پانامہ… ایک آبرو مندانہ راستہ ہے!۔

2017 ,اپریل 26

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



امام ابو حنیفہ بحری جہاز میں سفر کر رہے تھے، جی ہاں، بحری جہاز میں! حضرت عثمانؓ کے دور میں بحریہ تشکیل پا چکی تھی۔ امیر معاویہ کے دور میں 17 سو جہازوں کا بیڑہ بن چکا تھا۔ اسی دور میں قبرص کوفتح اور قسطنطنیہ کا محاصرہ بحری قوت ہی سے کیا گیا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری اسی معرکہ میں شہید ہوئے ۔

امام ابو حنیفہ نے ایک ہمسفر کو بتا دیا کہ ان کے پاس چار سو درہم ہیں۔ اس بدطینت نے کچھ دیر بعد کپتان سے شکایت کی کہ اسکے چار سو درہم چوری ہو گئے ہیں۔ کپتان نے پہلے تو رضا کارانہ طور پر برآمدگی کی کوشش کی۔ مگر بے سود۔ اس پر مسافروں کی تلاشی لینے کا حکم جاری کیا۔ ایک ایک کی تلاشی لی گئی، امام صاحب کی باری آئی، ان کی تلاشی کے دوران رقم نہ مل سکی تو کپتان عملے اور مسافروں نے یہ تصور کر لیا، انکے ساتھی مسافر کی رقم کہیں گر گئی یا گم ہو گئی ہے۔ اصل صورت حال سے امام اور بدخصلت مسافر ہی آگاہ تھا۔ اس شخص نے موقع ملتے ہی امام صاحب کو کہہ دیا، آپ جھوٹے ہیں۔ آپکے پاس اتنی رقم تھی نہیں جتنی آپ نے مجھے بتائی۔ امام صاحب نے جواب دیا۔ میرے پاس چار سودرہم تھے۔ تیرے الزام لگانے پر مجھ سے برآمد ہوتے تو گو میں سچا ہوں اور سچائی ثابت ہو جاتی تو بھی مجھ پر چوری کا ایک الزام لگ جاتا،میں یہ الزام سر نہیں لینا چاہتا تھا اس لئے رقم سمندر برد کر دی۔

میرے والد کاشتکاری کرتے تھے۔ گائوں میں گندم کے بیوپاری آئے۔ والد نے دس بارہ من گندم فروخت کرنا تھی۔ ان سے ریٹ طے ہو گیا۔ بیوپاری تین اور انکے ساتھ چار پانچ پلے دار تھے۔ بیوپاری وضع قطع سے پارسا دکھائی دیتے تھے۔ لمبی داڑھیاں، سر پر پگڑیاں تھیں۔ ترازو والد کے ہاتھ میں تھا۔ ہر پہلی ’’دھارن‘‘ پردہ برکت کہتے، اس کے بعد دو تین چار اور آگے بارہ تک گنتے جاتے۔ دسویں، 11 ویں بوری بھرتے ہوئے آٹھویں دھارن پر ان بیوپاریوں میں سے ایک نے جو دھڑی کوساتھ ساتھ گن رہا تھا، نو کہہ دیا۔ والد سمجھے شاید انکے گننے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے بھی آٹھویں دھارن کو نو کہہ دیا۔ یہ بوری پوری ہوئی تو بیوپاری حضرات نے کہا کہ اس بوری کا دوبارہ وزن کیا جائے۔ دوبارہ وزن کیا تو ایک دھڑی گندم کم تھی ۔ان لوگوں نے باور کرایا کہ ہر بوری میں اتنی کم گندم گئی ہے، وہ پوری کریں۔ والد نے کہا ہم گندم بیچتے ہی نہیں، واپس کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ پلے داروں کی مزدوری دے دیں۔ انکی خواہش کے مطابق ’’خسارہ‘‘ پورا کر دیا۔ ہم نے والد سے کہا کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے انکی چھترول کرتے ہیں۔ والدنے کہا کہ گندم ہم نے پوری دی، یہ فراڈئیے ہیں۔ گائوں میں شور ہو گا کوئی ان کو جھوٹا کہے گا کوئی ہمیں الزام دیگا۔ یہ ہم سے فراڈ میں جو گندم لے گئے اسے صدقہ سمجھ لیا۔ یہ کسی اور کے قابو آ جائیں گے۔

میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول گائوں سے 6 سات کلو میٹر دور تھا ایک روز راستے میں دیکھا وہی ٹرالی کھڑی اور پلے دار اس پر بیٹھے ہیں جبکہ تینوں وہی فراڈئیے ہجوم سے مار کھا رہے ہیں۔ کوئی ان کو جوتا مارتا ہے، کوئی مکا اور کوئی تھپڑ ماررہا ہے۔ انہوں نے یہاں بھی استادی کی اور پکڑے گئے۔ اب وہ معافیاں مانگ رہے تھے۔ ہجوم میں کوئی انکی داڑھیاں مونڈنے اور کوئی منہ کالا کرنے کو کہہ رہا تھا۔ کوئی انہی کی پگڑیاں انکے گلے میں ڈال کر گھسیٹنے کے مشورے دے رہا تھا۔ بڑے، بزرگوں نے کہا بس ان کو سبق مل گیا، ان میں غیرت ہوئی تو یہ اس کاروبار سے تائب ہو جائیں گے۔ اس روداد کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ اگلے سیزن میں یہ تینوں پھر ہمارے گائوں چلے آئے۔

سیاست تجارت کی طرح مقدس اور پاکیزہ پیشہ ہے۔ ہمارے ہاں تجارت میں تقدس رہا نہ سیاست میں پاکیزگی کا عنصر باقی بچا ہے۔ پاناما کیس کا جیسا بھی اور جتنا بھی فیصلہ آیا وہ تاریخی ہے۔کیس کی نوعیت ہی ایسی،کہ جو بھی فیصلہ ہوتا تاریخی ہی ہوناتھا، یہ واقعی صدیوں یاد رہے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔فیصلے میںجو حوالے دیئے گئے وہ سبق آموز اور اپنے اندر پیغام رکھتے ہیں۔فیصلے کے شروع میں ماریو پوزو کے ناول گاڈ فادر کا تذکرہ ہے۔ ممتاز ادیب بالزاک کا یہ جملہ بھی فیصلے میں شامل کیا گیا ہے ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘۔ آخر میں علامہ اقبال کا شعردرج ہے …؎

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں میں اپنے عمل کا حساب

فاضل جج حضرات مسٹر جسٹس اعجاز افضل، اعجاز الاحسن اور عظمت سعید نے گو سینئر ججوں کے ساتھ اتفاق نہیں کیا تاہم انہوں نے وزیراعظم کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ متفقہ فیصلے میں جو بھی کہا گیا اس میں صرف میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ بچی ہے۔ اگر سینئر ججوں کے ساتھ اعجازین، عظمت سعید اتفاق کر لیتے تو بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت برقرار رہتی، نواز شریف گھر چلے جاتے۔ میڈیا میں جو کچھ کہا جا رہا ہے۔ یہ میاں نواز شریف کے مضبوط اعصاب کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے منصب سے اترنے پر تیار نہیںبلکہ اس سے بھی دو قدم آگے جاکے فرماتے ہیں۔’’ فیصلے سے ہم سرخرو ہوئے ہیں‘‘۔ یہاں عزت و وقار اور سرخروئی کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔

عمران کا مؤقف درست ہے۔ پیپلز پارٹی کس منہ سے میدان میں آ گئی۔ اس کا کیس سے کیا تعلق؟ مگر پوائنٹ سکورنگ کیلئے اس کی اچھل کود سب سے زیادہ ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ زرداری نے منصب بچ جانے پر نواز شریف کو مبارک باد کا فون کیا ہو۔ عمران کا متحدہ اپوزیشن سے دور رہنے کا فیصلہ بجاہے۔ پی پی پی کو نواز شریف کے وجود میں جمہوریت سرایت کئے نظر آتی رہی ہے ۔ متحدہ اپوزیشن کی تشکیل پا جاتی تو کسی بھی موقع پر عمران خان اکیلے کھڑے دکھائی دیتے۔جماعت پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتایہ آزاد کشمیر میں نواز لیگ کی اتحادی اور سراج الحق جے یو آئی کے صد سالہ جشن میں مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کرچکے ہیں۔

ن لیگ کی قیادت اور کارکنوں کو مٹھائیاں تقسیم کرتے دیکھ کر سر چکرا جاتا ہے، آخر کس خوشی میں؟؟ ادھر زرداری کا نواز شریف کو چور کہنا عقل ماؤف کر دیتا ہے۔

ہم انکے پیروکار کہلانے پر فخر کرتے ہیں جو ایک الزام سرلینے پر تیار نہیں تھے، ایک یہ ہیں جن کے سر پر جرائم کی گٹھڑی ہے اور وہ سرخروئی کے دعوے کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ جس طرح فریبی بیوپاریوں کو اپنی عزت کی پروا تھی نہ وقار کا احساس۔ اسی طرح سیاست میں مفادات کیلئے آنے والوں کو اپنی عزت کی پروا نہیں۔اس لئے کوئی استعفے کی زیادہ توقع نہ رکھے۔ شرجیل میمن پر 5 ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے پکڑ میں آنے لگے تو بھاگ گئے۔ لندن میں انہیں دیکھ کر کسی نے مغلظات سنائیں، یہ ان کی طرف غصے سے لپکے تو اس شخص نے دھمکایا۔ ایک منٹ میں پولیس بلا لوں گا،یہ پاکستان نہیں، اپنے کردار پر غور کرو، بے ایمانی کرتے ہو ڈوب مرو۔

پاکستان میں گو نواز گو برداشت نہیں ہورہا، دوسرے ممالک میں بہت کچھ ہو گا، بہت کچھ سننا اور سہنا پڑے گا۔

ایڈمرل منصور الحق، جنرل عبید خٹک کے اعزازات اور فوجی مراعات واپس لے لی گئیں۔ بھٹو پھانسی لگ گئے۔ یہ جرنیل اور بھٹو سوچتے ہونگے اتنے عہدوں تک نہ پہنچتے تو اچھا ہوتا مگرآج کے ’’کچھ سیاستدان‘‘ ایسا نہیں کہتے ہونگے وہ جس مقصد کیلئے آئے اس میں کامیاب رہے تاہم ایکسپوز ہونے پر سوچتے ہونگے غلطی کہاں ہوئی؟ سپریم کورٹ مزید کوئی نوٹس نہ لے تو بھی عزت و وقار کی بحالی ممکن نہیں۔ ہاں البتہ ایک آبرو مندانہ راستہ ضرور ہے۔ اوپر کی کمائی سے بنائے اثاثے ملک و قوم کے نام کر دیں۔

 

 

متعلقہ خبریں