کلبھوشن کیس، عالمی عدالت کی ساکھ بھی دائوپر

2017 ,مئی 18

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

پاکستان کے ایک وزیراعظم چودھری محمد علی ہوا کرتے تھے،انگریز دور میں قابل بیوروکریٹ سمجھتے جاتے تھے،پاکستان کے وزیرِخزانہ بھی رہے۔کسی عالمی میٹنگ میں گئے،میٹنگ ہال کی طرف بڑھتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے ہم منصب کے کندھے سے کندھا ٹکراگیا تو اُس نے غصے سے کہا ’’ڈوگ‘‘۔ اس پر چودھری صاحب نے اپنے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے اور ایک ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔’’محمد علی‘‘گویا انہوں نے یہ تاثردیا کہ آپ نے اپنا نام بتا دیا اور میرا نام محمد علی ہے۔

 

 

 

گزشہ روز ہیگ میں بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کئے جانے کے موقع جب پاکستانی وفد سماعت شروع ہونے پر عدالت میں پہنچا تو وفد کے ارکان نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی سفارتکاروں اور افسروں سے بھی ہاتھ ملائے۔ پاکستان کا مقدمہ لڑنے والے ڈی جی سائوتھ ایشیا محمد فیصل نے بھارتی وزارت خارجہ کے سینئر افسر دیپک متل کی طرف مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو متل نے ہاتھ ملانے کی بجائے دونوں ہاتھ جوڑ کر پھیکی مسکراہٹ سے نمسکار کہہ دیا۔متل کی بدتہذیبی اور تعصب کوشدت سے محسوس کیا گیا۔اس کا جواب تو یہ تھا کہ محمد فیصل اپنا مصافحے کیلئے بڑھایا ہوا ہاتھ اوپرکرتے،بالکل اس طرح جیسے امریکی صدر حلف کے موقع پر کرتاہے، ہاتھ کو تھوڑی سی آگے کی طرف جنبش دیتے ہوئے نمسکار کے جواب میں ’’پھٹکار‘‘کہہ دیتے۔متل کی حرکت کا یہ مناسب جواب ہوتا۔

نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کے گیارہ رکنی بنچ نے کل بھوشن یادیو کی پھانسی کی سزا کیخلاف بھارتی درخواست کی سماعت کی۔ کیس میں بھارت کی نمائندگی13 رکنی ٹیم نے کی جو وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل (پرنسپل ایجنٹ)، جوائنٹ سیکرٹری وی ڈی شرما (کوایجنٹ)، نامور وکیل ہریش سالو، بھارتی سفارتخانے میں فرسٹ سیکرٹری کاجل بھٹ اور جونیئر وکیل چٹنا این رائے سمیت دیگرنے کی جبکہ پاکستان کی قانونی ٹیم کی سربراہی اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف علی نے کی۔ عدالت نے دونوں فریقوں کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کیلئے نوے منٹ دیئے۔

کلبھوشن یادیو کوپاکستان میں جاسوسی،تخریب کاری اوردہشتگردی کے اعترافات کے بعد سزائے موت سنائی گئی ۔ بھارت اس معاملے کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے گیا۔ پاکستان نے عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو کے بارے میں بھارتی درخواست کو نامکمل اور حقائق کے خلاف قرار دیتے ہوئے عالمی عدالت کے دائرہ کار کو بھی چیلنج کیا۔ اس معاملے میں عدالت کی قانونی پوزیشن ایس ایم ظفر نے واضح کی ہے۔ ’’عالمی عدالت انصاف میں اُْسی صورت کسی معاملے پر پیش رفت ہو سکتی ہے جب دونوں فریق باہمی رضا مندی کیساتھ اس سے رجوع کریں۔اس صورت میںعالمی عدالت انصاف کو کیس کی سماعت کے اختیارات ہوتے ہیں ورنہ نہیں ہوتے ہیں‘‘۔ اسکی مثال خود بھارت نے قائم کی تھی ۔بھارت نے اگست 1999ء میں رن آف کچھ میں پاکستان کا طیارہ گرایا تھا۔ پاکستان طیارہ گرنے پر عالمی عدالت انصاف میں گیا تھا لیکن بھارت نے کہا کہ یہ کیس عالمی عدالت انصاف کے اختیار میں نہیں آتا۔

بھارتی قانونی ٹیم نے دلائل کاآغازکرتے ہوئے عالمی کہا کہ کل بھوشن ایک بے قصور بھارتی شہری ہیں جو من گھڑت الزامات میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں قید ہیں، انہیں ویانا کنونشن کے تحت انکے حقوق نہیں دیئے جا رہے۔بھارت کوکل بھوشن کی سزائے موت کے بارے میں میڈیارپورٹس سے معلوم ہوا۔یہ سزا ایک مبینہ اعترافی بیان پرسنائی گئی۔پاکستان نے کوئی چارج شیٹ یادوسری دستاویزفراہم نہیں کی جس سے واضح ہوتاہے کہ کل بھوشن کودفاع کاحق نہیں دیاگیا۔پاکستان نے کل بھوشن کے معاملے پرقانونی تقاضے پورے نہیں کئے۔ کل بھوشن کی اپیل فوجی عدالت سن رہی ہے جس کی سربراہی ٹوسٹارجنرل کررہاہے جبکہ سزائے موت کی توثیق فورسٹارجنرل نے کی۔ عالمی عدالت انصاف سزائے موت پرعملدرآمدرکواکربھارتی شہری کوریلیف فراہم کرے اورفوجی عدالت کافیصلہ کالعدم قراردے۔

اس کے جواب میں پاکستان کی وزارت خارجہ میں ڈی جی سائوتھ ایشیا اینڈ سارک ڈاکٹر فیصل نے عالمی عدالت انصاف میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کا اعتراف کیا۔ کلبھوشن یادیو کے پاسپورٹ کی کاپی عالمی عدالت انصاف میں بڑی سکرین پر دکھائی گئی۔ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ کمانڈر کلبھوشن کے جبری اعتراف کا بھارتی الزام بے بنیاد ہے۔ عالمی عدالت انصاف کو کلبھوشن یادیو کی اعترافی ویڈیو دیکھنی چاہئے۔ بھارت نے کلبھوشن یادیو کے پاسپورٹ کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی اور اس معاملے پر بھارتی وکلاء کو سانپ سونگھ گیا۔ پاکستان نے کلبھوشن کی گرفتاری پر بھارت کو بھی آگاہ کیا تھا۔

کلبھوشن کے پاس اپنی صفائی کیلئے 150 دن تھے ۔پاکستانی وکیل خاور قریشی نے کہا کہ کلبھوشن کے پاسپورٹ پر مسلمان کا نام لکھا تھا۔ کمانڈر کلبھوشن کی گرفتاری سے بھارتی ہائی کمشن کو آگاہ کیا گیا۔ کمانڈر کلبھوشن یادیو کا کیس ہنگامی نوعیت کا نہیں ہے۔ بھارت کے پیش کردہ دلائل نامکمل اور تضاد سے بھرپور ہیں۔ بھارت نے عالمی عدالت کو سیاسی تھیٹر کے طور پر استعمال کیا، پاکستان نے اپنے عوام اور اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے تمام قانونی ذرائع استعمال کریگا۔ اقوام متحدہ میں سب سے بڑا جرم دہشت گردی سمجھا جاتا ہے۔ عالمی عدالت کلبھوشن کے معاملے پر بھارت کی درخواست مسترد کردے۔ کلبھوشن جعلی پاسپورٹ پر ایران سے پاکستان آیا تھا۔ دہشت گرد کو سز ا دینا تمام ممالک کی ذمہ داری ہے۔عالمی عدالت انصاف قرار دے چکی ہے کہ قونصلر رسائی ریاست کا اپنا معاملہ ہے بھارت نے کلبھوشن کا بھارتی پاسپورٹ اور برتھ سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیا۔ بھارت کے پاس کلبھوشن کے جعلی پاسپورٹ کی کیا دلیل ہے؟ بھارت نے تسلیم کیا کہ کلبھوشن یادیو ان کا شہری ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ قومی سلامتی کا ایشو عالمی عدالت میں نہ چلایا جائے ۔

عالمی دائرہ اختیار کی حامل اس عدالت کے 2002 میں قیام کے بعد گزشتہ سال اس پر جانبداری کا الزام لگاکر جنوبی افریقہ، برونڈی اور گیمبیا نے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔روس کے صدر ولادیمیر پوٹن بھی ایک حکم نامے پر دستخط کرکے اس عدالت سے علیحدہ ہونے کے فیصلہ کی توثیق کر چکے ہیں۔

میڈیا میں عمومی تاثر پایا جاتا تھا کہ سجن جندل کلبھوشن کی رہائی کیلئے پاکستان آیا اور وزیراعظم سے ملاقات کی۔بھارت کو عالمی عدالت جانے کا راستہ بھی بھارت کے خیر خواہ چند پاکستانیوں نے دکھایا۔یہ چہ میگوئیاں بھی ہورہی تھیں کہ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کا مؤقف نیم دلی سے پیش کیا جائیگا مگر پاکستانی ٹیم نے بھارتی ٹیم کے دلائل کے بخئے ادھیڑ دیئے اورموقف کی دھجیاں اڑا دیں۔

عدالت انصاف جو بھی فیصلہ کرے،اس پر عمل کرنا نہ کرنا فیصلے کی نوعیت پر بھی منحصر ہے،اگر کلبھوشن کی سزائے موت کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اسے مسترد کیا جاسکتاہے بشرطیکہ معاملہ’’طے شدہ‘‘ نہ ہو۔ بہرحال عالمی عدالت نے گھمن گھیریوں کے بجائے جے آئی ٹی بنانے سے گریز کیااور ایک دن میں سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا۔بھارت اپنے وکلاء کی کارکردگی سے مایوس ہے۔انڈین لاء کمیشن نے اپنے کیس کے کمزور ہونے کا اعتراف کیا ہے مگر عالمی سطح پر فیصلے عموماً طاقتوروں کے اشارۂ ابرو پر ہوتے ہیں اور یہ طاقتور بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔پاکستانی قانونی ٹیم کی کیس پر پوری تیاری کے بعد ٹھوس دلائل سے بھارتی ٹیم کے پسینے چھوٹ گئے۔ عالمی عدالت کے پاس اپنی ساکھ کی بحالی کا غیر جانبداری سے فیصلہ دینے کا بہترین موقع ہے ورنہ چار ملک تو اسے کٹھ پتلی قرار دے کر اس سے ناطہ توڑ چکے ہیں ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

 

متعلقہ خبریں