حیاتِ جادواں اور… ادیب جاودانی

2017 ,اگست 23

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



گاڑی سیدھی ڈیوائڈر سے ٹکرائی، جدید سہولتوں سے آراستہ گاڑی کے بیلون کھل گئے جو ایمرجنسی اور حادثے کی صورت میں سواروں کی جان بچا دینے کیلئے نصب کئے ہوتے ہیں۔ گاڑی میں پانچ نوجوان سوار تھے۔ پانچوں پاکستانی اور سب موٹر مکینک تھے۔ یہ حادثہ قطر میں پیش آیا ان پانچ میں سے تین سگے بھائی تھے۔ وہ پاکستان آکر اپنا کاروبار شروع کرنے کا پلان بنا چکے تھے۔ گاڑی انکی ورکشاپ میں مرمت کیلئے آئی تھی۔ عید کے روز یہ نوجوان سیر کیلئے نکلے حادثے کا شکار ہو گئے۔ پانچوں کو خراش تک نہ آئی تھی مگر ان میں سے کسی نے بھی گاڑی سے نکلنے کی کوشش نہیں کی۔ پانچوں گاڑی کے اندر موجود تھے، خون کا کوئی قطرہ نہیں نکلا مگر پانچوں جسموں کی روح نکل چکی تھی۔ یہ معمہ جلد حل ہو گیا۔ گاڑی 165کی سپیڈ سے دیوار کیساتھ ٹکرائی جس کے جھٹکے سے پانچوں کی گردنیں ٹوٹ گئی تھیں۔ ایک لمحے میں جیتے جاگتے انسان بے روح ہو گئے۔ لاہور میں انکے گھروں میں اطلاع سے کہرام مچ گیا تھا اور انکی پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی۔

موت کو ایک بہانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہانہ کوئی بھی بنے مگر موت اٹل حقیقت ہے۔ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے اپنی یادیں، باتیں اور کردار چھوڑ جاتا ہے انسان موت کو ٹال نہیں سکتا۔ مگر اپنے کام، کارکردگی اور کارناموں سے خود کو جاوداں بنا سکتا ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہ سکتا ہے۔ ہمیشہ کیلئے خوشبو بن سکتا ہے اور پھر حیات جاوداں کیلئے عمر کا کوئی عمل دخل نہیں۔100سال سے زائد کی زندگی پانے والے بھی دیکھے ہیں مگر جنازے کیساتھ ہی وہ ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ جوانی کی دہلیز پر موت کی لکیر پار کرنیوالے بھی ایسے کام کر جاتے ہیں جو صدیوں اور قیامت تک بھی یاد رہتے ہیں۔ محمد بن قاسم بیس اکیس سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے، انکی یادیں کبھی مدھم نہیں ہوئی ہیں، ارفع کریم کو پاکستانی کبھی نہیں بھولیں گے۔ ملالہ کو کوئی مثبت لے یا منفی وہ بھی تاریخ ساز شخصیت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

امام حسینؓ کی لازوال قربانی قیامت تک فراموش نہ ہو سکے گی۔ تذکرہ یزید کا بھی ہوتا ہے مگر سدا ملعون اور مطعون رہے گا۔ حجاج بن یوسف کو لوگ بھول نہیں پائیں گے۔ اس نے قرآن کے اعراب لگوائے مگر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جیسے صحابہ کا خون اسکی گردن پر ہمیشہ رہے گا۔ اسکے ظلم کی داستانوں میں اس کا اعراب لگانے کا کارنامہ دب کے رہ گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ محض اڑھائی تین سال خلیفہ رہے اس مختصر مدت میں انہوں نے جو کچھ کر دکھایا انکے نام کو یوم محشر تک روشن کر گیا۔ آج کے جدید دور میں تین بار حکمرانی کرنیوالوں کو قوم کا مقدر سنوارنے میں مدت کم نظر آتی ہے۔

تاریخ ایک ایک لمحے کو نوٹ کر رہی ہے۔ ضروری نہیں اختیارات کی مالا گلے میں ہو اور اقتدار کا ہماسر پر بیٹھا ہو تبھی ہمالہ سر ہو سکتا ہے ۔ بہرحال رسوائیوں کے طوق کیلئے اقتدار اور اختیار کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم کئی اسی منزل پر آکر رسوا ہوجاتے ہیں تاریخ میں پستی کردار کا تذکرہ تادیر رہتا ہے۔

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ قانون کے سامنے سر جھکاتے رہیں گے مگرپورے خاندان نے نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔ کہا کہ نظرثانی کی اپیل دائرکی ہے، اسکے فیصلے تک نیب میں پیش نہیں ہونگے۔ گویا خود ہی سٹے باور کرلیا۔ اس رویے کو کچھ حلقے رعونت آمیز بھی کہتے ہیں۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ عدالت فوج کو گرفتاری کیلئے کہہ سکتی ہے۔ ایسی نوبت نہ ہی آئے تو بہتر ہے۔ ویسے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی پہلے پلاننگ ہوتی رہی اب بے توقیر کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ملتان کے وکیل شیر زمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو شیر زمان ،شیر کی خالہ بن کر موٹرسائیکل پر بیٹھے اور پھر پولیس کے ہاتھ نہ آئے۔ گرفتاری دیتے تو وقار میں اضافہ ہوتا۔وکلا شیر زمان کے توہین عدالت کیس کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں وہ بھی عدالت کے پھٹے چک کر، گیٹ توڑ کر، ججوں کا گریبان پکڑ کر۔ عدلیہ آج آزمائش میں ہے، کچھ لوگ عدلیہ کو متنازعہ بنانے کیلئے سرگرداں ہیں۔ وکلا اپنے حقوق کی بات ضرور کریں، کسی کے آلہ کار نہ بنیں۔ کل سب کچھ سامنے آئیگا ایسا کر جائیں کہ نسلیں فخریہ آپکے کردار کا حوالہ دیں۔ عدلیہ کی بے توقیری میں ممددومعاون بنیں گے تو نسلیں شرمندہ رہیں گی، عدلیہ پر حملے کسی کا مذموم ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ ن لیگ ملتان کے صدر بلال بٹ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کیخلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ رانا ثناء اللہ بھی وکلا کو یہ کہہ کر جوش دلا رہے ہیں وکلا کی گرفتاری کا کہنا آسان ہے بعد کی صورتحال سے نمٹنا مشکل، اس سے سب گیم کھل جاتی ہے کہ وکلاء کی شدت پسندی کے پیچھے کون ہے؟ ویسے گورنر پنجاب بھی ملتان سے ہیں۔

یہاں روجھان میں ڈکیت گینگ پھر سے متحرک ہونے کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ اس نے سات پولیس اہلکار پھر یرغمال بنالئے۔ انکو چھڑانے کیلئے حکومت نے ڈاکوئوں کے مطالبات مان لئے۔ یہ پولیس کیلئے شرم کا مقام ہے۔ پولیس نے گزشتہ سال بے تدبیری سے ڈاکوئوں کا مقابلہ کیا، کئی اہلکار شہید اور کئی اغوا ہوگئے۔ فوج نے آپریشن کرکے ڈاکوئوں کا صفایا کردیا۔ اسکے بعد پولیس نے وہاں امن برقرار رکھنا اور ڈاکوئوں کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دینا تھا مگر یہ دن دیکھنے پڑے جس آئی جی کی بے تدبیری سے پولیس بدنام ہوئی اسکے خلاف ایکشن لینے کے بجائے ریٹائرمنٹ پر اسے مشیر لگا دیا گیا اور جاتے جاتے وہ صاحب پولیس کو نئی وردی پہنا گئے جو مسترد ہوچکی ہے ڈیڑھ ارب روپے کھوہ کھاتے گئے۔ پولیس میں ایسے نامور سپوت بھی گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جن کی کارکردگی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ایسے سپوتوں کا نام اور کردار تاریخ میں درخشند رہے گا۔

کالم کی ان سطور پر اطلاع ملی کہ ادیب جاودانی وفات پاگئے ہیں۔ میں نے انکے فون پر کال کی تو انکے صاحبزادے کاشف ادیب نے بتایا کہ جاودانی صاحب چار روز سے الرجی کے باعث حمید لطیف ہسپتال میں داخل تھے۔ صبح پانچ بجے وہ واش روم گئے، وہاں ان کو دل کا دورہ پڑا۔ جاودانی صاحب کے چھوٹے بیٹے واصف ادیب انکے ساتھ تھے۔ جاودانی صاحب کو فوری طور پر آئی سی یو منتقل کیا گیا جہاں 15 بیس منٹ بعد وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔

ادیب جاودانی کی صحافت، ادب، تعلیم اور سماجی حوالے سے خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ وہ ایک گائوں سے شہر آئے اور پھر اپنی اہلیت اور محنت کے بل بوتے پر قومی افق پر چھا گئے۔ مون ڈائجسٹ شروع میں ان کا بہت بڑا تعارف تھا۔ اسکے ساتھ انہوں نے تعلیم کے فروغ کی طرف توجہ دی۔ لاہور ‘فیصل آباد اور گجرات میں مون لائٹ سکولوں کی ایک سیریل قائم کی۔ وہ آل پاکستان سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے کئی سال سے چیئرمین تھے۔ انہوں نے روزنامہ مون سٹار کے آغاز کا اعلان کیا مگر تعلیمی میدان میں مصروفیات کے باعث ان کا یہ پراجیکٹ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ میں نے اپنی صحافت مون ڈائجسٹ سے بطور انٹرویو نگار شروع کی۔ اس دوران رپورٹنگ بھی کی۔ جاودانی صاحب کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ وہ واقعی ایک دردِ دل رکھنے والے محب وطن پاکستانی تھے۔ وہ نوائے وقت میں باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے۔ جیلوں کے دور ے کرنا ان کا معمول تھا جس حد تک ممکن تھا وہ مظلوم قیدیوں کی قانونی مدد کرتے تھے۔ مون ڈائجسٹ کیلئے تاریخ ساز پاکستانی لیڈروں کے انٹرویوز ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میری زیرطبع کتاب ’’موت سے زندگی کی طرف‘‘ کیلئے جاودانی صاحب نے اپنی سرگزشت مجھے بھجوائی تھی۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ موت سے کیسے ہمکنار ہونے لگے تھے مگر اس روز انکی موت نہیں لکھی تھی۔ ادیب صاحب صوفی برکت علی لدھیانوی کے معتقد تھے، انکی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے اور انکی تربت پر بھی حاضر ی معمول تھا، مون ڈائجسٹ کے کئی شمارے ان کے نام کئے۔بلاشبہ انسان فانی مگر اس کا کردار یادیں اور باتیں لافانی ہیں۔ یہی حیات جاوداںہے۔

متعلقہ خبریں