مہرے

2017 ,ستمبر 16

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



  ہماری سیاست کا عموماً پیش منظر کچھ اور پس منظر کچھ اور ہوتا ہے اس کی عمدہ مثال سید یوسف رضا گیلانی نے بیان کی ہے۔ جونیجو پیر پگارا کی جنرل ضیاءکیلئے عطا تھے جو پہلے تو جمہوریت کے لیے ضیاءقرار پائے پھر خطابن گئے۔ پیر پگاڑا کی مہربانی سے یوسف رضا گیلانی ان کے مرید محمد خان جونیجو کی کابینہ کے وزیر ریلوے بن چکے تھے۔ ایک دن مرشدو مرید انکو ایک مشن دیا۔ انہیں کہاگیا، لاہور جائیں اور وزیر اعلیٰ نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر نیا وزیر اعلیٰ لائیں۔ گیلانی خوشی خوشی تخت لاہور فتح کرنے چل پڑے۔ سرکٹ ہاﺅس جا کر ڈیرے ڈالے اور ایم پی ایز سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ گیلانی پورے اعتماد کے ساتھ سب کو یقین دلاتے رہے کہ نواز شریف کے ساتھ جنرل ضیا کا جاری رومانس ختم ہو چکا ہے۔ یہ خبر لاہور میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ نواز شریف کے ایم پی ایز ٹوٹ کر گیلانی سے راتوں کو ملاقاتیں کرنے لگے۔پرویزالٰہی، منظور وٹو، نصراللہ دریشک بھی ہجومِ دلبراں میں شامل تھے۔ گیلانی روایتی سرائیکی پیر کی طرح سب کوپُتردے رہے تھے۔ جونہی گیلانی نے اتنے ایم پی ایز اکٹھے کر لیے‘ جن کی مدد سے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا سکتی‘ تو انہوں نے پیر سید مردان علی شاہ پگاڑا اور وزیر اعظم جونیجو کو پیغام بھیجا ۔” جناب کام مکمل ہو گیا ہے‘ حکم کریں‘ کب نواز شریف کو ہٹانا ہے۔ اس پیغام کے اگلے روز گیلانی کو زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا‘ جب انہوں نے پی ٹی وی کی نو بجے کی خبروں میں نواز شریف کو جنرل ضیاءسے اسلام آباد میں ملاقات کرتے دیکھا۔جنرل ضیا ءنے کہا، نواز شریف کا کِلّا مضبوط ہے اور دعا دی کہ ان کی زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ پیر پگاڑا کا یہ بیان اگلے دن اخبار میں پڑھا کہ نواز شریف کی بوری میں کچھ سوراخ تھے‘ جو انہوں نے سی لیے ہیں۔ گیلانی ایک سخت صدمے کی حالت میں تھے۔کہانی ختم ہو گئی تھی۔ گیلانی ٹوٹے دل کے ساتھ پیر پگاڑا سے ملے‘ اور زخمی آواز میں پوچھا: آپ نے میرے ساتھ یہ کیا کیا؟ پیر پگاڑا مسکرائے‘ سگار سلگایا اور بولے: برخوردار! ہم نے آپ کو استعمال کیا ہے۔ دراصل نواز شریف کچھ عرصے یہ تاثر دے رہے تھے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنی قابلیت اور سیاست کے زور پر بنے‘ جنرل ضیاءکا انہیں وزیر اعلیٰ بنانے میں ہاتھ نہیں تھا۔جنرل ضیا نے نواز شریف کا شکوہ کیا‘ تو میں نے کہا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے‘ بچے کو درست کر دیتے ہیں۔ میری نظر تم پر پڑی۔۔۔ گیلانی حیرت کے ساتھ یہ سب کچھ سنتے رہے۔ پیر پگاڑا بات جاری رکھی اور تم نے ہماری توقعات کے مطابق کام کیا۔ جب نواز شریف کو پتہ چلا اقتدار ہاتھوں سے نکل رہا ہے‘ تو وہ دوڑا دوڑا جنرل ضیا کے پاس گیا‘ اور دوبارہ بیعت کر لی۔۔۔ آج بھی منظر نامے کے پیچھے کچھ اور ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور میاں نواز نااہلیت کے فیصلے کے پس منظر میں کسی طاقت کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر کوئی قوت واقعی بروئے کار رہی ہے تو اس نے لیگیوں کو ہی استعمال کیا ہے۔ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو دی گئی دھمکیوں کو ذرا دیکھ لیں۔ ہم لوہے کے چنے ثابت ہونگے۔ فیصلہ گرے نہیں کلیئر چائیے۔ ورق موجود ہیں پڑھا بھی دیں گے۔ تم نے ریٹائر ہونا ہے تمہاری اولادپر زمین تنگ کردیں گے۔ جے آئی ٹی قصاب کی دکان ہے۔۔۔ اور بھی بہت کچھ کہا گیا اورنظر ثانی کی درخواستیں خارج ہونے پر بھی کہا جارہا۔ یہ کہنے والے کچھ تو مشرف کے ساتھی تھے جنہوں نے نواز شریف کے ہاتھوں پر بیعت کرلی ، کئی پرانے لیگی ہیں جن کی ایجنسیوں سے قربت ہے۔ اشتعال انگیز، دھمکی خیز، تضحیک آمیزریمارکس دے کر جے آئی ٹی اور عدلیہ کو پاناما کیس کے ملزموں کے مقابل لاکھڑا کیا ۔آ ج نواز مخالف طبقہ ان پر برہم ہے مستقبل میں راز کھلنے پر انہیں اپنا ہیرو سمجھے گا۔ ہم اس دور میں نہیں رہ رہے جس میں حضرت علی ؑ نے منہ پر تھوکے جانے پرتلوار ہٹا لی تھی۔ ہم اس دور میں رہتے ہیں جس میں مولوی مشتاق نے کہا ”مجھے یقین تھا بھٹو میری کورٹ میں آئے گا“ اسی مولوی مشتاق نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اور یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے بحال رکھا تھا۔ ایسے حالات میں جب تبریٰ اور دشنام جاری تھا کسی قوت کی جانب سے براہ راست عدلیہ اور جے آئی ٹی کو پریشرائز کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ مہروں نے کام آسان کردیا۔ ہماری عدالتوں کی دباﺅاور مبنی بر مصلحت فیصلے کرنے کی ایک تاریخ ہے۔ تاہم عمومی تاثر بھی یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلیت کے فیصلے میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو حکومتی دباﺅ، دھونس اور ترغیبات کوخاطر میں نہ لانے پرلیگیوں کے سرعام تضحیک و تذلیل کے رویے نے بھی قائل کیا۔ ہمار ے دلوں میں سیاستدانوں کے دیو قامت بت بسے ہوئے ہیں۔ جس پر پیار آگیا وہ بھگوان بنا، اسے سو قتل معاف ہیں۔ الطاف کی کراچی والے پرستش کرتے تھے۔ اب وہ غداروں کی لسٹ میں شامل ہے۔ اس کی تحریر، تقریر اور تصویر میڈیا میں نہیں آسکتی۔ اس کے باوجود اس کے چاہنے والے موجود ہیں، اس پر کیا کہیے؟ ہمارے ہاں لیڈر کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس کے کرتوت، کارستانیاں،قتل،اقدام قتل کے اقدامات، حتیٰ کہ وطن دشمنوں سے دوستی کو بھی قبول کرلیا جاتا ہے۔ جہاں برگیڈیئر یوسف کے فارورڈ کئے میسج کا تذکرہ بھی بے جا نہیں ہوگا۔”چوہدری نثار نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ وہ خطرات کیا تھے؟ یہ بتانے سے انہوں نے انکار کیا کیونکہ معاملہ حساس نوعیت کا تھا۔چوہدری صاحب نے ایک میٹنگ کا حوالہ دیا وہ 2015 کے اوائل میں منعقد ہوئی جس میں آرمی چیف، وزیراعظم نوازشریف، چوہدری نثار، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی شریک ہوئے۔ راحیل شریف نے شرکا کے سامنے چند آڈیو ٹیپس، کچھ ویڈیو کلپس اور کچھ دستاویز رکھیں جن کے مطابق 2015 کے وسط یا اواخر تک، ایران، انڈیا اور افغانستان کی فوجیں مل کر پاکستان میں سرجیکل سٹرائیکس کا پروگرام بنا رہی تھیں۔ جونہی یہ سٹرائیکس شروع ہوتے، پاک فوج کی توجہ ان پر مبذول ہوجاتی اور ملک میں سانحہ اے پی ایس پشاور کی طرز کے واقعات شروع کروا دیئے جاتے۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہونا تھا کہ ہمیں سنبھلنے کی مہلت نہ ملتی اور پھر جنرل اسمبلی کے ذریعے ایک قرارداد منظور کروا کر پاکستان کے نیوکلئیراثاثوں کی حفاظت کے نام پر انٹرنیشنل محافظوں کا دستہ تعینات کروا دیا جاتا۔ اس دستے کی سربراہی امریکہ یا برطانیہ کی بجائے کسی مسلمان ملک کے جنرل کے ہاتھ میں دی جانی تھی، یہ ملک مصر یا اردن تھا لیکن وہ جنرل بالواسطہ طور پر تمام ہدایات براہ راست امریکہ سے ہی لیتا۔ انڈیا، ایران کی طرف سے ہونے والے سرجیکل سٹرائکس کو ڈیل کرنے کیلئے پاک فوج کو ہی آگے کیا جانا تھا جبکہ انٹرنیشنل دستے کی ڈپلائے منٹ ہمارے حساس مقامات پر ہونا تھی اور قواعد کی رو سے ہمیں اپنی تمام تنصیبات کے نقشے ان کے حوالے کرنا پڑتے۔ چند ماہ پہلے ایران نے اپنی اس دھمکی کا اعادہ کیا کہ وہ پاکستان کے علاقوں میں کاروائی کرسکتا ہے، انہی الفاظ میں انڈیا اور افغانستان بھی دھمکیاں دے چکے ہیں۔اب ٹرمپ نے بھی دھمکی دی ہے۔راحیل شریف جانتا تھا کہ وہ انڈیا، ایران اور افغانستان کے سرجیکل سٹرائکس کا بخوبی مقابلہ کرسکتا ہے، اسے اصل فکر دہشتگردوں کی تھی جن کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اپنے حفاظتی دستے پاکستان ڈپلائے کرنا تھے۔ چنانچہ راحیل شریف نے اپنا سارا فوکس ان دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے میں صرف کیا اور اللہ کی مہربانی سے یہ خوفناک پلان ناکام بنا دیا۔ اب آپ پچھلے سال نومبر میں ہوئے ڈان لیکس کو ایک مرتبہ پھر سٹڈی کریں جس کے ذریعے پاک فوج کو دہشتگردوں کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ پلان ایک مرتبہ پھر وہی تھا کہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی قرارداد منظور کروائی جائے۔نئے آرمی چیف جنرل باجوہ کی تقرری پران کے قادیانی ہونے کا شوشہ بھی اسی گیم پلان کا حصہ تھا کہ آرمی کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی جائے تاکہ انارکی کی صورتحال پیدا ہوسکے۔گر نوازشریف صرف کرپٹ ہوتا تو ہم پھر بھی برداشت کرلیتے، وہ تو اپنے اقتدار بچانے کیلئے بین الاقوامی طاقتوں کا آلہ کار تک بننے کو تیار تھا، اور صرف نوازشریف ہی نہیں، آدھی سے زیادہ ن لیگ کی موجودہ قیادت بھی اس کی ہمنوا ہے۔اپنی صفوں میں موجود بھیڑیوں کو پہچانیں، قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے اندازہ کرلیں اس سارے منظر نامے میں کون کس کا مہرہ ہے“۔ اندازہ کرلیں اس سارے منظر نامے میں کون کس کا مہرہ ہے

متعلقہ خبریں