2017 ,جون 18
اگر میڈیا کی رپورٹس پر یقین کر لیا جائے تو جے آئی ٹی ملک کے طاقتور ترین فورم کی صورت میں نظر آئے گی۔یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی،جس میں ان حکومتی اداروں کے افسر شامل ہیںجو اس حکومت کے نہ صرف ماتحت ہیں بلکہ ان اداروں کے سربراہان شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا اپنے رویوں اور اقوال وافعال سے برملا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں کچھ خدشات کا اظہار کیا،جس کا جواب اداروں اور وزیرِاعظم ہاﺅس کی طرف سے جمع کرایا گیا ہے۔اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف نے اس معاملے میں ساری مصروفیات چھوڑ کربڑے فعال اور متحرک ہیں۔کلبھوشن کیس پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے جتنی اہمیت کا کیس ہے اس کا ہر پاکستانی کو احساس اور ادراک ہے۔اٹارنی جنرل اس کیس میں اس لئے پیش ہونے سے قاصررہے کہ ان کو لاہور میں کوئی ضروری کام پڑ گیا تھا۔تاہمپاناما کیس قومی سطح کا اہم ترین کیس ہے وہ اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار جانفشانی سے ادا کررہے ہیں۔ان کی طرف سے اداروں کے جوابات سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ہیں۔ان پر سرسری نظر ڈال کر آگے چلتے ہیں: جوابات میں قومی اداروں کی طرف سے جے آئی ٹی کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ سکیورٹی ایکسچینج کمشن کے چیئرمین نے واضح کیا کہ ریکارڈ میں ٹمپرنگ سے متعلق ادارے پر الزام سراسر غلط اور بے بنیاد ہے ۔
نیب نے اس الزام کومسترد کردیا کہ جے آئی ٹی کے ایک ممبرکو بدنیتی کی بنیاد پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا نیب کے مطابق مسٹر منگی کو شوکاز نوٹس عدالت کے حکم پر جاری کیا گیا ۔ ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ جے آئی ٹی نے پہلی مرتبہ 8 مئی کوریکارڈ دینے کی درخواست کی تھی جو ہرممکن حد تک کم سے کم وقت میں اسے فراہم کردیا گیا تھا۔ وزارت قانون وانصاف نے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے قانونی معاونت سے متعلق خط کاجواب تین روز میں جاری کردیا گیا تھا ۔ انٹیلی جنس بیورو نے جے آئی ٹی ممبر بلال رسول اور ان کے اہل خانہ یاکسی اور کے فیس بک اکاﺅنٹ ہیک کرنے کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے واضح کیا ہے کہ جے آئی ٹی کے کسی ممبر کے فیس بک اکاﺅنٹ کو ہیک نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم ہاﺅس نے اپنے جواب میں جی آئی ٹی کی طرف سے بلائے گئے افراد/ گواہان پردباﺅ ڈالنے اور ڈکٹیٹ کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ایسا ہے تو جے آئی ٹی ٹھوس ثبوت پیش کرے۔ جے آئی ٹی نے اپنی درخواست میں خود فون ٹیپ اور گواہان کی مانیٹرنگ کا اعتراف کیا ہے‘ حالانکہ فون ٹیپ کرنا اور گواہوں کی مانیٹرنگ قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس نے سمن لیکس کے الزام کو بھی مسترد کر دیا۔ایک نظر جے آئی ٹی کی درخواست پر بھی ڈالنے کی ضرورت ہے۔اس درخواست میںاعتراضات ،الزامات اور انکشافات سب کچھ ہے۔: ایس ای سی پی سے چودھری شوگر مل اور شریف فیملی کی انکوائریوں کا ریکارڈ طلب کیا ہے لیکن ایس ای سی پی نے شریف فیملی کے خلاف کبھی بھی انکوائری کرنے سے انکار کیا۔ گواہ نے بتایا کہ چیئرمین ایس ای سی پی نے شریف فیملی کا انکوائری ریکارڈ تلاش کرنے سے منع کیا۔ چودھری شوگر مل کی تحقیقات کا ریکارڈ تبدیل کیا گیا۔ ایس ای سی پی کے علی عظیم نے چودھری شوگر مل کی تحقیقات کو گزشتہ تاریخوں سے بدلوایا۔ علی عظیم کو ہی چیئرمین ایس ای سی پی ‘ جے آئی ٹی کیلئے نامزد کیا تھا۔ وزارت قانون نے بیرون ملک تحقیقات کیلئے خط کے جواب میں 5 دن تاخیر کی۔ جے آئی ٹی رکن بلال رسول اور اہلخانہ کے فیس بک اکاﺅنٹ آئی بی کی مدد سے ہیک کئے گئے۔ نیب نے جے آئی ٹی ممبر عرفان نعیم منگی کو 25 اپریل کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔عرفان نعیم منگی کو شوکاز نوٹس توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔ ایک ممبر اسمبلی نے جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان کا کہا۔ ایف بی آر سے شریف فیملی کے 1985 ءسے ریکارڈ طلب کیا ایف بی آر نے شریف فیملی کا صرف 5 سال کا ریکارڈ ہی دیا۔ طارق شفیع کو چیف ایگزیکٹو اتفاق گروپ نے پیشی سے پہلے وزیراعظم ہاﺅس جانے کی ہدایت کی۔ جے آئی ٹی کی اداروں سے خفیہ خط و کتابت میڈیا کو جان بوجھ کر جاری کی جاتی ہے۔ وزیر اطلاعات نے میڈیا میں تصدیق کی خط و کتابت پبلک کرنے کا مقصد تحقیقاتی عمل کو متنازعہ بنانا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کے بارے میں ججوں اور جرنیلوں پر کام کرنے کا ایک تا¿ثرموجود ہے۔ڈان لیک رپورٹ کے تناظر میں جو نوٹیفیکیشن جاری ہوا اسے فوج نے مسترد کیا تو فوج اور حکومت کے درمیان کشیدگی نظر آئی۔وہ بظاہر جنرل باجوہ اور وزیراعظم کی ملاقات میں رفع دفع ہوگئی۔کہا گیا کہ جرنیلوں نے معافی مانگ لی۔اس کے بعد سلیٹ کلین ہوجانی چاہیے تھی۔مگربادی¿ النظرمیں ایسا نہیں ہوا۔جنرل آصف غفورکی طرف سے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کا ٹویٹ پرویز رشید کو بحال کئے جانے کے تا¿ثر کے پیش نظر دیا گیا تھا۔وزیراعظم نواز شریف جب جے آئی ٹی میں پیش ہونے کیلئے روانہ ہوئے تو اس موقع پر لی گئی تصویر میڈیا کو جاری کی گئی،جس میں پرویز رشید ہراول دستے میں تھے۔اگر فوج کو پرویز رشید سے کوئی تحفظات ہیں تو یہ فوج کو پیغام تھا۔”کرلے کرناہے۔“جے آئی ٹی کی بلا شبہ ایک اہمیت اور حیثیت ہے۔اس میں ایماندار افسر موجود ہیں مگر جب اس کا موازنہ عدلیہ اور فوج سے کیا جاتا ہے تو اس میں بُعدالمشرقین ہے۔بلکہ یہاں کہا جاسکتا ہے۔”کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔“
آپ جے آئی ٹی کے الزامات کا جائزہ لیں اور اداروں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں،ساتھ ہی حکومتی اکابرین کے جے آئی پرجھپٹ کے پلٹنا اور پلٹ کے جھپٹنے ایسے رویوں تو دیکھیں تو بیانات سے میدان کارزار سجا نظر آتاہے۔جے آئی ٹی میں بارود کس نے بھردیا ہے؟۔جس قوت نے جے آئی ٹی میں یہ جرات پیدا کردی کہ وہ حکومت سے ماتھا لگاچکی ہے ۔وہ قوت ان اداروں کے سربراہوں کو کیوںرام کرا سکی جن اداروں سے یہ افسر لئے گئے ہیں۔عدلیہ اور جے آئی ٹی کے بارے میں حکومتی کار پرداژان جو کہہ رہے ہیںاگر یہ سکرپٹ کے تحت نہیں ہے تو پھر میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دانے مُک گئے ہیں۔جس کا ایک آدھ فیصد ہی امکان ہوسکتاہے۔حکومت ،جے آئی ٹی مخاصمت فریب نظر ہوسکتی،سکرپٹ کا سین ہوسکتی ہے۔جس نے سکرپٹ لکھا اس سے مسالہ زیادہ لگ گیا۔حکومت جے آئی ٹی مخاصمت کا تاثر بھی نہیں ابھرنا چاہیے تھا جہاں تو دشمنی کی فضا بنا دی گئی ہے۔قارئین بتی کا تعاقب چھوڑیں اپنا کام کریں۔میرے فارمولے پر عمل کریں تو ٹنشن سے نجات ممکن ہے۔سارے دن کی دوڑ بھاگ اور سیاست کی گہما گہمی ،سیاستدانوں کے ایکدوسرے پر الزام،اتہام ،دشنام بہتان اور معاشرتی ناہمواریوں کے معاملات دیکھ کردل کڑھتا اور دماغ ماﺅف سا ہوجاتاہے۔ گھر جاکررات کوٹاک شوز نہیں دیکھتا۔نیند کی کبھی گولی نہیں کھائی،پی ٹی وی آن کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ خوابوں کی دنیا میں آگیا ہوںاس دوران نیند کی دیوی آغوش میں لے لیتی ہے۔آزما کے دیکھ لیں۔
میاں نواز شریف نے جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی کی بات کی ہے۔اس معصوم جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت نہیں ۔انہوں نے واضح بھی کردیا کہ وہ جے آئی ٹی اگلے الیکشن ہیں۔اگر میاں صاحب فوج کے ساتھ کشیدگی برقرار رکھتے ہیں تو فوج ابھی کچھ نہیں کرے گی مگر یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ فوج کبھی کچھ نہیں کرے لیکن یقینا ایسا کچھ نہیں کرے گی جو ایوب،ضیاءاور مشرف نے کیاتھا۔اگلے الیکشن میں بھی جنرل باجوہ آرمی چیف ہونگے،وہ” الیکشن فیئر“ کرا دیتے ہیں تویہ ان لوگوں کیلئے پریشان کن ہوسکتے ہیں جو اداروں کو متناعہ بنا کر دہائیوں اقتدارکی پلاننگ کئے ہوئے ہیں۔نگرانوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوگااور سب سے زیادہ اہمیت نگران وزیر بجلی کی ہوگی کہ وہ جون جولائی کی گرمی اور حبس میں کس طرح عوام کو ریلیف دیتا ہے۔مصدق ملک نے ایسا ریلیف دے کے اپنے مستقبل کو روشن کرلیا تھا۔