سقوط پرسکوت کب تک

2017 ,دسمبر 18

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



Urdu Newspaper

 

 

سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد تاریخ پر بھی سکوت طاری ہے۔ اس سانحہ سے ہم نے کوئی سبق سیکھایا نہیں سیکھا مگر ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے ساتھ ہو کیا گیا۔ اس درندگی، شرمندگی کا ذمہ دار کون ہے؟ حمودالرحمن رپورٹ پر گرد و غبار کی تہیں جم گئیں وہ ابھی تک منظر پر نہیں آ سکی۔ وہ بھی اگر لیک ہوئی بھارت میں ہوئی۔بھارت میں سیکرٹ رپورٹ کا پہنچنابذات ِ خود ایک المیہ اور تحقیق طلب ہے۔

ِ تاریخ اسلام میں اتنا بڑا سرنڈر کبھی نہیں ہوا۔ پورا ملک دشمن کے حوالے 93 ہزار جنگی قیدی۔ گو سارے فوجی نہیں تھے۔ مسلح دستوں کی تعداد 30 ہزار بتائی جاتی ہے۔ 30 ہزار کا سرنڈر بھی کوئی معمولی اور قابل فراموش نہیں ہے۔ کمانڈر ایک دوسرے کی ذہانت و پلاننگ کی صلاحیتوں سے آگاہ تھے بلکہ شخصیت تک سے واقف تھے۔ جنگوں کی کتابی حکمت عملی ضرور ہوتی ہے مگر کتابی پلاننگ ہی فتح کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ معروضی حالات کو بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے کبھی تھوڑا پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ کرنل ارشد نذیر مشرقی پاکستان میں تھے‘ قیدی بھی رہے وہ کہتے ہیں جنرل نیازی کو انکے بیٹل آف پلان کے تحت لڑنے نہیں دیا گیا۔جنرل نیازی ڈھاکہ میں رہ کر لڑتے تو ان سے بھارت کبھی سرینڈر نہیں کرا سکتا تھا۔ ڈھاکہ کے گرد دریائوں نے ایک بائول بنا دیا ہے۔ وہ اسکے اندر رہ کر اپنا دفاع کر سکتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں دریائوں کی چوڑائی میلوں کی ہے۔ 70 گز بی آر بی نہر انڈین فوج کراس نہیں کر سکی تھی۔ یہی پلان ایسٹ پاکستان کیلئے بہتر رہتا۔ کرنل صاحب یقیناًجنگی ماہر ہیں۔ جنگوں کیلئے رہنما اصول غزوات سے بھی اخذ کئے گئے ہیں۔ ہر غزو ہ میں ایک ہی پلاننگ استعمال نہیں ہوئی۔ جنرل نیازی بائول کے اندر کتنا عرصہ بیٹھے رہتے۔ بی آر بی کے ادھر حالات وہ نہیں تھے جو بائول کے اندر رہتے ہوئے تھے۔ پاک فوج بھارت کے ساتھ ساتھ باغی بنگالیوں سے بھی برسرپیکار تھی اور پھر فوج تھی ہی کتنی؟ اسکے پاس اسلحہ کیسا اور کتنا تھا۔ بائول تک کمک کیسے پہنچتی۔ وہاں سے فوج کو کیسے نکالا جاتا؟ بلاشبہ وہاں فوج بے جگری سے لڑی۔

یحییٰ اور بھٹو کی چھیڑی گئی جنگ کا حتمی انجام یہی ہونا تھا بھٹو کی پلاننگ بہرحال کامیاب رہی، جس میں یحییٰ خان ایک مہرہ بنا اور اپنا منہ کالا کرا لیا۔ آپ نے دفاع کرنا تھا وسائل و اسلحہ سے آپ آگاہ تھے جہاں کتابی پلاننگ کے ساتھ بھی حالات کے تناظر میں پلاننگ کرنے کی ضرورت تھی۔ اسرائیل 1967ء میں مقبوضات کے بعد چین کی بانسری بجاتے سو نہیں گیا تھا۔ اسے علم ہے کہ عرب بدلہ لینے اور اپنے علاقے واپس لینے کیلئے تڑپ رہے ہونگے اور کسی وقت کچھ بھی کر سکتے اور کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ عربوں کے ممکنہ حملے کے پیش نظر اسرائیل نے نہر سویز کے ساتھ ساتھ میلوں طویل فصیل اور کنکریٹ کی دیوار بنا کر دفاع کو ناقابل تسخیر سمجھ لیا۔دیوار بارود سے مسمار ہوسکتی تھی ریت کے پہاڑ ٹینکوں کی راہ میں ناقابل عبور رکارٹ تھے۔ریت کی اس فصیل کو بارلیو لائن کا نام اسرائیلی چیف آف سٹاف ہیم بار لیو کے نام پر دیا گیا۔ 73ء میں مصر نے پیش قدمی کی تو ٹینک ریت کے اونچے ٹیلے کراس کرنے سے قاصر تھے۔ جہاں ایک مصری لفٹین اپنے کمانڈر کے پاس گیا۔ ٹینک گزارنے کی ترکیب بتائی جو کارگر ہوئی۔ وہ کسان کا بیٹا تھا۔ صحرا میں ہوائوں سے ریت کے ٹیلے بن جاتے ہیں۔ لفٹین کا باپ پائپ سے پانی ڈال کر راستہ بنا لیا کرتا تھا۔ یہی کلیہ وہاں بڑے پائپوں کی صورت میں استعمال ہوا جو کتابوں میں نہیں تھا۔مصری فوج دو گھنٹے میں اسرائیلی دیوار اور پلاننگ کو تہس نہس کرکے آگے بڑھ گئی فتح قریب تھی کہ امریکہ اسرائیل کی مدد کو آگیا۔مصر نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔اسرائیل نے اسکے بعد اپنی پلاننگ کو فول پروف بنانے کیلئے ٹنتھ(10th) مین اصول وضع کیا،اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔بھارتی اور پاکستانی کمانڈر اس دور میں ایک دوسرے کی جنگی پلاننگ کی صلاحیتوں سے آگاہ تھے۔ ایک تو یہ فوجی سبجیکٹ تھا اور دوسرے کئی ایک ہی تربیت گاہ میں ایک ساتھ رہے تھے۔ ایوب خان علی گڑھ یونیورسٹی سے فوج کیلئے سلیکٹ ہوئے ان کو ٹریننگ کیلئے برطانیہ سندھرسٹ بھجوایا گیا۔ وہیں کری آپا بھی انکے ساتھ تھے۔ ایوب خان اور کری آپا دونوں اپنی اپنی فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔ 65ء کی جنگ میں جنرل کری آپا کے بیٹے کے جہاز کو فوج نے زمین سے ہِٹ کیا تو اس نے بیل آئوٹ کر لیا تھا۔ گواس جہاز کو ہٹ کرنے کا کریڈٹ پاک فضائیہ کو دیا گیا۔ صدر ایوب کو پتہ چلا تو خود اس سے ملے اور اپنے کورس میٹ کو فون کرکے اسکے بیٹے کی رہائی کی پیشکش کی جس پر جنرل کری آپا نے کہا تھا کہ یہ قوم کا بیٹا ہے، باقی قیدیوں کے ساتھ واپس آ جائیگا۔ جنرل کری آپا کو ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد 1986ء میں فیلڈ مارشل کا رینک دیا گیا شاید بعداز مرگ۔ بھارت نے ارجن سنگھ کو بھی بعد از موت مارشل آف ائرفورس کا رینک دیا تھا جس کے مقابلے میں ائر مارشل نور خاں کی کارکردگی مہادرجہ بہتر تھی۔ نور خان کو تو ائرچیف مارشل رینک بھی نہیں دیا گیا۔

مانک شا اور جنرل موسیٰ بھی بیج میٹ تھے۔ 1932ء کو ڈیرہ دون انڈیا میں پہلی فوجی اکیڈمی بنی تھی۔ رائل آرمی نے کچھ قابل جوانوں کو بھی اکیڈمی کیلئے سلیکٹ کرنے کی پالیسی بنائی۔ پالیسی کے تحت ڈیرہ دون اکیڈیمی میں 40 کیڈٹ آئے۔ 20 اوپن میرٹ پر، 10 نوابوں، وڈیروں اور بڑوں کے بیٹے اور دس فوج سے جوان لئے گئے تھے۔ مانک شا اوپن میرٹ پر بھرتی ہوئے۔ محمد موسیٰ فوج میں نائیک تھے۔ یہ لوگ 1934ء میں پاس آئوٹ ہوئے۔ بعدازاں دونوں تقسیم شدہ اپنے اپنے ملک کے فوجی سربراہ بنے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں بلکہ ریکارڈ ہے کہ ڈیرہ دون میں ان کا کورس میٹ سمتھ ڈون برما کا آرمی چیف بنا تھا۔

سقوط مشرقی پاکستان ہمارے لئے کلنک ہے‘ اس کا کوئی تدارک نہیں ہو سکتا۔ جو ہو سکتا ہے ہم وہ بھی نہیں کر رہے۔ اول تو قوم کو پاکستان ٹوٹنے کے محرکات اور ذمہ داروں کا علم ہونا چاہئے جو حمودالرحمن رپورٹ کے اجرا سے کسی حد تک ممکن ہے۔ ہم نے بھارت سے مشرقی پاکستان کا بدلہ کیا لینا ہم سے تو کشمیر کی آزادی بھی ممکن نہیں ہو سکی۔ خالصتان کی تحریک عروج پر تھی تو ہماری’’ محب وطن‘‘ جمہوری لیڈر شپ نے خالصہ شدت پسندوں کی لسٹیں بھارت کے حوالے کر دیں۔ کیا ہم بھارت کو اسی طرح دو تین لخت کر سکتے ہیں؟ یہ ممکن ہے! ابھی نہ سہی کبھی نہ کبھی کر لیں گے مگر 93 ہزار جنگی قیدی…؟ ایک تو ہمارا وطن ٹوٹا دوسرے الزامات کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ بنگلہ دیشی قیادت بھی پاکستان کو بدنام کر رہی ہے اور پاک فوج کو دشنام دے رہی ہے جن لوگوں نے پاک فوج کا ساتھ دیا ان کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں آج بھی اصل قوت فوج ہے۔ فوج اپنا ساتھ دینے والوں کا تحفظ کرے۔ حسینہ واجد کے ظلم کی راہ روکنے کی کوشش کرے۔ پہلے شیخ مجیب الرحمن اور اب اسکی پتری حسینہ، کیا حسن پایا ہے! روسیاہ جھوٹ کے طومار باندھ رہی ہے۔ اسکے جھوٹ کے سامنے سچائی لانے کی ضرورت ہے ۔30 لاکھ ہلاکتیں لاکھوں ریپ، یہ سب بے سروپا باتیں ہیں۔

صریح لغو اور بے بنیاد الزام لگایاجاتا ہے کہ پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دئیے ہیں۔تین لاکھ سے زیادہ عورتوں کو جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ان الزامات کی تفصیل میں جائیں تو یہ خودلعنت بن کر الزام لگانے والوں پر لوٹتے ہیں۔اس پرعاصم ایاز نے عرق ریزی سے تحقیق کی ہے: پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پا کر لندن پہنچتے ہی دعویٰ کیا: بنگلہ دیش میں 10 لاکھ انسان مارے گئے۔لیکن لندن سے براستہ دہلی 10 جنوری کو ڈھاکا آکرکہا: 35لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں۔کچھ ہی عرصے بعد 30 لاکھ ہلاکتوںاور 3 لاکھ عورتوں سے بے حرمتی کا دعویٰ کردیا۔ پھر 30 لاکھ کا عدد ایک قومی نغمے اور بنگالی لوک گیتوں اور داستانوں کا حصہ بن گیا۔اس جھوٹ،بہتان اور اتہام کے بخئے خود بنگلہ دیش کے کچھ تحقیق کاروں اورغیر جانبدار مغربی و بھارتی صحافیوں نے ادھیڑ کے رکھ دیئے اطالوی صحافی آریانا فلاسی لکھتی ہے: میں مجیب کے گھر فروری 1972 میں انٹرویو کرنے پہنچی۔۔۔ جہاں ایک آرام دہ صوفہ اور دو کرسیاں پڑی تھیں۔ مجیب نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر قابض تھا اور باقی کرسیوں پر، دو موٹے وزیر دھنسے ہوئے تھے۔ میں داخل ہوئی تو نہ کسی نے کوئی سلام کیا اور نہ میری آمد کا نوٹس لیا۔میں حیران گم سم کھڑی تھی کہ اچانک مجیب نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹھ جا۔ میں اسی کے صوفے کے ایک بازو کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی اور تیزی سے اپنے ٹیپ ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی، لیکن ابھی میں نے بٹن دبایا بھی نہیں تھا کہ مجیب نے گرج دار آواز میں مجھ سے کہا: جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں، پاکستانیوں نے 30 لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ میں حیران تھی کہ وہ کس طرح 30 لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا ہے؟ میں نے کہا: جناب وزیر اعظم۔۔۔۔ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجائے پھر گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا: انہوں نے ہماری عورتیں اپنے شوہروں کے سامنے ماری ہیں۔ شوہر، بیٹیوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں۔۔۔ میں نے فورا کہا: جناب وزیر اعظم، میں چاہوں گی۔ مگر مجیب نے میری بات مکمل ہونے سے قبل اسی بپھرے انداز میں اپنے وزیروں کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا: اس کو سنو، یہ کیا چاہتی ہے؟ تمہیں کوئی حق نہیں چاہنے کا، سمجھی، جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے۔

جوہری کا نام بنگلہ دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔انہوں نے اپنی بنگلہ کتاب (30 لاکھ کا معمہ ڈھاکا 1994) میں لکھا ہے:یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آٹھ ماہ اور 12 روز کی ایک گوریلا جنگ میں 30 لاکھ انسان مارے جائیں۔ اور یہ بات بھی وہم و گمان سے کوسوں دور ہے کہ اس دوران دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے مختلف اضلاع کے 500 افراد کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا ہے: آپ کے خاندان کے دور و نزدیک میں، یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گاﺅں محلے میں، کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حرمتی کی؟ ان میں سے ہر فرد نے کہا: نہیں۔ البتہ چند بدکاروں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہوئے، مگر ان چند کو پھیلا کر 2 لاکھ بنا دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟ ولیم ڈرومنڈ، نمائندہ خصوصی گارڈین لندن رقم طراز ہے:میں نے بنگلہ دیش کے بہت سے دورے کئے۔ اس دوران بے شمار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے، سینکڑوں دیہات کا سفر کرنے اور اوپر سے نچلی سطح تک حکومتی اہل کاروں سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ 30 لاکھ افراد کے قتل کی بات ایک انتہا درجہ کی مبالغہ آمیزی ہے۔

شیخ مجیب نے 29 جنوری 1972 کو سرکاری سطح پر ایک 12 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے۔ جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ: وہ مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے۔ عبدالرحیم انکوائری کمیٹی نے ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے کوائف جمع کیے، انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمائندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا، بیان کرتا: مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے 2 ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہو سکیں کہ: انہیں پاکستانی افواج نے مارا تھا۔ (روزنامہ گارڈین لندن، 6 جون 1972)۔ تاہم جب تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں 56 ہزار 7 سو 63 افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جا سکے ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ: جونہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیرِ اعظم کو پیش کی تو مجیب آپے سے باہر ہو گیا، اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پر دے ماری اور غصے میں چلانے لگا: میں نے 30 لاکھ کہے ہیں 30 لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے۔( گارڈین لندن 6 جون 1972)۔بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمائندہ آگے چل کر رقم طراز ہے کہ : مجیب نے مقتولین کی مدد کے لئے 2 ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لئے 72 ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں 50 ہزار مقتولین کے لئے رقم حاصل کرنے کا دعوی کیا گیا، اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں۔ (گارڈین، لندن 6 جون 1972)۔یہ بھی امر پیشِ نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈا مشین کے مطابق: بھارت میں بناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے۔ اس طرح جن افراد نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں، ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوں میں مارے گئے تھے۔

مجیب حکومت سقوطِ مشرقی پاکستان کے فورا بعد نقصان، اموات اور جرائم کے ذمہ داران کے تعین کے لئے پوری طرح سرگرمِ عمل ہو گئی۔ یوں 22 دسمبر 1971 کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کر دیا تھا: جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ بنگالی ہیروئنیں ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری 1972 میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا بنگالی ہیروئنز کمپلیکس، قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتہ دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کیلئے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم نے ہیروئنز کمپلیکس کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کےلئے بھی آباد نہ ہو سکا۔ کتنی بنگالی ہیروئنیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ تعداد معلوم نہ ہو سکی۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کیلئے کوئی قابلِ ذکر ثبوت فراہم نہ ہو سکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کر دیا گیا۔ ازاں بعد تحریکِ آزادی ہند کے معروف راہنما اور بنگالی نزاد سبھاش چندر بوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس نے جون 2005 میں اپنے تحقیقی مقالے بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار میں لکھا ہے: ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یکسر نظر انداز کر کے، صرف مقابلہ کرنےوالے جوانوں کو نشانہ بنایا۔

آریانا فلاسی نے اپریل 1972 میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو کیا، جو اس کی کتاب Interwiew With History میں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا: مجیب الرحمن ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اسکے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے۔۔۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 60 سے 70 ہزار تھی، جبکہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق 30 ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریبا 50 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔ انہوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اسے جواز بنا کر مشرقی پاکستان پر حملہ کر سکے۔ لیکن جب ہم نے اقوامِ متحدہ سے کہا کہ وہ بنگالی پناہ گزینوں کی تعداد چیک کر کے بتائے تو بھارت نے ہمارے مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں زیادتیاں ہوئیں تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف 4 کیس رپورٹ ہوئے، اگر ان کو 10 سے ضرب دیں تو ان کیسوں کی تعداد 40 ہو جاتی ہے۔ پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا میں پھیلاتے تھے۔ (ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از رف کلاسرا صفحہ 362، 363)۔

جھوٹ گھڑ کر، کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، جسے افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے، نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔اے اہل وطن ، اہل اقتداروانشوارانِ قوم اور نئی وجود میں آنیوالی اینکرمخلوق اس کاکچھ تو تدارک و مداوہ ہو۔دنیا کے سامنے حقائق لائیے پاکستان پر بہتان لگانے والوں کو حق سچ اور صداقت کا آئینہ دکھائیے۔ ہم تو یہ کر سکتے ہیں جو نہیں کر رہے۔

 

متعلقہ خبریں