امریکہ چین کی پاکستان پر نظر کیوں؟

2017 ,اکتوبر 30

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



دو اڑھائی سال قبل امریکا، یورپی یونین اور جاپان نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین کیخلاف ایک عجیب سا مقدمہ دائر کیاجس میں بیجنگ پرنایاب قدرتی معدنیات کی برآمد محدود کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ان معدنیات کو جدید ٹیکنالوجی مصنوعات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ 17نایاب دھاتوں کی 95 فیصد تجارت پر قابض چین نے انکی برآمد پر پابندیاں عائد کردی ہیں جو عالمی تجارت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ’’ریئر ارتھ‘‘ نامی یہ نایاب دھاتیں ہموار سطح والے ٹیلی ویژن سیٹ، اسمارٹ فون، ہائبرڈ کار، جدید ہتھیاروں، ایٹم بم بنانے تک میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اُن دنوں امریکی صدر بارک اوبامانے کہا تھا کہ امریکی صنعتکاروں کو اس دھات کی ضرورت ہے، جبکہ چین مارکیٹ قوانین کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ چین نے اس پر جواب دیا تھا کہ وہ عالمی قوانین کے مطابق برآمدات جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے نایاب معدنیات کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنی مصنوعات یا پیداوار ضرورت سے زیادہ ہونے کی صورت ہی میں برآمد کرتا ہے۔ چین نے خود ایسی ہی معدنیات اور دھاتوں کی درآمد کیلئے کابل کی مس عینک کان پر سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

افغانستان ایسی دھاتوں، معدنیات سے معمور افغانستان سے ہیرے جواہرات بھی نکلتے ہیں مگر ریئر ارتھ دھاتوں کے مقابلے میں انکی قیمت سورج کے سامنے چراغ رکھنے کے مترادف ہے۔ ان پر آج پوری دنیا کی نظر ہے جبکہ دنیا آج کسی حد تک امریکہ اور چین میں تقسیم نظر آتی ہے۔ کچھ عرصہ میں یہ تقسیم واضح ہونے کے امکانات ہیں جب دنیا میں پھر سے دو سپر پاور ہوجائیںگی۔ چین اس حوالے سے دھیرے دھیرے قدم بڑھا رہا ہے جو امریکہ کو برق رفتار نظر آتی ہے، اسی لئے وہ چین کو یہیں پہ محدود رکھنا اور اسکی پیش قدمی روکنا چاہتا ہے۔ چین اور امریکہ کے مفادات کا ٹکرائو کئی ممالک میں ہے۔ حیران کن بات ہے کہ یہ ٹکرائو امریکہ کے زیر قبضہ افغانستان تک بھی پھیل چکا ہے جو ’’کل تک‘‘ نایاب دھاتوں کا دنیا میں واحد مرکز تھا۔

افغانستان میں ٹریلین ٹریلین ڈالرز مالیت کی ریئر ارتھ معدنیات موجود ہیں۔ ان میں سے سرِدست ایک ٹریلین ڈالر مالیت کی معدنیات نکالنے کیلئے امریکی کمپنیوں نے منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ امریکہ افغانستان کے تمام معدنی ذخائر کا ڈیٹا حاصل کرکے اب تک 500 ملین ڈالر کی معدنیات لے جا چکا ہے۔ افغانستان کی معدنیات پر کنٹرول کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کے دوست‘ راس کی سربراہی میں مینجمنٹ رسک کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس نے افغان حکام کو کہا ہے کہ امریکہ کی 30کمپنیوں کو افغانستان میں معدنیات کی کانوں تک براہ راست رسائی دی جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان صدر اشرف غنی پر واضح کیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر مالیت کی معدنیات تک براہ راست رسائی چاہتا ہے کیونکہ امریکہ نے افغان جنگ پر جتنے اخراجات کئے ہیں‘ وہ افغان حکومت نے واپس کرنے ہیں‘ چونکہ افغان حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ جنگ کے اخراجات برداشت کر سکے‘ اس لئے افغانستان میں موجود قدرتی وسائل جن میں ارتھ میٹریل بھی شامل ہے، امریکی حکام کی تحویل میں دیئے جائیں۔ کان کنی کے دوران افغان عوام کو روزگار دیاجائیگا جس سے عوام کی زندگیوں میں تبدیلی آئیگی۔ امریکہ کی جانب سے منصوبے کی جو تفصیلات افغان حکام کو فراہم کی گئی ہیں‘ ان میں جواہرات میں استعمال ہونیوالے قیمتی پتھروں میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی بلکہ جنوبی‘ مشرقی اور وسطی افغانستان میں پائی جانیوالی وہ دھاتیں جو ایٹمی ہتھیاروں‘ میزائل ٹیکنالوجی‘ سپیس ٹیکنالوجی اور موبائل ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتی ہیں انکے حصول میں دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔

جیولوجیکل سروے آف امریکہ نے 2006-7ء میں افغانستان میں ایک سروے کیا تھا جس میں افغانستان میں ٹریلین ڈالرز مالیت کی معدنیات کا پتہ لگایا گیا تھا‘ تاہم امریکی حکومت اس سروے سے زیادہ مطمئن نہیں تھی لہٰذا یو ایس ایڈ میں ماہرین ارضیات کو شامل کرکے ان سے ان علاقوں میں بھی سروے کرایا گیا جہاں پر طالبان کا اثرورسوخ ہے۔ 2009ء میں یو ایس ایڈ نے ماہرین کی مدد سے افغانستان کے طول و عرض میں ایک جامع سروے مکمل کرکے افغان حکومت کو دیا۔ اس سروے کے بعد امریکی کمپنیوں نے افغانستان میں معدنیات نکالنے کا کام شروع کیا۔

مشرقی افغانستان کے صوبہ کنٹر میں تقریباً 500 ملین ڈالر کی معدنیات 2014ء سے قبل امریکی فوج کی نگرانی میں نکالی جا چکی ہیں۔ اس سروے میں ایک افغان وزیر اور ایک رکن پارلیمان کی نشاندہی کی گئی تھی‘ جنہوں نے افغان طالبان کو اپنے علاقے میں بلا کر انکے ساتھ معاہدہ کیا اور ایک چیک پوسٹ بنائی جس پر اپنے مسلح لوگوں کو تعینات کیا اور ظاہر یہ کیا کہ انکے علاقے میں طالبان موجود ہیں۔ یہ وزیر اور رکن پارلیمانی جو آپس میں رشتہ دار ہیں انہوں نے اپنے علاقے سے معدنیات کی غیرقانونی کان کنی شروع کی۔ رپورٹ میں مذکورہ وزیر اور رکن پارلیمان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تاہم بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق وسطی افغانستان سے ہے اور انہوں نے غیرقانونی مائننگ کی۔

امریکہ کی کئی کمپنیاں جو معدنیات کے شعبے میں برازیل اور وینزویلا میں کام کرتی رہیں‘ ان ممالک نے ان پر پابندی لگا کر انہیں نکال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں اس لئے ان 30 بڑی کمپنیوں کو بینک ڈیفالٹر ہونے سے بچانے کیلئے امریکی صدر نے ان کمپنیوں کے مالکان کے مشورے پر افغانستان میں معدنیات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج کو غیرمعینہ مدت تک افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چونکہ قیمتی معدنیات کی زیادہ تر کانیں افغانستان کے ان علاقوں میں واقع ہیں جہاں افغان طالبان کا کنٹرول ہے لہٰذا وہاں سے معدنیات نکالنے کیلئے امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی ضروری قرار دی گئی ہے۔

افغانستان کے محکمہ معدنیات اور کان کنی کے ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کو قانونی کان کنی سے ایک سال میں 16ملین ڈالر کا ریونیو حاصل ہوا ہے جبکہ تقریباً ایک ارب ڈالر کی معدنیات سمگل کی گئیں۔ افغانستان میں شمالی اتحاد کے رہنما خصوصاً احمدشاہ مسعود کے قریبی رشتہ دار اور شوریٰ نظار کے کمانڈر شمالی افغانستان سے قیمتی پتھر فرانس سمگل کرتے ہیں جہاں انہیں زیورات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم امریکہ جن دھاتوں کو نکالنا چاہتا ہے انکی سمگلنگ نہیں ہوتی ہے۔ یو ایس ایڈ کی جانب سے افغانستان میں موجود معدنیات کی سروے رپورٹ سامنے آنے کے بعد افغان عوام میں یو ایس ایڈ کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ افغان عوام کا کہنا ہے کہ یو ایس ایڈ فلاحی کاموں کی آڑ میں امریکی حکومت کے مفادات کیلئے کام کر رہی ہے جبکہ ابھی تک افغان عوام یو ایس ایڈ کو ایک ایسا ادارہ سمجھتے تھے جو صرف انسانیت کی خدمت کیلئے سرگرم ہے۔ یو ایس ایڈ کی یہ رپورٹ معروف امریکی جریدے فارن پالیسی میں بھی شائع ہوئی جس کے بعد افغانستان میں یو ایس ایڈ کے پراجیکٹ خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ یو ایس ایڈ پاکستان میں بھی سرگرم عمل ہے جس کے بظاہر مقاصد عوامی فلاح و بہبود ہے۔

افغانستان کے معدنی ذخائر لوٹنے کیلئے امریکہ نے بھارت کو بھی شراکت دار بنالیا ہے۔ اس ضمن میں افغانستان میں امریکی سفیر ہوگولارنس نے کہا کہ افغانستان معدنی وسائل کے لحاظ سے امیر ملک ہے، لیکن اسکے عوام غریب ہیں۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ بھارت افغانستان میں موجود معدنیات کو نکالنے میں سرمایہ کاری کرے۔ دوسری جانب افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھارتی مائننگ کمپنیوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتی سرمایہ کاروں سے ملاقات کے دوران عبداللہ عبداللہ نے ٹاٹا سمیت دیگر بھارتی مائننگ کمپنیوں کے مالکان سے کہا کہ وہ افغانستان سے معدنیات نکالنے میں سرمایہ کاری کریں۔
امریکہ کیجانب سے افغانستان کے قیمتی معدنیات نکالنے کے منصوبے سامنے آنے کے بعد بھارت کی سب سے بڑی مائننگ کمپنی کول انڈیا نے جو اب تک کوئلے کی کان کنی میں منہ کالا کرتی تھی، افغانستان میں نئی معدنیات نکالنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ افغان وزیر برائے معدنیات اور کان کنی وحیداللہ شاہرانی نے کہا ہے کہ معدنیات کو زمین سے نکالنے کیلئے حکومتی کوششیں اسی سال کے آخر تک شروع ہو جائیں گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت افغانستان میں ان بیش قیمت معدنیات جن میں پلاٹینم، سونا چاندی اور لیتھیم بھی شامل ہے کی کان کنی کے موقع کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دےگا۔ لیتھیم روزمرہ کے استعمال کیلئے تیار کی جانےوالی اکثر مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے چونکہ رئیر ارتھ میٹلز سمیت اس طرح کی معدنیات بھارت میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے انہیں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت کو افغانستان سے معدنیات نکالنے کیلئے شراکت دار بنا رہا ہے۔چند ماہ قبل یہ حقائق سامنے آئے تھے کہ امریکہ افغان سرزمین سے قیمتی معدنیات کے ذخائر نکال کر لےجا رہا ہے اور اس لوٹ مار میں بھارت کو بھی شامل کرنیکا منصوبہ بنا رہا ہے۔جن کی اب امریکی،بھارتی اور خصوصی طور پر افغان حکومت کی رپورٹوں سے تصدیق ہوگئی ہے۔
 اس میدان میں مصروف عمل بھارتی کمپنیوں کو افغانستان کے حوالے سے چند خدشات بھی لاحق ہیں، ان کےلئے دو مسائل ہیں۔ پہلا سکیورٹی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا ذرائع رسد کا ہے، چونکہ یہ معدنیات دور افتادہ علاقوں میں دریافت ہوئی ہیں۔اسی برس کے شروع میں کابل میں ایک حملے کے دوران سات بھارتیوں کی ہلاکت کے بعد نئی دہلی اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے اکثر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
بہت سے امریکی مبصرین کا بھی یہی خیال ہے کہ کمزور انفراسٹرکچر، بدعنوانی اور سکیورٹی مسائل ان بیش قیمت معدنیات کو نکالنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوں گے۔ اسکے علاوہ ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ طالبان یہ حقیقت جاننے کے بعد کہ افغانستان اب ایک سونے کی چڑیا بن چکا ہے، اپنے حملوں میں اضافہ کر دینگے تاہم ان قدرتی وسائل کی مالیت کے پیش نظر، امریکہ، چین اور بھارت سمیت شاید کوئی بھی ملک یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہو جائےگا تاہم کیا افغانستان کا پڑوسی ملک پاکستان بھی اس سلسلے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے یا کوئی کردار ادا کرسکتا ہے، اس سلسلے میں ایک پاکستانی ماہر معاشیات کا خیال ہے کہ اس سارے عمل کے دوران پاکستان کی زیادہ دلچسپی سہولتوں کی فراہمی یعنی لاجسٹک سپورٹ میں ہوگی، کیونکہ پاکستان بڑی سرمایہ کاری کرنے کی حالت میں نہیں تاہم اس سارے اہم عمل کے دوران ٹرانسپورٹ سمیت دیگر ذرائع رسل و رسائل اور افرادی قوت بہم پہنچانے کے حوالے سے ہم یقینا چین اور امریکہ سے بھی زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس ماہر معاشیات سمیت ہم جیسے بہت سے لوگ اس حقیقت سے شاید آگاہ نہیں کہ پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ریئر ارتھ میں کہیں زیادہ مالا مال ہے۔”کل تک“ واقعی افغانستان ایسی نایاب اور قیمتی معدنیات کا واحد مرکز تھا مگر کل نہیں ہوگا۔ شمالی وزیرستان میں ریئر ارتھ دھاتوں میں ایسا عنصر بھی دریافت ہوا ہے جس کو ابھی تک کوئی نام بھی نہیں دیا گیا۔ یہ اب تک دریافت ہونےوالا سب سے مہنگا عنصر ہے۔ اسکے علاوہ بھی دیگر معدنیات دریافت ہوئی ہیں ان میں ایک مروجہ توانائی کے ذرائع کا بہترین اور سستا ترین متبادل ہے۔ اسکے ایک پاﺅنڈ یعنی تقریباً نصف کلو سے لاکھوں لٹر پٹرول کے برابر توانائی دستیاب ہوگی۔ ایسی معدنیات کی دریافت پر امریکہ و چین دونوں کی نظر ہے، جبکہ بھارت زیادہ تکلیف میں مبتلا ہے۔ پاکستان اور افغانستان پر عالمی طاقتوں کی اسی بنیاد پر تسلط کی جنگ ہے۔ چین پاکستان کے معدنی خزانوں میں کسی اور کو حصہ دار بنانے پر تیار نہیں۔ یہی کچھ امریکہ افغانستان میں چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ بڑے ملک اپنے اپنے مفاد کی جنگ اپنے ملک سے کہیں دور آکر لڑ رہے ہیں تاہم امریکہ اور چین میں فرق ضرور ہے۔ امریکہ افغانستان کے وسائل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کےلئے جنون میں مبتلا ہے جبکہ چین اپنے وسائل میں بھی پاکستان کو شامل کئے ہوئے ہے۔ آج تک تو ایسا ہی ہے کل کی خبرنہیں۔
 پاکستان قیمتی اور نایاب معدنیات، دھاتوں اور عناصر سے پہلے ہی مالا مال ہے مگر انکے استعمال کا ڈھنگ نہیں معلوم اور پھر لالچی، بدعنوان اور بے ایمان لوگ ان وسائل پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں، بلوچستان میں سونے کی ریکوڈک کانوں کا ٹھیکہ انڈر ہینڈ ڈیلنگ کے بعد کوڑیوں میں دیدیا گیا۔ چنیوٹ میں سونے چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے، اس پر بڑا جشن منایا گیا مگر یہ سونا پیتل تانبے میں بدلا، پھر لوہا ہو گیا اب شاید اسے کوئلہ بنایا جانے لگا ہے۔ کوئلے کی بہرحال قومی مفاد میں ایک خصوصیت ہے کہ یہ سونے چاندی اور پلاٹینم کی طرح سمگل نہیں ہو سکتا۔
جب لیڈر شپ کی بات آتی ہے تو جرمنی‘ جنوبی کوریا‘ ملائیشیا‘ ہالینڈ‘ سوئٹزرلینڈ اور سنگا پور کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ جرمنی اور جنوبی کوریا نے کبھی پاکستان سے قرض لیا تھا جرمنی جنگ عظیم کے بعد اپنی بربادی سے نمٹا اور ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ پاکستان میں پہلا پانچ سالہ منصوبہ محبوب الحق نے پیش کیا دوسرا بھی انہوں نے پیش کیا تھا‘ جنوبی کوریا نے انہیں اپنالیا۔یہ منصوبے پاکستان میں بنے عمل وہاں ہوا تو وہ ملک ترقی کی منزلیں سبک رفتاری سے طے کرتا چلا گیا۔ محبوب الحق کو جنوبی کوریا میں حکومتی سطح پر عزت و احترام اور وقار کا وہی درجہ حاصل ہے جو پاکستان میں عوامی سطح پر ڈاکٹر اے کیو خان کا ہے۔ ہالینڈ کی پوری معیشت کا انحصار اور دارومدار پھولوں کی برآمد پر ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے سنگلاخ پہاڑوں کو سرسبز بنا کر ملک کو سیاحوں کی جنت بنا دیا۔ بنکنگ پر پوری دنیا اعتماد کرتی ہے۔ ملائیشیا اور سنگا پور کا پورا سال ایک جیسا حبس زدہ موسم رہتا اور زمین دلدلی ہے۔ سنگا پور نے ملائیشیا کے ساتھ ملنے کی کوشش کی ملائیشیا کیلئے اپنا بوجھ اٹھانا مشکل تھا۔ اس نے سنگا پور کو لفٹ نہ کرائی۔ ملائیشیا کو مہاتیر محمد اور سنگا پور کو لی کیوان یو مل گئے۔ آج ملائیشیا اور سنگا پور صنعت و تجارت ہی نہیں‘سیاحت کے حوالے سے بھی پرکشش ہیں۔ لی کون نے سنگا پور کو فری پورٹ ڈیکلیئر کرکے بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ حبس زدہ موسم میں بھی لوگ ملائیشیا اور سنگا پور جاتے ہیں لیڈر شپ کی بدولت دلدلی زمین میں دلکشی پیدا کردی۔پاکستان جیسے نظارے دنیا میں خال ہی مگر دہشت گردوں نے خوبصورت جھیلوں سرسبز پہاڑوں ، خوبصورت وادیوں، گنگناتے جھرنوں، حوضِ کوثر نما چشموں کے گرد بارود کی بو پھیلا رکھی ہے۔
 ہمارے اعمال ہماری دعاﺅں کی قبولیت اور عدم قبولیت کا واضح اظہار ہیں تاہم ایسی خواہش کرنے میں تو حرج نہیں کہ پاکستان کو ایسی لیڈر شپ مل جائے جو قومی وسائل کو عوامی فلاح پر نیک نیتی اور ایمانداری سے صرف کرے۔ ہمارے اعمال جیسے بھی ہوں دعا بہرحال کرنی چاہئے۔ شاید کوئی مبارک گھڑی میںمنظور بھی ہو جائے۔ دعا یہی ہے کہ اللہ ہم پاکستانیوں کو ایماندار لیڈر شپ سے نواز دے۔

 

 

 

متعلقہ خبریں