2017 ,اکتوبر 30
افغانستان کے معدنی ذخائر لوٹنے کیلئے امریکہ نے بھارت کو بھی شراکت دار بنالیا ہے۔ اس ضمن میں افغانستان میں امریکی سفیر ہوگولارنس نے کہا کہ افغانستان معدنی وسائل کے لحاظ سے امیر ملک ہے، لیکن اسکے عوام غریب ہیں۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ بھارت افغانستان میں موجود معدنیات کو نکالنے میں سرمایہ کاری کرے۔ دوسری جانب افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھارتی مائننگ کمپنیوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتی سرمایہ کاروں سے ملاقات کے دوران عبداللہ عبداللہ نے ٹاٹا سمیت دیگر بھارتی مائننگ کمپنیوں کے مالکان سے کہا کہ وہ افغانستان سے معدنیات نکالنے میں سرمایہ کاری کریں۔
امریکہ کیجانب سے افغانستان کے قیمتی معدنیات نکالنے کے منصوبے سامنے آنے کے بعد بھارت کی سب سے بڑی مائننگ کمپنی کول انڈیا نے جو اب تک کوئلے کی کان کنی میں منہ کالا کرتی تھی، افغانستان میں نئی معدنیات نکالنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحیداللہ شاہرانی نے کہا ہے کہ معدنیات کو زمین سے نکالنے کیلئے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہو جائیں گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت افغانستان میں ان بیش قیمت معدنیات جن میں پلاٹینم، سونا چاندی اور لیتھیم بھی شامل ہے کی کان کنی کے موقع کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دےگا۔ لیتھیم روزمرہ کے استعمال کیلئے تیار کی جانےوالی اکثر مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے چونکہ رئیر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے انہیں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت کو افغانستان سے معدنیات نکالنے کیلئے شراکت دار بنا رہا ہے۔چند ماہ قبل یہ حقائق سامنے آئے تھے کہ امریکہ افغان سرزمین سے قیمتی معدنیات کے ذخائر نکال کر لےجا رہا ہے اور اس لوٹ مار میں بھارت کو بھی شامل کرنیکا منصوبہ بنا رہا ہے۔جن کی اب امریکی،بھارتی اور خصوصی طور پر افغان حکومت کی رپورٹوں سے تصدیق ہوگئی ہے۔
اس میدان میں مصروف عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں، ان کےلئے دو مسائل ہیں۔ پہلا سکیورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا ذرائع رسد کا ہے، چونکہ یہ معدنیات دور افتادہ علاقوں میں دریافت ہوئی ہیں۔اسی برس کے شروع میں کابل میں ایک حملے کے دوران سات بھارتیوں کی ہلاکت کے بعد نئی دہلی اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے اکثر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
بہت سے امریکی مبصرین کا بھی یہی خیال ہے کہ کمزور انفراسٹرکچر، بدعنوانی اور سکیورٹی مسائل ان بیش قیمت معدنیات کو نکالنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوں گے۔ اسکے علاوہ ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ طالبان یہ حقیقت جاننے کے بعد کہ افغانستان اب ایک سونے کی چڑیا بن چکا ہے، اپنے حملوں میں اضافہ کر دینگے تاہم ان قدرتی وسائل کی مالیت کے پیش نظر، امریکہ، چین اور بھارت سمیت شاید کوئی بھی ملک یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہو جائےگا تاہم کیا افغانستان کا پڑوسی ملک پاکستان بھی اس سلسلے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے یا کوئی کردار ادا کرسکتا ہے، اس سلسلے میں ایک پاکستانی ماہر معاشیات کا خیال ہے کہ اس سارے عمل کے دوران پاکستان کی زیادہ دلچسپی سہولتوں کی فراہمی یعنی لاجسٹک سپورٹ میں ہوگی، کیونکہ پاکستان بڑی سرمایہ کاری کرنے کی حالت میں نہیں تاہم اس سارے اہم عمل کے دوران ٹرانسپورٹ سمیت دیگر ذرائع رسل و رسائل اور افرادی قوت بہم پہنچانے کے حوالے سے ہم یقینا چین اور امریکہ سے بھی زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس ماہر معاشیات سمیت ہم جیسے بہت سے لوگ اس حقیقت سے شاید آگاہ نہیں کہ پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ریئر ارتھ میں کہیں زیادہ مالا مال ہے۔”کل تک“ واقعی افغانستان ایسی نایاب اور قیمتی معدنیات کا واحد مرکز تھا مگر کل نہیں ہوگا۔ شمالی وزیرستان میں ریئر ارتھ دھاتوں میں ایسا عنصر بھی دریافت ہوا ہے جس کو ابھی تک کوئی نام بھی نہیں دیا گیا۔ یہ اب تک دریافت ہونےوالا سب سے مہنگا عنصر ہے۔ اسکے علاوہ بھی دیگر معدنیات دریافت ہوئی ہیں ان میں ایک مروجہ توانائی کے ذرائع کا بہترین اور سستا ترین متبادل ہے۔ اسکے ایک پاﺅنڈ یعنی تقریباً نصف کلو سے لاکھوں لٹر پٹرول کے برابر توانائی دستیاب ہوگی۔ ایسی معدنیات کی دریافت پر امریکہ و چین دونوں کی نظر ہے، جبکہ بھارت زیادہ تکلیف میں مبتلا ہے۔ پاکستان اور افغانستان پر عالمی طاقتوں کی اسی بنیاد پر تسلط کی جنگ ہے۔ چین پاکستان کے معدنی خزانوں میں کسی اور کو حصہ دار بنانے پر تیار نہیں۔ یہی کچھ امریکہ افغانستان میں چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ بڑے ملک اپنے اپنے مفاد کی جنگ اپنے ملک سے کہیں دور آکر لڑ رہے ہیں تاہم امریکہ اور چین میں فرق ضرور ہے۔ امریکہ افغانستان کے وسائل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کےلئے جنون میں مبتلا ہے جبکہ چین اپنے وسائل میں بھی پاکستان کو شامل کئے ہوئے ہے۔ آج تک تو ایسا ہی ہے کل کی خبرنہیں۔
پاکستان قیمتی اور نایاب معدنیات، دھاتوں اور عناصر سے پہلے ہی مالا مال ہے مگر انکے استعمال کا ڈھنگ نہیں معلوم اور پھر لالچی، بدعنوان اور بے ایمان لوگ ان وسائل پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں، بلوچستان میں سونے کی ریکوڈک کانوں کا ٹھیکہ انڈر ہینڈ ڈیلنگ کے بعد کوڑیوں میں دیدیا گیا۔ چنیوٹ میں سونے چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے، اس پر بڑا جشن منایا گیا مگر یہ سونا پیتل تانبے میں بدلا، پھر لوہا ہو گیا اب شاید اسے کوئلہ بنایا جانے لگا ہے۔ کوئلے کی بہرحال قومی مفاد میں ایک خصوصیت ہے کہ یہ سونے چاندی اور پلاٹینم کی طرح سمگل نہیں ہو سکتا۔
جب لیڈر شپ کی بات آتی ہے تو جرمنی‘ جنوبی کوریا‘ ملائیشیا‘ ہالینڈ‘ سوئٹزرلینڈ اور سنگا پور کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ جرمنی اور جنوبی کوریا نے کبھی پاکستان سے قرض لیا تھا جرمنی جنگ عظیم کے بعد اپنی بربادی سے نمٹا اور ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ پاکستان میں پہلا پانچ سالہ منصوبہ محبوب الحق نے پیش کیا دوسرا بھی انہوں نے پیش کیا تھا‘ جنوبی کوریا نے انہیں اپنالیا۔یہ منصوبے پاکستان میں بنے عمل وہاں ہوا تو وہ ملک ترقی کی منزلیں سبک رفتاری سے طے کرتا چلا گیا۔ محبوب الحق کو جنوبی کوریا میں حکومتی سطح پر عزت و احترام اور وقار کا وہی درجہ حاصل ہے جو پاکستان میں عوامی سطح پر ڈاکٹر اے کیو خان کا ہے۔ ہالینڈ کی پوری معیشت کا انحصار اور دارومدار پھولوں کی برآمد پر ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے سنگلاخ پہاڑوں کو سرسبز بنا کر ملک کو سیاحوں کی جنت بنا دیا۔ بنکنگ پر پوری دنیا اعتماد کرتی ہے۔ ملائیشیا اور سنگا پور کا پورا سال ایک جیسا حبس زدہ موسم رہتا اور زمین دلدلی ہے۔ سنگا پور نے ملائیشیا کے ساتھ ملنے کی کوشش کی ملائیشیا کیلئے اپنا بوجھ اٹھانا مشکل تھا۔ اس نے سنگا پور کو لفٹ نہ کرائی۔ ملائیشیا کو مہاتیر محمد اور سنگا پور کو لی کیوان یو مل گئے۔ آج ملائیشیا اور سنگا پور صنعت و تجارت ہی نہیں‘سیاحت کے حوالے سے بھی پرکشش ہیں۔ لی کون نے سنگا پور کو فری پورٹ ڈیکلیئر کرکے بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ حبس زدہ موسم میں بھی لوگ ملائیشیا اور سنگا پور جاتے ہیں لیڈر شپ کی بدولت دلدلی زمین میں دلکشی پیدا کردی۔پاکستان جیسے نظارے دنیا میں خال ہی مگر دہشت گردوں نے خوبصورت جھیلوں سرسبز پہاڑوں ، خوبصورت وادیوں، گنگناتے جھرنوں، حوضِ کوثر نما چشموں کے گرد بارود کی بو پھیلا رکھی ہے۔
ہمارے اعمال ہماری دعاﺅں کی قبولیت اور عدم قبولیت کا واضح اظہار ہیں تاہم ایسی خواہش کرنے میں تو حرج نہیں کہ پاکستان کو ایسی لیڈر شپ مل جائے جو قومی وسائل کو عوامی فلاح پر نیک نیتی اور ایمانداری سے صرف کرے۔ ہمارے اعمال جیسے بھی ہوں دعا بہرحال کرنی چاہئے۔ شاید کوئی مبارک گھڑی میںمنظور بھی ہو جائے۔ دعا یہی ہے کہ اللہ ہم پاکستانیوں کو ایماندار لیڈر شپ سے نواز دے۔