2017 ,دسمبر 4
فضل حسین اعوان
فیض آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا اپنے واحد مطالبے کی منظوری کے بعد اختتام پذیرتو ہو گیا مگر اس کے آفٹر شاکس جاری ہیں۔ سب سے بڑا شاک تو تحریک کی قیادت کے مابین اختلافات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ مولانا آصف جلالی لاہور میں چیئرنگ کراس پرسات دن براجمان رہے۔ یہ دھرنا کچھ لوگوں کے لئے حیران کن ہو سکتا تھا مگر حکومت کے لئے پریشان کن نہیں تھا۔یہ دھرنا چھ ماہ چلتا تو بھی حکومت کو پرواءنہیں تھی۔امور مملکت چل رہے تھے۔سات روز بعد آصف جلالی کی قیادت میں دھرنا حکومت کیساتھ ایک معاہدے کے تحت اُٹھ گیاجس سے لاہوریوں کی پریشانی ختم ہوئی۔جلال میں آکر مولانا خادم حسین رضوی پر برسنے والے جلالی سوائے وعدوں کے کیا لے کھے اُٹھے؟ وہ ایک اعتراض دھرنے کے شہداءکی لاشوں کو فراموش کرنے کا کرتے ہیں؟لاشیں کتنی تھیں یہ بھی تحقیق طلب ہے۔حکومت نے ایک پولیس اہلکار سمیت چھ افراد کے جاں بحق ہونے کی بات کی تھی۔کل آئی بی اور آئی ایس آئی کی طرف سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی،جبکہ دھرنے والوں کے کچھ حلقوں کی طرف سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک سو تیس بتائی جارہی ہے جبکہ ستر سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔
خادم رضوی کے دھرنے سے قبل جلالی کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ اوروہاںجاکے دھرنا ہوا تھا۔ حکومت نے مولانا خادم حسین کے لانگ مارچ کو بھی شاید ایسا ہی بے ضرر سمجھ لیا۔ دھرنے نے طول پکڑا تو حکومت کو ہوش آیا اور آپریشن کے بعد پورا ملک جام ہو گیا تو حکومت حواس باختہ ہوگئی ۔
مولانا خادم رضوی کی سربراہی میں دھرنے پر حکومتی حامی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اسے فوج کی حمایت حاصل تھی۔ کچھ حلقوں کی طرف سے دھرنے کو حکومت کی استادی کہا جا رہا ہے۔کیپٹن صفدر کانام لیا جارہا ہے کہ انہوں نے دھرنا سپانسر کیا،سارے اخراجات اٹھائے۔ایسی باتیں کرنیوالوں کے پاس اپنے اپنے مو¿قف کے حق میں دلیلوں کے متعفن ڈھیر ہیں۔ایسے بیانات دھرنا والوں کے ایمان اور جذبات کی توہین ہے۔
آئین میں ترمیم کے بعد شدید ردعمل سامنے آیا۔ترمیم کی واپسی کے باوجود اشتعال جاری رہا، حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی،اس سے ناموس رسالت کے حوالے سے قوانین ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگئے۔ایسے قوانین میں تبدیلی کی سوچ ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئی۔دھرنا ختم ہوگیا مگر گردش افلاک کئی کرداروں کے تعاقب میں ہے۔ کئی لوگوں کا مستقبل گہنا جائیگا۔ حکومتی سقراطوں کو تحریک لبیک کے احتجاج کا اندازہ ہی نہ ہوسکا،یہ ا سے عمران خان کے دھرنے کی طرح ڈیفیوز کرنے کا گماں کررہے تھے۔ایسے مذہبی معاملے میں بڑی لیڈر شپ کی ضرورت نہیں ہوتی،جذبہ ایمانی سے معمور افراد خود لیڈر اور کارکن ہوتے ہیں۔کچھ تحریکیں بڑے ناموں کی مرہون منت ہوتی ہیں،تحریک لبیک جس طرح ڈٹی رہی اور مطالبہ منوا کے اٹھی،اس نے مولانارضوی کولیڈر شپ کی بلندی پر پہنچا دیا جہاں سے انکو اپنے ہی دوست نیچے کھینچ رہے ہیں۔ایک نوزائیدہ پارٹی میں گروپ بندی پارٹی کیلئے المیہ اور جگ ہنسائی الگ سے ہورہی ہے۔ٹی وی پروگراموں میں جو دیکھا اس سے مولانارضوی،برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے،الجھنے سے گریزاں رہے مگر دوسرا فریق شاید جوش خطابت کو اپنے مو¿قف کی جیت سمجھتا رہا۔آخر اسی پٹڑی پر آنا پڑا جس پر مولانا رضوی تھے۔
فوج نے اس تنازع میں الجھنے کی بجائے حکومت اور دھرنا دینے والوں کے مابین معاہدہ کرا دیا۔ اسے فوج کی طاقت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔مولانا ایک چینل پر کہہ رہے تھے فوج نے معاہدے کی بات کی تو اس سے کہا پہلے استعفیٰ پھر مذاکرات،اس پر فوج نے کہا، ہاں پہلے استعفیٰ،اور آپ نے جو کہا وہی ہوگا،دھرنے والے زیادہ کچھ کہہ بھی نہیں رہے تھے۔سو وہ جو کہہ رہے تھے مان لیا گیا۔ 77 کی قومی اتحاد کی تحریک میں پولیس کی فائرنگ سے کئی لوگ جاں بحق ہوئے۔ مگر حالات قابو سے باہر ہی رہے تو فوج طلب کی گئی۔ فوج کو بھی پولیس والا کام کرنے کا آرڈر دیا گیا تو پہلے بریگیڈئر سلطان نے گولی چلانے سے انکار کیا تو ان کی جگہ بریگیڈئر نیاز کو لایا گیا۔ انہوں نے بھی انکار کر دیا، اوپر تلے دونوں کا کورٹ مارشل ہو گیا۔ فوج نے یا شاید حکومت نے تیسرا بریگیڈئر آزمانے کی کوشش نہیں کی۔ جنرل ضیاءالحق کے اندر جرا¿ت و بہادری کے بھوت نے بھٹو کا تخت الٹنے پر اقتدار پر مکمل کنٹرول کے بعد انگڑائی لی تھی۔ اب فوج کی قوت کے مظاہرے فوج کے اقتدار کے ایوانوں سے بہت دور ہونے کے باوجود بھی دکھائی دیتے ہیں۔ فوج کے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کی تکلیف کا اظہار بڑی شدت سے ہو رہا ہے۔
کچھ لوگوں کی دھرنا والوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خواہش تھی۔ عین ممکن تھا اس سے خونریزی کا اس دھرنے میں شروع ہونے والا سلسلہ پورے ملک کو طوفان بن کر لپیٹ میں لے لیتا۔ سیاسی اور مذہبی دھرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جو رائیونڈ جاتی امرا کی عمران خان کے کارندوں سے حفاظت کرنے کے لئے کفن بردوش ہو کر نکلے تھے وہ تحریک لبیک کے کارکنوں کی آنکھوں میں اترا خون دیکھ کر سہم اور دُبک گئے۔
جس روز دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا اس روز دھرنا کیس کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت تھی۔ اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے انٹیلی جنس بیورو سے استفسار کیا ہے کہ بتائیں دھرنے والوں کے پاس اسلحہ کہاں سے پہنچا اور پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی ہے؟۔ عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدے میں فوج کی ثالثی پر حیرت اور دھرنا مظاہرین کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف گالیاں دینے پر معاہدے میں معافی کی شق شامل نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا، فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنیوالوں میں معاہدہ کرایا،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دھرنے کے پیچھے یہ لوگ ہیں۔ انوشہ رحمن کو بچانے کے لئے زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا کہ میں بھی عاشق رسول ہوں۔
فاضل جج کے ریمارکس پر فوج مخالف حلقے جھوم جھوم گئے اور سرشاری کی کیفیت میں ہیں۔مگر انوشہ رحمان کے حوالے سے ریمارکس مستقبل میں مسلم لیگ ن کی سیاست میںہلچل کی نشاندہی ہے۔انوشہ رحمان کے کئے دھرے پر زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا،انوشہ رحمان سے جوکیا وہ کس کی ہدایت پر کیا،وہ شاید راجہ ظفرالحق کی رپورٹ میں ہوگا جسے معاہدے کے مطابق فوج سامنے لائے گی ،یا کسی بھی ذریعے سے ماسٹر مائنڈ کی نشاندہی ہوتی ہے تو اس سے اٹھنے والے طوفان کو روکناکیا ممکن ہوگا؟۔
ایک طرف جسٹس صدیقی کے فوج کے حوالے سے ریمارکس تو دوسری طرف اس کے برعکسلاہور یائیکورٹ کے جسٹس قاضی محمد امین نے مجلس وحدت المسلمین کے رہنما ناصر عباس شیرازی کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر دوران سماعت کہا کہ حکومتی سطح پر عدلیہ کے خلاف باتیں ہورہی ہیں، پاکستان آرمی بہترین کام کررہی ہے، فوج نے ملک کو بڑی مصیبت سے نکالا ہے، فوج کردار ادا نہ کرتی تو جانے کتنی نعشیں گرتیں، فوج نے دھرنے سے متعلق امن معاہدہ کراکر عوام کو بہت بڑی مصیبت سے نکالا۔ یہ فوج کا بہت احسن اقدام تھا۔دو ہائیکورٹس فاضل جج حضرات کے ریمارکس جہاں تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں وہیں نظام عدل پر دو جمع دو چار کی طرح یقین رکھنے والوں کے لئے فکر انگیز بھی ہیں۔ سپریم کورٹ میں از خود نوٹس پر دھرنا کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ مجھے پرواءنہیں کوئی مجھے کتنی گالیاں دے اگر کسی نے دھرنا ختم کروانے کے لیے کردار ادا کیا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔حکومت سے فوج الگ نہیں ہے اس لیے اسے بدنام نہ کیا جائے۔
دھرنے سے مسلم لیگ ن کی سیاست اور ساکھ کو نقصان پہنچااگر تحریک لبیک اگلے الیکشن میں اپنے اعلان کے مطابق حصہ لیتی ہے تواس کو کوئی سیٹ ملے نہ ملے مگر وہ کئی سیٹوں کے نتائج پر اثر انداز ہوکر مجموعی نتائج کو تلپٹ کرسکتی۔زاہد حامد اوراشتعال کا مظاہرہ کرنے والے جج شوکت صدیقی نے خودعاشق رسول کہا ہے،ایسے بلند مقام پر سرفرازی کادعویٰ انہوں نے سوچ سمجھ کر کیا ہوگا ۔عام مسلمان تو غلامی رسول پر فخر کرتا ہے جبکہ خادم رضوی خود کو آقا کے َدر کا کتا کہتے ہیں۔