2017 ,مارچ 5
صبح سات بجے کے قریب سورج کو طلوع ہوتے دیکھا تو لگا زمین سے اُگ رہا ہے۔ ایک بار اس دلکش منظر پر نظر پڑی تو پھر ہٹی نہیں۔ سرخ تھال نمایاں ہو رہا تھا۔ اس سمت ایک قدم بڑھایا تو لگا آدھ کھلا سرخ گلاب دو قدم میری طرف بڑھ آیا ہے۔ میں نے ساتھ ہی کھڑے بدر سعید کی توجہ اس حسین نظارے اور عجیب کیفیت کی طرف دلائی اور ہم دونوں اسکی طرف چل پڑے‘ وہ ہماری طرف دوڑتا چلا آ رہا تھا۔ صحرائی لوگ یہ نظارہ روز دیکھتے ہیں مگر ان کے لئے اس میں دلچسپی کا وہ سامان نہیں ہوتا جو ہم جیسے گا¶ں سے شہر منتقل ہونے والوں کےلئے ہوتا ہے۔ شہر میں شفق کی لالی معدوم‘ تاروں کی تابانی مفقود ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اگر ہو تو بھی صحرا میں سورج کے طلوع و غروب کا منظر‘ کبھی کبھی دیکھنے والوں کےلئے ناقابل فراموش ہوتا ہے۔ ایسا بہاول پور کے لال سہانرہ صحرا میں سورج کو طلوع اور اگلے روز رحیم یار خان کے قریب چولستان میں غروب ہوتے دیکھا۔
صحرا کے سورج کی تمام تر رعنائی اور زیبائی کے ساتھ طلوع و غروب دیکھ کر شان کبریائی بیان کئے نہ رہ سکے۔ مارچ کے شروع میں سورج کی کرنیں صبح سویرے سردی کو غیر محسوس طریقے سے اپنے دامن میں لےکر اپنی تمازت بکھیرتے ہوئے گرمی کا احساس دلانے لگتی ہیں۔
لاہور سے ہم 6 صحافیوں محمد شعیب مرزا‘ افتخار خان‘ محمد اکرم‘ بدر سعید‘ عقیل انجم اعوان کوہو بارہ فا¶نڈیشن انٹرنیشنل کی طرف سے بہاول پور اور رحیم یار خان کا وزٹ کرایا گیا۔ ہم لوگ رات دس بجے لاہور سے ڈائیوو میں روانہ ہوئے۔ چھ سات گھنٹے کا سفر کٹھن اس لئے ہو گیا کہ بس میں اس جدید دور میں بھی وائی فائی اور موبائل و لیپ ٹاپ چارجنگ کی سہولت نہیں ہے۔ نشئی کو چرس‘ خان کو نسوار نہ ملے تو جوان کی حالت ہوتی ہے وہی انٹرنیٹ استعمال کرنیوالے کی وائی فائی نہ ملنے پر ہوتی ہے۔ بہاول پور صبح ساڑھے چار بجے پہنچ گئے۔ آگے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا۔ میجر خالد لئیق کے مستعد گارڈ اور ڈبل کیبن گاڑیوں نے پروٹوکول کے ساتھ تیزی سے صحرا میں لگائے خوبصورت خیموں میں پہنچا دیا۔ جو چنکارہ اور کالے ہرن کی ہنٹنگ ٹرافی کےلئے بنائے گئے تھے۔ تین چار ماہ جاری رہنے والی ہنٹنگ ٹرافی چند دن پہلے ہی اختتام پذیر ہوئی تھی۔ ایک ٹینٹ میں دو دو بیڈ لگے ہوئے تھے۔ پورا راستہ سردی نہیں لگی۔ مگر یہاں شاید خیموں کی وجہ سے زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی۔
بہاول پور سے اس جگہ تک گاڑیوں میں ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم خوبصورت ویڈیو گیم کا حصہ ہیں۔ زیادہ تر دو رویہ سڑک اور نواز شریف ریسٹ ہا¶س تک جھلملاتے ریفلیکٹر دلفریب اور سحر انگیز نظارہ پیش کر رہے تھے۔ ٹینٹ میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ کمبل کو گرم کرنے کی کوشش کی۔ ہوبارہ فا¶نڈیشن پاکستان اور انٹرنیشنل فنڈ فار پری زرویشن آف ہوبارہ کے تعاون سے بہاولپور میں 200 اور رحیم یار خان میں 300 تلور کھلی ہوا میں چھوڑے جانے تھے جن کی افزائش دبئی میں کی گئی تھی۔ اس کےلئے فا¶نڈیشن کے ہیڈ بریگیڈئر مختار لاہور اور فنڈ کے سربراہ دبئی سے آئے تھے۔ اس روز رات کو سردی کا سامنا رہا۔ ہوبارہ فا¶نڈیشن کی طرف سے دوپہر کا کھانا نوازشریف ریسٹ ہا¶س میں کھلایا گیا۔ نواز شریف نے اس کا افتتاح 1989ءمیں بطور وزیراعلیٰ پنجاب کیا تھا۔ وہ یہاں عموماً جاتے ہیں‘ ہیلی پیڈ موجود ہے۔ اندر اور باہر سے یہ پرشکوہ ہے۔ اسکے اگلے روز ہم رحیم یار خان چلے گئے یہاں نواز شریف ریسٹ ہا¶س سے بھی زیادہ پرآسائش گیسٹ ہا¶س میں ٹھہرایا گیا۔ میجر طاہر ہمارے ساتھ تھے۔
ہم منڈی یزمان سے ہوتے ہوئے قلعہ دراوڑ پہنچے۔ جہاں اپنے حال پر ماتم کناں قلعہ دیکھا۔ قریب ہی قبرستان کے شروع میں 4 قبروں کو صحابہ کرام سے منسوب کیا گیا ہے۔ چاروں قبریں ایک قطار میں ہیں جن پر حضرت جواد‘ حضرت جوار‘ حضرت طاہر اور حضرت طیب کے نام کی تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ ہم لوگ ہوبارہ فا¶نڈیشن کے زیراہتمام چلنے والے منصوبوں کا وزٹ کرتے ہوئے رحیم یار خان پہنچے تھے۔ راستے میں ہمیں 157 کلومیٹر طویل پانی کی پائپ لائن کے بارے میں بتایا گیا جس پر شیخ زید کی طرف سے 23 پوائنٹس پر اونٹوں‘ گائے‘ بکریوں کے پینے کے پانی کی ہودیاں بنائی گئی ہیں۔ ایک پوائنٹ پر ہم رکے جہاں تین سو کے لگ بھگ اونٹ اور سو ایک گائیاں تھیں۔ پانی آنے میں ایک دو گھنٹے پڑے تھے۔ اس موقع پر اونٹ شاید ہم لوگوں کو دیکھ کر بلبلانے لگے۔ انکے مالکان دور دور سے ان کو پانی پلانے لائے ہوئے تھے۔ اس وزٹ پر تو ایک سفرنامہ لکھا جا سکتا ہے۔ راستے میں چنن پیر کا مزار آیا۔ اس پر بھی ہم لوگ گئے۔
صحرائے چولستان میں حضرت عماد الدین المعروف چنن پیر کا عرس اپنی نوعیت کا عرس ہے جو مسلسل سات ہفتے یعنی فروری کی آخری جمعرات بمطابق ہندی مہینے چیت سے شروع ہو کر اپریل کی پہلی جمعرات تک جاری رہتا ہے۔ ان دنوں عرس جاری تھا تاہم سخت سکیورٹی کی وجہ سے رش زیادہ نہیں تھا۔ یہ میلہ پانچویں جمعرات کو عروج پر پہنچ جاتا ہے، اس دن ضلع بہاول پور میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ ڈاچیوں کی گھنٹیوں کی جلترنگ سے روہی میں ہر طرف بہار ہی بہارمحسوس ہوتی ہے لیکن بغیر سبزے کے، مگر اب اس علاقے میں کہیں کہیں لہلہاتی فصلیں بھی نظر آتی ہیں۔ چنن پیر سے کئی روایات، قصے کہانیاں منسوب ہیں، وہاں موجود ایک متولی جو مولانا بھی تھے نے بتایا کہ جب معروف صوفی بزرگ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری کا اس علاقے سے گذر ہوا تو یہاں ایک بے اولاد بادشاہ سادھارن کی حکومت تھی۔ سادھارن کو آپ کی کرامات کا علم ہوا تو آپ سے اولاد کےلئے دعا کی درخواست کی۔ درویش نے دعا مانگی تو بادشاہ کے ہاں شہزادہ پیدا ہوا جو اتنا خوبصورت تھا کہ لوگوں نے اس کو چاند سے تشبیہہ دی اور چنن پکارنے لگے۔ چنن جب بولنے کی عمر کو آیا تو کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ رعایا میں مشہور ہوا کہ بادشاہ کا بیٹا غیر مذہب کا نام لیوا ہے تو سادھارن نے اپنے بیٹے کے قتل کا حکم دے دیا ادھر ملکہ نے اپنے بیٹے کی جان بخشی کی درخواست کی جو اس شرط پر قبول کی گئی کہ اب چنن محل کی بجائے صحرا میں رہے گا۔ روتی بلکتی ملکہ نے چنن کو صحرا میں ایک ٹیلے پر چھوڑ دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک ہرنی چنن کو دودھ پلا رہی ہے۔ یہ خبر ملکہ تک پہنچی تو وہ محل چھوڑ کر صحرا میں آ گئی اور پھر بادشاہ نے چنن کو سولہ سال کی عمر میںقتل کرا دیا۔ قبر گولائی میں اور بغیر چھت کے ہے۔ عمارت بن نہیں پاتی۔ مزار کے احاطے میں دو درخت ہیں جن پر کپڑے کی گانٹھیں باندھی گئی ہیں۔ یہ عموماً بے اولاد جوڑے باندھتے ہیں دیگر منتیں بھی اسی طرح مانی جاتی ہیں۔ عورت اپنے دوپٹے اور مرد اپنے صافے کا پلو کاٹ کے باندھتاہے۔ جس کی منت پوری ہوتی ہے وہ کترن کھل جاتی ہے۔ ہندو مسلم بلا امتیاز حاضری دیتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقیدے کے مطابق بے اولادوں کو اولاد، بن بیاہوں کو دلہنیں نصیب ہوتی ہیں۔ یہاں بے شمار جانور ذبح ہوتے۔ لنگر ہر وقت عرس کے علاوہ بھی چلتا ہے۔ یہ سورج بھی صحرا میں اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔ چنن پیر کو روہی یا صحرا کا داتا کہا جا سکتا ہے۔