بارگین، نیب .... اور فوج

2017 ,جنوری 15

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

منصور الحق نے اپنی سربراہی کے دوران بحریہ کے وسائل کے ساتھ وہی کچھ کیا جو سیاستدان وطن عزیز کے ساتھ کرتے چلے آ رہے اور کرتے چلے جارہے ہیں۔ منصورالحق وزیراعظم نواز شریف کے دور 1997ءمیں ریٹائر ہوئے۔ ان پر کرپشن کیسز درج ہوئے گرفتاری بھی ہوئی مگر کوئی خاطر خواہ ایکشن نہ ہونے پر وہ آسانی سے رہا ہو کر امریکہ روانہ ہو گئے۔آج رضا ربانی نے سینٹ میں کہا کہ کسی سے نہیں ڈرتے، شاید اشارہ فوج کی طرف ہے، اُس وقت کی حکومت نے ہو سکتا ہے فوج کے ڈر سے منصور پر ہاتھ ہولا رکھا ہو، جنرل مشرف کو تو حکومت کے آہنی پنجوں سے نکلے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تاہم اب حکومت واقعی نڈر لگتی ہے۔ رضا ربانی نے یہ بھی کہا کہ ریاست ماں نہیں چڑیل کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ اب ” اپنا جنرل اور جج آگیا ہے“، لیگی یہی کہتے ہیں۔جس فوج سے حکومت اور حکمران خوفزدہ رہتے تھے اب اسے آگے لگانے کا تاثر دیا جارہا ہے مگر یہ زعم زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکا۔

جنرل مشرف نے ٹیک اوور کیا تو ان کے سر پر احتساب کا بھوت سوار تھا، اس بھوت نے منصور الحق کو جپھا ڈال لیاجو واقعی جن جپھا ثابت ہوا۔ منصور الحق کو جنرل پرویز مشرف نے ذاتی دلچسپی لے کر امریکہ میں گرفتار کرایا اور پاکستان لا کر احتساب بیورو کے حوالے کر دیا۔ ان سے احتساب بیورو نے پلی بارگین کی۔ 2004ءمیں انہوں نے 75 لاکھ ڈالرنقد ادا کرکے ”باعزت بریت“ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا۔ ان پر تین ناقابل استعمال بحری جہازوں کی خریداری اور آگسٹا آبدوزوں کے سودے میں کمیشن لینے کے الزامات تھے۔ بحری جہازوں کی خریداری میں قومی خزانے کو ایک ارب پچاسی کروڑ روپے نقصان پہنچاتھا، شریک مجرموں میںریئر ایڈمرل جاوید علی اور کموڈو اشفاق بیگ شامل تھے۔ ان کے تمام اعزازات، پنشن اور دیگر مراعات ضبط کر لی گئیں۔ نیول افسروں کو احتساب عدالت کے جج مسٹر جسٹس پرکاش لال امبوانی نے سزائیں سنائی تھیں۔

جس دور میں منصور الحق سے پلی بارگین کے ذریعے 75 لاکھ ڈالر کی وصولی کی اگر بارگین کا قانون نہ ہوتا، یا ان کے خلاف نیول ایکٹ کے تحت کیس چلتا تو کورٹ مارشل میں ان کی جائیداد کی ضبطی کے ساتھ ساتھ سزائے موت بھی دے دی جاتی۔

پلی بارگین قانون پر آج کل بڑی لے دے ہورہی ہے۔ اس پر ایک آرڈیننس لا کر لوگوں کو ”ماموں“بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی سے پلی بارگین کے بعد نیب کے اس قانون پر شدید اعتراضات سامنے آئے۔ عمران خان تو پہلے ہی واویلا کر رہے تھے، عمران کی تال پر چودھری نثار اور شہباز شریف نے بھی ٹھمکا لگا دیا۔ راتوں رات اسحاق ڈار ایک آرڈی ننس لے آئے۔ تبدیلی صرف یہ آئی کہ چیئرمین نیب سے پلی بارگین کا اختیار واپس لے کر احتساب عدالت کے سپرد کر دیا گیا ۔ پہلے پلی بارگین کرنے والا اپنے عہدے یا پارلیمنٹ سے دس سال کےلئے نا اہل ہوتا تھا وہ بھی صرف کاغذوں میں، اب یہ نا اہلیت تاحیات کر دی گئی ہے۔ اس سزا پر عمل پلی بارگین کی صورت میں ہو گا اگر لوٹ مار کرنیوالا 150 میگا کرپشن کے ملزموں کی طرح با اثر یا نیب افسران کو ”کچھ لگانے“ کی پوزیشن میں ہو گا، وہ بارگین اور اس کے تحت نا اہلی کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہ سکے گا۔

جو نیب کے ہتھے چڑھتا ہے، نیب اس کی باں باں کرا دیتا ہے‘ وہ ناکردہ گناہ بھی قبول کر لیتا ہے۔ انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں تو کرپٹ شخص سے لوٹ مار کی ایک ایک پائی کے ساتھ جرمانہ بھی وصول کیا جانا چاہئیے، چہ جائیکہ لوٹ مار کا ایک حصہ وصول کر کے اسے جیل کی ہوا لگنے سے بھی بچالیا جائے۔ پلی بارگین کے حامی کہتے ہیں کہ ایسا قانون کئی دیگر ممالک میں بھی ہے۔ ایسے ممالک بھی تو ہیں جہاں کرپشن کی سزا موت ہے۔ ہائی لیول پر نیب پلی بارگین اور مک مکا کرنے کی شہرت رکھتا ہے جبکہ عمومی رائے ہے کہ نیب کے دفاتر اور عہدے ٹھیکے پر چڑھتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب میں ایماندار اور نڈر عملہ بھی موجود ہے مگر ان کی تعداد کتنی ہو گی۔

تو اب” انہیں“ ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

احتساب بلا شبہ اداروں نے کرنا ہے مگر وہ تبھی کر سکیں گے جب ان کے پیچھے حکومتی کمٹمنٹ ہو گی۔ جہاں تو حکمران خود مستوجب احتساب ، مگر احتساب سے بالاتر ہیں۔ جن اداروں نے قانون لاگو اور احتساب کرنا ہے وہ ان کو بچانے کی راہیں تلاش کررہے ہیں ۔ فوج سمیت ہر ادارے کو تابع کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جنرل راحیل شریف ایک بڑا خطرہ نظر آتے تھے، ان کی ریٹائرمنٹ پر سکھ کا سانس لیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو چشم ما روشن دل ما شاد کہہ کر پر کیف نظاروں میں کھو گئے۔ جنرل باجوہ کو پوری چھان بین اور تسلی کے بعد آرمی چیف بنایا گیا۔ ان سے یقین کی حد تک امیدیں وابستہ کی گئی تھیں کہ وہ جنرل کیانی کی طرح تین سال تو خاموشی سے نکال ہی لیں گے۔ ابھی جنرل باجوہ کو ہو سکتا ہے کہ فوجی امور پر پوری طرح سے دسترس بھی حاصل نہ ہوئی ہے مگر ان کی ایک دو تقریروں سے حکمران پارٹی چونکی اور چوکنّا ہو گئی۔ انہوں نے پہلی کور کمانڈر کانفرنس میں ڈان لیکس کا شاید نوٹس نہ لیا ہو مگر کھاریاں میں فوجی افسروں نے یہ معاملہ اٹھادیا ۔ دو روز قبل کی کور کمانڈرز کانفرنس میں فوجی عدالتوں کی دو سالہ کارکردگی کو سراہا گیا جو فوج کی طرف سے ان کی توسیع کا پیغام سمجھا جا رہا ہے۔

فوج کی طرف کسی بھی خبر کا اجرا آئی ایس پی آر کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ڈان لیکس اور رانا ثناءکا فوجی ترجمان کی خبر میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ رانا ثناءاللہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان اور ڈان لیکس پرتین ماہ میں بھی تحقیقات نہ ہونے پرافسروں کی تشویش کی خبر ذرائع کے حوالے سے نشر اور شائع ہوئی، جس کی فوج نے تردےد نہیں کی۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ایسی کارکردگی حکمرانوں کی تیوریاں چڑھ جاتیں اور تیور بدل جاتے تھے اب کیا خیال ہے؟

فوجی سربراہ فوج ہی سے لینا مجبوری ہے، وہ وہی کچھ کرے گا جو اس کے عہدے کے تقاضے ہیں۔ جو کہتے تھے ہمارا جرنیل اور ہمارا جج آ گیا ان کو کم از کم ”ہمارا جنرل آ گیا“ کے حوالے سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جرنیلوں کے تبادلوں اور ان کو بندوقیں صاف کرنے پر لگانے سے حالات یکسر نہیں بدل سکتے۔ جنرل راحیل شریف سے حکومت کو جو بھی تحفظات رہے ہوں، خواجہ آصف کو زیب نہیں دیتا کہ اسلامی فوج کی کمانڈ کے حوالے سے انہیں رسوا کریں۔ ابھی جنرل باجوہ کی جنرل راحیل شریف سے راہ و رسم ہے۔ میاں نواز شریف کے ہاکس اپنی مرضی سے یا اشارے پر جرنیلوں کے خلاف بہت کچھ کہہ رہے ہیں، فوج اپنا کام کرے حکومت اپنا تو مسائل جنم نہیں لے سکتے، ن لیگ کیلئے ترک صدر اردگان کی طرح پاکستان میں فوج کو فتح کرنے کے ابھی ”سازگار“ حالات پیدا نہیں ہوئے۔

 

متعلقہ خبریں