حسینیت اور یزیدیت…معرکہ آج بھی جاری ہے

2017 ,اکتوبر 1



خیرو شر، نیکی بدی، حق و باطل اور حسینیت و یزیدیت کے درمیان معرکہ آرائی ازل سے جاری ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ کو ہزار پردوں میں ملفوف اور ملبوس کرکے بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ جس طرح سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع نہیں ہوسکتا۔ بن بادل برسات نہیں ہوسکتی، دوپہر سے قبل شام نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح خیر پر شر غالب آسکتا ہے نہ بدی نیکی کو ڈھانپ سکتی ہے۔باطل حق کو زیرو زبر کرسکتا ہے نہ یزیدیت کی حسینیت کے مقابلے میں جیت ہوسکتی ہے۔فتح و شکست کا ہر کسی کے پاس اپنا پیمانہ، معیار اور سوچ ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات کسی عمل اور اقدام کے نتائج مدتوں بعد واضح ہوتے ہیں تاہم انسان جو دیکھتا ہے اس کے مطابق نتیجے کا تعین کرلیتا ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔

یزید کی جدید سامانِ حرب سے لیس سپاہ نے مدینہ النبی سے چلنے والے امام عالی مقامؓ کی قیادت میں معصوم بچوں اور خواتین پر مشتمل مختصر قافلے پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ایک طرف بے سرو سامانی کی حالت میں اہلبیت دوسری طرف اہل ابلیس، ایک طرف حق، دوسری طرف باطل،ایک طرف حسینیت دوسری طرف تمام تر کروفر اور شیطنت کے ساتھ یزیدیت، حسینیت پر ہر قسم کا ظلم و جبر روا، ہر طرف سے ناکہ بندی، رسد کے راستے مسدودجانوروں تک کو ملنے والے دریا کے پانی تک آل رسول کی رسائی مفقود‘ اوپر سے قیامت کی گرمی بدن کو جھلسائے دے رہی تھی۔ گلے پیاس سے خشک، بچوں کی بھوک اور پیاس سے حالت دیکھ کر بڑے سے بڑے حوصلے اور جگرے والا بھی ڈگمگا جائے۔ لیکن یہ نبی کا خاندان تھا ‘ علیؓ کا خانوادہ تھا۔ خاتون جنت ؓکے جگر گوشے تھے۔ لشکر یزید کا ایک ہی مطالبہ” یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلو“ تمام مظالم، جبر اور مصائب کے باوجود حسین ابن علی ؓکے پائے استقلال میں سرمو لرزش نہ آئی۔ حق پر باطل کو حاوی نہ ہونے دیا۔ یزیدی جس مقصد کیلئے آئے تھے اس میں ناکام ٹھہرے حضرت امام حسینؓ کو یزید کی بیعت پر قائل نہ کرسکے تو اس نبی کے خاندان پر یلغار کردی جس کا کلمہ بھی پڑھتے تھے۔ امام کا سر تن سے جدا ، ساتھیوں کے جسم نیزوں سے چھلنی کئے۔ ایسا ظلم چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ اس ظلم پر دریاﺅں کا پانی خشک ہوجاتا تو بجا تھا۔زمین پھٹ جاتی تو درست تھا۔ آسمان ٹکڑے ہوجاتا تو ٹھیک تھا کیونکہ یہ صرف حسین ابن علی ؓ کا قتل ہی نہیں تھا بلکہ آل رسول کی توہین بھی تھی۔اقتدارکے نشے میں ظلم کی انتہا، انسانیت کی ابتلا، حضرت امام حسینؓ اور ساتھیوں کی شہادت پر ابن زیاد اور اسکے ماتحت فوج نے جشن منایا۔ اس کے حواریوں نے شادیانے بجائے اسے اپنی فتح و نصرت قرار دیا۔کیا واقعی یہ یزیدیوں کی فتح تھی؟ ہرگز نہیں۔ یزیدی جس کو فتح و نصرت اور کامرانی قرار دے رہے تھے یہی دراصل یزیدیت کی موت، ذلت اور رسوائی تھی …

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے. اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعدکربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر حسین ابن علی ؓاور ساتھیوں نے دین مصطفوی کو زندہ کردیا خود بارگاہ نبوی میں سرخرو ہوگئے۔آج یومِ عاشور پر سوا ارب سے زائد اہلِ اسلام حضرت امام حسینؓ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ان کی لا زوال قربانی پر خراجِ عقیدت اور سلامِ محبت پیش کیا جارہا ہے۔آج کتنے لوگ ہیں جو یزید پر لعنت نہیں بھیجتے۔اسلامی دنیا کا کوئی خطہ قریہ اور گلی ایسی نہیں جہاں امام حسینؓ کے نام پر نام رکھنے والے موجود نہ ہوں۔یزید کے نام پر کسی نے اپنی اولاد کا نام رکھا؟ ایسا ہی پست مرتبہ و مقام اور ننگ و نام یزید کے حواریوں کے حصے میں آیا۔ وقتی مفادات و مقاصد کا حصول ان کو نفرت و رسوائی کی پستیوں میں لے گیا۔

بدی اورشروقتی طور پر سر چڑھ کر بول سکتا ہے،مگراسے دوام نہیں،خیراور سچ کو دوام ہے۔دھوکے فریب اور جھوٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی،چرب زبانی سے حقیقت چھپائی جاسکتی ہے،لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے مگر کب تک؟۔ایساکرنے والے اقتدار کی منزل پاسکتے ہیں مگر مقدر اوندھے منہ گرنا ہی ہوتا ہے۔ایک ڈریکولا عروس البلاد کے ہزاروں انسانوں کوکھاکر لندن میں انہیں ہضم کررہاہے،اس کی زبان سے انسانوں کو زندہ جلانے اورتڑپا تڑپا کر مارنے حکم جاری ہوتا تھا،کچھ لوگ اس کے خوف اور کچھ اس کے ڈراموں سے متاثر ہوکر اسکے سامنے جھکتے تھے۔اس نے اپنی اصلیت پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کا ایجنٹ ہونے کا اقرار کرکے ظاہر کردی اب وہ راندہ درگاہ اور سسک سسک کرموت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

پاکستان میں اور بھی کئی ”اُبو الہول“ ہیںجواپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔موجودہ حالات میں جب انڈیا کشمیریوں کا بے دردی سے خون بہارہا ہے۔اس کے ساتھ کوئی دوستی کا سوچ سکتا ہے؟ مگر ایسی سوچ پائی جاتی ہے۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد ایک لکیر نہیں لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگین بارڈر ہے۔پاکستان کی طرف سے اسے دوستی کی خاطر عبور کرنے کے لئے بیقرارلوگوں کی روحیں اِس دنیا میں بھی بھٹکتی نظر آئیں گی۔پاکستان کا وزیرخارجہ امریکہ میں کھڑا ہوکے کہتا ہے امن کی کوششوں پر نواز شریف کو غدار اور مودی کا یار کہا گیا۔ایسا کہنے والے صرف زبان ہی سے کہنے کی پوزیشن میں تھے۔کشمیر کو مقتل بنانے والوں سے یاری لگانے والوں کو کیا قبلہ اور سرکار کہا جائے۔خواجہ آصف کو پاکستان سے جس نے بھی بھیجا پاکستان کی نمائندگی کیلئے بھیجا تھا امریکہ وانڈیا کی کاسہ لیسی کیلئے نہیں۔آج امریکہ کو مطلوب لوگ جس دور میں امریکہ کے لاڈلے تھے اُس دور میں خواجہ محمد صفدر جنرل ضیاءالحق کے رائٹ ہینڈ مین اور میاں نواز شریف کے سرپر جنرل ضیاءکا دست شفقت تھا۔

عوام کوتو اندھیرے میں رکھا جاسکتا ہے‘ مورخ کوغچہ دیا جاسکتا ہے مگر قدرت کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتاہے۔دولت ہاتھ کا میل اورصحت وتندرستی تک اس کا ساتھ ہے۔آخر دولت کتنی چاہیے۔سونے کی قبر میں بھی اپنے ہی اعمال کا جواب دینا ہے۔ہم بھی کیسی قوم ہیں جسے سیاست میں گُرو مان لیا پھر وہ عقیدت کے ساتھ عقیدے میں بھی مہان ہوگیا۔ آج بھی حسینیت اور یزیدیت کے مابین معرکہ جاری ہے ۔کسی بھی جگہ جہاں کہیں بھی جو سچ پروہی حق پرہے،یہی حسینیت ہے۔ فتح و نصرت حسینیت کا مقدر ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔جھوٹ،دھوکہ اور فریب یزیدیت ہے،جس کا سرِپُر غرور چور چورہونا ہی اٹل حقیقت۔جھوٹ اور مکاری کاساتھ دینے والے اپنا انجام سوچ لیں۔ ان کا شمار یزید، شمر، میر جعفر اور میر صادق کی صفوں میں ہوگا۔ نسلوں کو غدارابن غدار کے طعنے ملتے رہیں گے۔آج کیلئے واقعہ کربلا کا سبق یہی ہے ....ع

ڈٹ جاﺅ تم حسین کے انکار کی طرح

متعلقہ خبریں