وقت گزرتا گیا۔ وہ ایس پی سکندر حیات جو جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کروانے کی نگرانی کر رہا تھا اسے ایک موذی مرض لاحق ہو گیا۔ اس کی زبان پر کیڑے پڑ گئے تھے کوئی اسے ملنے جاتا وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا میرے لئے دعا کرو میرا ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔ دعا کرو مجھے اللہ پاک صحت دے دے یا پھر اپنے پاس واپس بلا لے۔ اچھے کا السر پھٹا وہ دو ہفتے ہسپتال میں اذیت کے بعد چل بسا۔ اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ امیر محمد خان نواب آف کالاباغ کا انجام ان دونوں سے برا ہوا۔ اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بستر پر وہ سو رہے تھے کہ ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا ان پر مسلسل گولیاں برسائیں۔ یوں ملک امیر محمد خان راہی ملک عدم ہوا ’’اور آنکھوں والو! عبرت پکڑو‘‘ ( فرمان الٰہی)

 

متعلقہ خبریں