ایک اور کشیر سنگھ؟
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اپریل 12, 2017 | 06:34 صبح
جاسوس تاریخ کا دھارا تبدیل کردیتے ہیں‘ جغرافیہ میں تغیروتبدل لاکر تَحَیُر اُٹھا دیتے ہیں۔ بسے ممالک برباد‘ نئی سلطنتیں آباد کر دیتے ہیں۔ لارنس آف عریبیہ اور ہیفرے نے عربوں کی تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی بدل دیاتھا۔ جاسوس کی طرف سے اپنے وطن سے نکالا گیا آخری قدم موت کی دہلیز پر پہلا قدم ہوتا ہے۔ اگلا سفر تنے رسّے اور پلصراط پر ہوتا ہے۔ پلصراط سے پار ہوگیا تو ہیرو‘ تھوڑی سے بے احتیاطی موت کی دہلیز سے دوسری طرف لیجاتی ہے یا کال کوٹھڑی مقدر بنتی ہے۔ جاسوس مشن مکمل کرکے لوٹے،پکڑا جائے یامارا ہموطنوں کے لئے ہردوصورتوں میں ہیروہوتا ہے۔جاسوس کو ادراک ہوتا ہے کہ وہ وطن سے اپنے پائوں پر جارہا ہے، واپسی تابوت میں ہوسکتی ہے۔ایسا یقین کرکے ہر ملک کا جاسوس مشن پر نکلتا ہے‘ سوائے بھارتی جاسوسوں کے۔ پُر فتن بنیا پاکستان کی تباہی کا ہی جتن کرتا ہے۔ سفارتخانے تک جاسوسوں سے بھر دیتا ہے۔ افغانستان کے ذریعے جاسوسی ہوتی ہے ‘ ایران کو استعمال کیا جاتا ہے۔کئی عرب ممالک اس ’’کار خیر‘‘ کیلئے بروئے عمل آتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کو یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ پاکستان میں پکڑا گیا تو اس کا بال بیکا نہیں ہوگا۔عموماً جاسوسی موت کا کھیل ہے‘ جان جوکھوں میں ڈالنے والی مہم جوئی ہے جبکہ بھارتی جاسوسوں کیلئے یہ اداکاری اور فنکاری ہے۔
کشمیر سنگھ کے ٹرائل کیلئے کیپٹن نذیر کوفوری طور میجربنایا گیا۔کرنل ایڈم، فروغ عباسی نے کرنل عبدالقیوم (بعدمیں میجر جنرل) سے موزوں افسر کی ڈیمانڈ کی تھی۔ ٹرائل کیلئے میجر ہوتا ہے۔ ٹرائل کا آرڈر کور کمانڈر منگلا جنرل عبدالعلی نے جاری کیا تھا۔ میجر نذیرکئی فورمزپر یہ بات دہرا اور صحافیوں کو بتا چکے ہیں کہ کشمیر سنگھ نے مکتی باہنی کی تشکیل میں کردار ادا کیا۔ پاکستان سے غداری کرکے بھاگنے والے بنگالی فوجیوں کو فرار کرانے میں سہولت کاری اور پاکستان میں تخریب کی آبیاری کی‘ اسے پاکستان میں سہولت کار بھی دستیاب تھے۔ کشمیر سنگھ اپنے مقاصد کیلئے روپیہ پیسہ تو لٹاتا ہی تھا‘ ایجنٹوں کیلئے بہترین تحفہ کشمیری شال ہوا کرتا تھا۔ یہ شال اس وقت بھی ڈیڑھ لاکھ دو لاکھ کی تھی۔کشمیری شال شدید سردی میں اوڑھی جاتی ہے۔ اسکے معیارکا اندازہ کرلیں کہ یہ انگوٹھی میں سے گزاری جا سکتی ہے۔ ایک مرتبہ رات کے پچھلے پہر کشمیر سنگھ کے پیچھے ایجنسی والے لگ گئے‘ لاہور بادامی باغ کے علاقے میں کشمیر سنگھ ایک گھر میں جاگھسا۔ اہلکار بھی پہنچ گئے مگر کشمیر سنگھ چھلاوے کی مانند غائب ہوگیا۔ کشمیر سنگھ نے کشمیری شالوں کے ذریعے اس خاندان کی غیرت کا توا لگایا جو ہمارے لئے ماتم کا مقام ہے۔گھر کے سربراہ نے اپنی جوان بیٹی کے بستر میں اسے لٹا دیا۔ ایجنسی والوں کو بتایا یہ اس کا بیٹا اور بہو ہیں۔ انویسٹی گیشن کے دوران کشمیر سنگھ نے کئی راز اُگلے‘ انکشافات اور اعترافات کیے۔ یقین کیساتھ کہا ’’میجرا! تو اور تیرا ملک جو بھی کر لے‘ میرا ملک بہت بڑا ہے‘ وہ مجھے چھڑا کے لے جائے گا۔‘‘
کشمیر سنگھ کو قواعد وقانون کے تحت سزائے موت ہوئی مگر اس پر عمل نہیںہوا۔ کشمیر سنگھ کو 34سال بعد اُس صدر کے دور میں انصاربرنی پھولوں کی برسات میں بھارت چھوڑ آئے جو صدر ایک کمانڈو ہونے پر فخر کرتاتھا۔ جنرل مشرف کے سامنے کشمیر سنگھ کے کرتوت تھے ‘پھر بھی انصار برنی نے انہیں نجانے کیسے شیشے میں اتار لیا۔
اب کلبھوشن کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ کلبھوشن کے معاملے میں قوم پُراشتعال جبکہ برنی ذہنیت نہال ہے۔ وہ پاکستانیوں کے اشتعال پر مسکرا رہی اور باوقار رہائی کا پلان بنا رہی ہے۔ اسے ایک اور کشمیر سنگھ مل گیا‘ اسے انعام ملے گا‘ صدارتی ایوارڈ ملے گا۔ کشمیر سنگھ کی طرح کلبھوشن بھی دیش بھگت بنے گا، ہیرو قرار پائے گا۔
ہر کام کبھی پہلی بار ہوتا ہے‘ بھارتی جاسوس کو پھانسی بھی شاید پہلی بار لگا دی جائے۔ میڈیا میں رپورٹس آتی رہیں کہ حکومت ’’خیرسگالی‘‘ کیلئے کلبھوشن کو رہا کرنا چاہتی ہے۔ اس ’’عظیم مقصد‘‘ کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے پہلے چند ہفتے ’’سنہری موقع‘‘ تھا۔مگر اب ممنونیت پر فرض غالب آرہا ہے،بادی النظر میںکلبھوشن کو رہا کرنے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
کلبھوشن کی سزاپر بھارت کا واویلا غیر متوقع نہیں۔ وہ پاکستان کیخلاف زمین وآسمان کے قلابے ملا دیگا، اس کا ادراک ہماری قیادت کو ہونا چاہیے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اعلان کرکے پھانسی دی جاتی تو ملک کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔ ممتاز حسین قادری کی سزائے موت کے عمل پر کسی کو یقین نہیں تھا۔ اگر ایک روز قبل اعلان کر دیا جاتا تو جنازے کے شرکاء جتنے لوگ سر پرکفن باندھ کر جیل کے گرد جمع ہو جاتے۔ کلبھوشن کی سزائے موت کی تشہیر کی ضرورت نہیں تھی۔ ضابطے قواعد مکمل کرکے لاش باہر لائی جاتی تو بھارت کو طوفان اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ اب ہمارے وزیراعظم نوازشریف دبائو میں ہونگے‘ جن کی بھارت کے ساتھ تجارت متاثر ہوسکتی ہے۔ مجید نظامی صاحب نے ایٹمی دھماکے کرنے کیلئے بھرپور مہم چلائی تھی۔ میاں شریف نے نظامی صاحب سے کہا کہ واہگہ بارڈر پر لوہے کی بوگیاں کھڑی ہیں۔ بھارت نے الزام لگایا،کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا گیا۔ یہ ایک حسین الزام ہے‘ اسے قبول کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ پاک ایران تعلقات کی سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ ایران بھارت تجارت‘ تعاون‘ سرمایہ کاری کے بڑے چرچے ہیں۔ چاہ بہار پورٹ باہمی تعاون سے بن رہی ہے۔ ایران کا بھارت کے ساتھ تجارت‘ سرمایہ کاری اور دفاعی تعاون بھی چل رہا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت ایران کی سرزمین پاکستان میں جاسوسی اور دہشتگردی کیلئے استعمال کرے۔ ایران نے صرف شیطان کلبھوشن نہیں‘ ایسے 41 شتونگڑے بھی پاکستان کے حوالے کیے ہیں۔بھارت کلبھوشن کی رہائی کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ کوئی ڈرامہ کر سکتا ہے۔ سازشیں رچا سکتا ہے۔ جہاز اغوا کرا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستانی ریٹائرڈ کرنل حبیب طاہر کو نیپال سے اغوا کیا گیا ہے۔ شواہد را کی خباثت پر صاد ہیں۔ کرنل حبیب کو بلیک میلنگ کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ کرنل حبیب کے اغوا پر ہمارے میڈیا کا خاموش رہنا افسوسناک اور وزارت خارجہ کی بے حسی شرمناک ہے۔ کلبھوشن کیساتھ رعایت کی دبی دبی آوازیں ہمارے ہاں بھی اُٹھ رہی ہیں۔ سزائے موت کے خلاف تو کھل کر آواز بلند ہوتی ہے۔ سزائے موت کی مخالفت قانون قدرت کیساتھ کھلی بغاوت ہے۔ پاکستان کا ایجنٹ یا جاسوس ہونے کے شبہ میں بھی پکڑے جانیوالوں کو بھارت زندہ کرشنگ مشین میں ڈال کر پیس ڈالتا ہے۔ بھارت کے واویلے پر وزیراعظم کی طرف سے دوٹوک جواب آنا چاہیے تاہم پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط خوب بولے ہیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کو جواب قوم کی امنگوں اور ملکی وقار کے مطابق ہے۔ ’’دہشتگردی کرتے ہو، پھر احتجاج بھی کرتے ہو‘‘ عبدالباسط بھارت میں پاکستان کا بہترین انتخاب ہیں۔ خدا اس افسر کی خیرکرے، اپنوں اور دشمن کے شر سے بچائے رکھے۔