دھرنا … یادش بخیر

تحریک لبیک یارسول اللہ کے فیض آباد میں دھرنے کے خلاف اسلام آباد پولیس کا آپریشن ناکام ہوا تو حکومت نے فوج کو طلب کرلیا۔ مقصد دھرنا ختم کرانا تھا۔ چند گھنٹے کے آپریشن میں 6 افراد جاں بحق سینکڑوں زخمی ہوئے۔ فوج آپریشن وہیں سے شروع کرتی جہاں سے پولیس نے چھوڑا تھا تو کئی لاشیں گرتیں۔ شاید کچھ لوگوں کی ایسی ہی خواہش تھی جس کا اظہار فوج کے خلاف بیانات اور حکومت کو طعنہ زنی اور کوسنے دینے سے ہورہا ہے۔ فوج نے بندوق اٹھانے کے بجائے حکومت اور تحریک لبیک رسول اللہ کے درمیان معاہدہ کراکے دھرنا ختم کرادیا۔
یہ سیاسی دھرنا نہیں، مذہبی دھرنا تھا۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنے مشترکہ دھرنے کے دوران احتجاج شہر شہر پھیلانے کی پوری کوشش کی مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔ تحریک لبیک کے خلاف فیض آباد میں آپریشن شروع ہوا تو پورا ملک بند ہوگیا۔ زندگی بری طرح مفلوج ہوگئی ۔ انارکی دن بدن بڑھتی جانی تھی۔ فوج پُر تشدد اقدامات کے ذریعے دھرنا ختم کرادیتی تو ملک خون سے رنگین ہوجاتا۔ ایک ہی دن میں جو انارکی پھیلی وہ بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔فوج کو آپریشنز کی تاریخ سے یقینا آگاہی تھی۔ 77ء میں کیا ہوا تھا اس کا اندازہ فوج بلانے والوں کو ضرور ہونا چاہئے تھا؟
پی این اے کا احتجاج اور مظاہرے پولیس کے قابو سے باہر ہوئے تو فوج کو طلب کیا گیا۔ پولیس مظاہرین پر فائرنگ کرتی ،ڈنڈے لاٹھیاں برساتی تھی۔ فوج کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہا گیا تو اس کے کمانڈر نے اپنے باس جنرل ضیاء الحق کے سامنے اپنی کیپ اور بیلٹ یہ کہہ کر رکھی کہ ’’سر! میں جوانوں کو عوام پر گولی چلانے کا آرڈر نہیں دے سکتا۔ پیغام وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تک بھی پہنچ گیا۔ قوانین کے مطابق کمانڈر کا کورٹ مارشل ہوا۔ یہ بریگیڈئیر نیاز تھے۔ انکی کمانڈری اور روزگار ایک انکار سے جاتا رہا۔ بعد ازاں ان کی اڑان قابل رشک تھی۔ ان کا پاکستان کی سیاست میں 2014 تک ناقابل فراموش کردار رہا۔ ایک طرف بے روزگاری کے ہاتھوں جب محمد نیاز سڑکیں ناپ رہے تھے تو دوسری طرف وہ نوجوان افسروں کے آئیڈیل تھے، کورٹ مارشل کے ذریعے ان کا رینک اور مراعات سب ضبط کرلئے گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم کے کہنے پر نیاز کا کورٹ مارشل کرایا تھا، اندر سے جنرل ضیاء نیاز کے انکار سے مطمئن تھے جس کے باعث بالآخر جنرل ضیاء الحق وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آگئے۔ ایک مرتبہ بریگیڈئیرنیاز آرمی چیف کے سامنے حرفِ انکار کے ساتھ گئے۔ جنرل ضیاء فل پاور میں آئے تو نیاز کو نیاز مندی کے لئے بلالیا۔وہ ان کا رینک اور مراعات تو بحال نہیں کرسکتے تھے تاہم روزگارضرور فراہم کردیا۔
اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس پر ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں:جنرل ضیاء الحق کے توسط سے نیاز نے فوج کو رضائیاں سپلائی کرنا شروع کردیں‘ سپلائی کایہ کاروبارچلنا ہی تھا سو چل پڑا‘نیاز کو جلد ہی ایک چینی کمپنی مل گئی ،جس کے ساتھ مل کر چین اور پاکستان میں چھوٹے ہتھیاروں کی سپلائی شروع کر دی‘ یہ کام وقت کے ساتھ بڑھتا رہا‘ چین کے ساتھ یورپ اور امریکا کی کمپنیاں شامل ہوئیں اور یوں نیاز ارب پتی ہو گئے۔ اسی دور میںنیاز کے حلقہ احباب میں دو خاندانوں کا اضافہ ہوگیا‘ ایک دوست نے ان کی ملاقات کرنل پرویز مشرف کروائی‘ تو دونوں گہرے دوست، حتیٰ کہ ایک دوسرے کے خاندان کا حصہ بن گئے‘ دوسراشریف خاندان تھا‘ نیاز کا میاں محمد شریف اور ان کے صاحبزادوں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے رابطہ ہوا اورگہری دوستی میں بدل گیا۔ سابق بریگیڈیئرنیازمیاں شہباز شریف سے بہت متاثر تھے۔
نیاز اورجنرل مشرف کی دوستی کو جاننے والے مثالی قرار دیتے ہیں۔اکتوبر 1998 میں آرمی چیف بنانے کا مرحلہ آیا تو نیاز میاں شریف اور میاں شہباز شریف سے ملے اور جنرل پرویز مشرف کی سفارش کی ،کچھ تائید چودھری نثار نے بھی کی تھی۔یوں جنرل پرویز مشرف 6 اکتوبر1998 کو آرمی چیف بنا دئیے گئے۔مگر اکتوبر 1999 کودوستیاں خلط ملط ہوگئیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا اور شریف خاندان قیدی بن گیا‘ ایک طرف مقدمے قائم ہوئے ، سزائوں کا عمل شروع ہواتو دوسری طرف نیاز اور جنرل مشرف کے درمیان قربتوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔اور پھر شریف خاندان کو فوجی آمر کے عتاب سے بچانے کیلئے نیاز اور مشرف کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے اپنے اپنے طور پر اہم کردار ادا کیا۔ شوکت عزیز کے کہنے پر سعودی عرب کا شاہی خاندان اور لبنان کی حریری فیملی ایکٹو ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ ہوا‘ حریری خاندان اس معاہدے کا ضامن بنا‘ شجاعت عظیم کا پاکستان ایئر فورس سے کورٹ مارشل ہوا تھا۔ ان دنوں وہ حریری خاندان کے ذاتی پائلٹ تھے‘ نیاز نے بھی جنرل پرویز مشرف کو شریف خاندان کے جدہ جانے پر آمادہ کیا۔ یوں شریف خاندان دسمبر 2000میں سعودی عرب منتقل ہو گیا ۔
جلاوطنی کے دوران جدہ میں شہباز شریف بیمار ہوگئے‘ نیازنے انھیں جنرل مشرف سے علاج کے لیے امریکا جانے کی اجازت لے کر دی‘ 2005 میں میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز شدید بیمار ہوئے‘ نیاز نے حسن نواز کے لندن میں علاج کی اجازت بھی لے دی‘ میاں نواز شریف اپنے صاحبزادے کی عیادت کے لیے لندن جانا چاہتے تھے‘ بریگیڈیئر نیاز سے ان کا رابطہ ہوا۔انہوںنے جنرل پرویز مشرف سے سفارش کی‘ جنرل مشرف میاں صاحب کو اجازت دینے کے حق میں نہیں تھے لیکن یہ بریگیڈیئر نیاز کو انکار نہ کر سکے اور یوں میاں نواز شریف جنوری 2006 کو لندن پہنچ گئے۔
جنرل پرویز مشرف نے 18 اگست 2008کو صدارت سے استعفیٰ دیا‘ یہ لندن شفٹ ہوئے تو ان کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا‘ بریگیڈیئر نیاز کے پاس لندن میں اپنا گھر تھا‘ جنرل پرویز مشرف تین ماہ اس گھر میں مقیم رہے‘ مشرف کیخلاف 2008ء میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ مواخذے کیلئے تیار تھیں تو نیاز نے مشرف سے ملاقات کرکے ان کو استعفے پر قائل کیا۔۔۔پھر جب مشرف انکے روکنے کے باوجود پاکستان چلے آئے تو گرفتار ہو گئے۔ اس دوران نیاز ان کو ملنے انکے گھر گئے وہاں ایسے بیمار ہوئے کہ کوما میں چلے گئے اسکے چار ماہ بعد داعی ٔاجل کو لبیک کہہ گئے۔مشرف دور میں ایک طارق عظیم نامی وزیر ہوا کرتے تھے‘ انہیں حریری کی سفارش پر یہ منصب ملا تھا۔ میاں نوازشریف اقتدار میں آئے تو شجاعت عظیم کو پی آئی اے کا سربراہ لگا دیا گیا مگر انہیں ایئرفورس کی طرح پی آئی اے کی سربراہی سے بھی بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا۔
ایک بریگیڈیئر کا انکار اسے کہاں سے کہاں لے گیا۔ فوج نے اس انکارسے سبق حاصل کیا جو آج اس کے کام آیا ہے۔ فوج نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار نہیں کیا، مقصد دھرنا ختم کرانا تھا جو ہو گیا جس سے ملک بحرانوں میں گھرنے سے محفوظ رہا اور حکومت کسی بڑی آزمائش سے بچ گئی۔ لیگی وزراء اور لیڈر جو مظاہرین کے خوف سے چھپ گئے تھے۔ اب باہر نکل آئیں۔ تحریک لبیک کے رہنما اور کارکن اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں تاہم جسٹس شوکت صدیقی کا غصہ سوا نیزے پر ہے دیکھیں اگلے سوموار کو کس پر نکلتا ہے۔