2017 ,دسمبر 18
شیخ مجیب نے 29 جنوری 1972 کو سرکاری سطح پر ایک 12 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے۔ جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ: وہ مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے۔ عبدالرحیم انکوائری کمیٹی نے ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے کوائف جمع کیے، انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمائندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا، بیان کرتا: مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے 2 ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہو سکیں کہ: انہیں پاکستانی افواج نے مارا تھا۔ (روزنامہ گارڈین لندن، 6 جون 1972)۔ تاہم جب تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں 56 ہزار 7 سو 63 افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جا سکے ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ: جونہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیرِ اعظم کو پیش کی تو مجیب آپے سے باہر ہو گیا، اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پر دے ماری اور غصے میں چلانے لگا: میں نے 30 لاکھ کہے ہیں 30 لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے۔( گارڈین لندن 6 جون 1972)۔بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمائندہ آگے چل کر رقم طراز ہے کہ : مجیب نے مقتولین کی مدد کے لئے 2 ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لئے 72 ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں 50 ہزار مقتولین کے لئے رقم حاصل کرنے کا دعوی کیا گیا، اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں۔ (گارڈین، لندن 6 جون 1972)۔یہ بھی امر پیشِ نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈا مشین کے مطابق: بھارت میں بناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے۔ اس طرح جن افراد نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں، ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوں میں مارے گئے تھے۔
مجیب حکومت سقوطِ مشرقی پاکستان کے فورا بعد نقصان، اموات اور جرائم کے ذمہ داران کے تعین کے لئے پوری طرح سرگرمِ عمل ہو گئی۔ یوں 22 دسمبر 1971 کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کر دیا تھا: جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ بنگالی ہیروئنیں ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری 1972 میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا بنگالی ہیروئنز کمپلیکس، قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتہ دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کیلئے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم نے ہیروئنز کمپلیکس کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کےلئے بھی آباد نہ ہو سکا۔ کتنی بنگالی ہیروئنیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ تعداد معلوم نہ ہو سکی۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کیلئے کوئی قابلِ ذکر ثبوت فراہم نہ ہو سکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کر دیا گیا۔ ازاں بعد تحریکِ آزادی ہند کے معروف راہنما اور بنگالی نزاد سبھاش چندر بوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس نے جون 2005 میں اپنے تحقیقی مقالے بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار میں لکھا ہے: ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یکسر نظر انداز کر کے، صرف مقابلہ کرنےوالے جوانوں کو نشانہ بنایا۔
آریانا فلاسی نے اپریل 1972 میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو کیا، جو اس کی کتاب Interwiew With History میں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا: مجیب الرحمن ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اسکے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے۔۔۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 60 سے 70 ہزار تھی، جبکہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق 30 ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریبا 50 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔ انہوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اسے جواز بنا کر مشرقی پاکستان پر حملہ کر سکے۔ لیکن جب ہم نے اقوامِ متحدہ سے کہا کہ وہ بنگالی پناہ گزینوں کی تعداد چیک کر کے بتائے تو بھارت نے ہمارے مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں زیادتیاں ہوئیں تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف 4 کیس رپورٹ ہوئے، اگر ان کو 10 سے ضرب دیں تو ان کیسوں کی تعداد 40 ہو جاتی ہے۔ پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا میں پھیلاتے تھے۔ (ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از رف کلاسرا صفحہ 362، 363)۔
جھوٹ گھڑ کر، کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، جسے افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے، نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔اے اہل وطن ، اہل اقتداروانشوارانِ قوم اور نئی وجود میں آنیوالی اینکرمخلوق اس کاکچھ تو تدارک و مداوہ ہو۔دنیا کے سامنے حقائق لائیے پاکستان پر بہتان لگانے والوں کو حق سچ اور صداقت کا آئینہ دکھائیے۔ ہم تو یہ کر سکتے ہیں جو نہیں کر رہے۔