صحرا کا سکندر

2017 ,مارچ 8

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

یہ پرانی بات نہیں‘ اسی دور کی بات ہے ایک بادشاہ دوسرے ملک گیا۔ اس کا اپنا ملک صحراؤں پر مشتمل ایک سمندر سے متصل تھا‘ اسے صحراؤں اور صحرا کی زندگی سے پیار تھا۔ اپنے شاہی محلات سے نکل کر صحرانوردی شوق تھا۔ دوسرے ملک گیا تو صحرا ہی کی سیاحت کو ترجیح دی۔ ایک روز صحرا گردی کے دوران اپنی سواری روکی اور ریت کے ٹیلے پر بیٹھ گیا۔ اس دوران ایک شخص اونٹنی کی نکیل تھامے وہاں سے گزرا تو بادشاہ اٹھا اسے رکنے کا اشارہ کیا‘ اونٹنی بان رک گیا تو بادشاہ نے پوچھا۔ ’’اونٹنی بیچو گے؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’منہ مانگی قیمت دونگا‘‘

’’کسی قیمت پر نہیں بیچنی‘‘

’’ہمیں پسند آئی ہے‘ جو مانگو ملے گا‘‘

’’جان کی طرح پیاری ہے بیچ نہیں سکتا‘ کوئی ضرورت بھی نہیں ہے جو اسے بیچ کر پوری کروں‘‘ یہ کہہ کراونٹنی کی نکیل تھامے آگے کی طرف بڑھ گیا اور آہستہ آہستہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ تھوڑی دور گیا تھا کہ نہ جانے ذہن میں کیا آیا کہ واپس چلا آیا۔ اس اجنبی کے پاس پہنچ کر اونٹنی کی نکیل اسے تھمائی اور کہا۔ ’’یہ آپکی ہوئی۔‘‘

’’اس کا کیا لو گے‘‘

’’کچھ نہیں لوں گا‘ یہ آپ کیلئے میری طرف سے تحفہ ہے۔‘‘ … بادشاہ بڑا خوش ہوا۔ ساتھ بیٹھے کار خاص کو حکم دیا۔ ’’اونٹنی اسکے پاس رہے گی۔ اسے مزید جانور بھی خرید کے دیدو۔‘‘ دوسرے دن اونٹنی والے گھر چند جانور پہنچا دئیے گئے‘ چند دن بعد فارم بنا دیا اور کچھ برسوں میں اونٹوں‘ گائے‘ بکریوں وغیرہ کی تعداد سینکڑوں سے ہوتی ہوئی ہزاروں تک پہنچ گئی‘ یہ جانور بادشاہ کی ملکیت تھے۔

بادشاہ کا ایک دن انتقال ہو گیا۔ جائیداد تقسیم ہوئی یہ فارم ہاؤس ولی عہد کے حصے میں آیا۔ اونٹنی والا سمجھ رہا تھا‘ بادشاہ کے ساتھ میں بھی مر گیا ہوں۔ شاید بیٹا باپ جیسا سخی دل نہ ہو۔ نئے بادشاہ نے مال مویشیوں کے دو حصے کرنے کو کہا‘ اس میں دو دن لگے۔ بادشاہ نے ہدایت کی کہ ایک حصہ ان جانوروں کی رکھوالی کرنیوالے کو دیدیا جائے اور دوسرے حصے کے جانور بیچ کر رقم غریبوں میں تقسیم کر دی جائے۔ اونٹنی والے تک بادشاہ کا حکم پہنچا تو اس نے عرض کی کہ یہ جانور کسی اور کو نہ بیچے جائیں‘ میں ہی خرید لیتا ہوں۔ بادشاہ نے ہاں کر دی اور کہا یہ شخص جو بھی دے‘ اسے علاقے کے غریبوں میں تقسیم کر دیں۔ بادشاہ جس نے اونٹنی خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی‘ اس کا نام شیخ زید بن سلطان النہیان اور اونٹنی والے کا نام سکندر تھا۔

اس کہانی کے راوی میجر (ر) شاہد ہیں جو ہمارے ساتھ رحیم یار خان میں میجر (ر) طاہر کی جگہ شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات کے منصوبے وزٹ کرائے۔ ان میں سے ہر ایک اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم 45 سو ایکڑ پر محیط چنکارہ ہرن کی افزائش اور تحفظ کیلئے ایریا اپنی نوعیت کا بہترین منصوبہ ہے۔ اس سے ناپید ہوتی چنکارہ کی نسل محفوظ ہو گئی۔ جہاں 15 سو ہرن موجود ہیں۔ نر اور مادہ کی پہچان یہ ہے کہ مادہ کے سنگ چھوٹے اور باریک ہوتے ہیں جبکہ کالے ہرن کی مادہ کے سینگ ہوتے ہی نہیں۔ صدر کینڈی پاکستان کے دورے پر آئے تو ایوب خان نے انہیں کالے ہرن کا جوڑا تحفے میں دیا۔ پھر ایسا دن بھی آیا کہ پاکستان سے کالے ہرن کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ کالے ہرن کی کمر گدری اور باقی دھڑ سفید ہوتا ہے۔ عمر گزرنے کیساتھ کمر سیاہ ہوتی جاتی ہے۔ جب پاکستان سے یہ نسل ختم ہو گئی تو امریکہ سے درخواست کرکے ایک جوڑا لیا گیا آج اسی ہرن کی تعداد 258 ہے۔ اسکی افزائش لال سہانرہ میں شیخ زید فارم میں ہو رہی ہے۔

سلووالی کے قریب 1400 ایکڑ پر مشتمل زرعی فارم ہے جس میں 400 مقامی لوگ ملازم ہیں۔ یزمان میں ٹی ایچ کیو ہسپتال میں خواتین اور بچوں کیلئے وارڈ قائم کیا ہے۔ رحیم یار خان میں چنکارہ ہرن کی حفاظت و افزائش کیلئے 4500 ایکڑ پر فارم بنایا گیا ہے جس میں 15 سو ہرن موجود ہیں۔شیخ زید ہسپتال‘ سٹیڈیم چلڈرن پارک‘ ہیلتھ سینٹرز او لیول سکول کام کر رہے ہیں۔ روجھان میں ہسپتال، کالج اور امارات کے حکمرانوں کی طرف سے پورے شہر کیلئے پانی کا انتظام کیا ہے۔ قریب ہی 14 کلومیٹر طویل پل دو سال سے مکمل ہو چکا ہے۔ پنجاب حکومت نے اسکے کنارے اور لنک روڈ بنانے ہیں۔ اس پل کے چالو ہونے پر روجھان سے رحیم یار خان کا فاصلہ صرف 54 کلومیٹر رہ جائیگا جبکہ اب راجن پور تک کا فاصلہ 65 کلومیٹر ہے۔ شیخ زید اور شیخ خلیفہ کے نام سے علاقے کے لوگوں کیلئے بے شمار پراجیکٹ جاری ہیں۔

میجر شاہد نے رحیم یار خان میں کچھ منصوبے دکھائے اور دوپہر کو ہم روجھان روانہ ہو گئے۔ جہاں میجر اظہر بٹ کو میجر شاہد نے ’’بیٹن‘‘ پکڑانا تھا ہم نے دریائے سندھ کا سولہ سترہ کلو میٹر پاٹ کراس کیا تو اظہر بٹ کی گاڑی سامنے سے آگئی۔ وہ ہمیں دریائے سندھ پر کشتیوں کا پل دکھانا چاہتے تھے جس پر ہوبارہ فاؤنڈیشن کے گارڈ تعینات ہیں۔ یہ پل بھی امارات نے تعمیر کیا ہے اور یہاں کوئی ٹیکس نہیں۔ ہم اظہر بٹ کی معیت میں روجھان گئے۔ یہاں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال امارات کے حکمرانوں کے تعاون سے چل رہا ہے۔ ساتھ ہی ڈگری کالج ہے۔ میجر عرفان کی ڈیوٹی پیلس میں ہے۔ شیوخ پاکستان آئیں تو وہ انکے ساتھ ہوتے اور انکو پراجیکٹس پر لے جاتے ہیں۔ اس علاقے میں سکیورٹی بارڈر ملٹری پولیس (BMP) فراہم کرتی ہے۔ میجر عرفان نے اس پولیس کے اہلکار گل محمد سے علاقہ کی کوئی ضرورت یا مسئلہ پوچھا تو اس نے کہا اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ ان کو بڑی مشکل سے تعلیم دلائی۔ اب وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ ہو سکے تو روجھان میں ڈگری کالج بنوا دیں تاکہ علاقے کے بچے ان مصائب و مشکلات سے بچ جائیں جو میرے بچوں کو درپیش تھے۔ اسکی یہ خواہش پوری ہو چکی ہے۔ دو سال سے ڈگری کالج میں کلاسیں ہو رہی ہیں۔

روجھان سے جلد واپس آگئے۔ گزشتہ روز میجر بٹ سے بات ہوئی تو وہ بتا رہے تھے کہ شام کو سلائیڈنگ سے راستہ بند ہو گیا تھا جو اگلے روز کھلا۔ اگر پنجاب حکومت نیا پل کھولدے تو راستہ ہمیشہ کھلا رہے۔

بہاولپور سے یزمان اور پھر رحیم یار خان تک صحرا کا طویل سلسلہ جو ہزاروں میل پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ریتلا صحرا نہیں۔ ایک ویرانہ ہے‘ اجاڑ ہے‘ بیاباں ہے سڑک کے ساتھ کہیں کہیں سرسبز فصلیں لہلہاتی ہیں۔ درخت جھوم جھوم جاتے ہیں۔ پورے ایریا میں جڑی بوٹیاں اگتی ہیں سوکھتی اور مرجھا جاتی ہیں۔ انسان جانور اور نباتات پانی کی بوند کو ترستے ہیں۔ اگر پانی ہو تو صحرا گل و گلزار بن سکتا ہے۔ ہمارے پاس پانی کی کمی نہیں مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ کالا باغ بنا دیں تو یہی صحرا گلشن و گلستان بن جائے گا۔جس میں ایک نہیں ہزاروں سکندر سامنے آئینگے۔

 

 

 

 

 

 

متعلقہ خبریں