قیام پاکستان میں علامہ اقبال، محمد علی جناح اور چودھری رحمت علی کے کردار کو تاقیامت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ قائداعظم نے اس تصور کو عملی شکل دے دی۔ علامہ کو مصور پاکستان اور قائداعظم کو معمار پاکستان کہا جاتا ہے۔ چودھری رحمت علی نے مسلمانوں کےلئے برصغیر میں علامہ اقبال کی تجویزکردہ الگ مملکت کا نام ”پاکستان“ تجویز کیا۔ علامہ اقبال تو لاہور کی قرارداد سے بھی دو سال قبل دارِفانی سے رخصت ہو گئے جبکہ قائداعظم نے منزل کے حصول کی جدوجہد جار
ی رکھی اور اسے حاصل کر کے دم لیا۔ تاہم یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ علامہ تصور ہی پیش نہ کرتے اور قائداعظم کو بااصرار پاکستان آنے پر قائل نہ کرتے تو نہ قرارداد پاکستان پیش کرنے کا موقع آتا، نہ جدوجہد شروع ہوتی اور نہ ہی پاکستان قائم ہوتا۔ پاکستان کے حصول میں اقبال اور قائد کا کردار لازم و ملزوم ہے۔ یہی دو شخصیات شروع سے آج تک اسلامیان برصغیر کےلئے محبوب ہیں۔ اس محبوبیت میں چودھری رحمت علی کا نام بھی شامل تھا مگر انہوں نے قائداعظم کےخلاف جو زہر اگلا، ان کےخلاف کفر و الحاد کے فتوے دیئے اور کافراعظم تک کہا۔ وہ پاکستانیوں کےلئے محبوب سے معتوب ہو گئے۔ وہ کیمرج برطانیہ میں 1951ءکو فوت ہوئے۔ انہیں 17 دن کے انتظار کے بعد وہیں لاوارث قرار دیکر دفن کر دیا گیا۔ انکی برادری کے لوگ ان کا جسدخاکی پاکستان لا کر دفن کرنے کی بارہا کوشش کر چکے ہیں جو بارآور نہیں ہو سکی۔عوام الناس کا کسی سے محبت اور نفرت کا عمومی معیار قائدین سے نسبت اور وابستگی بھی ہے۔ قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو مادرِ ملت کا خطاب دیا گیا۔ محترمہ کا احترام ہر پاکستانی کی نظروں میں ہے۔ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب کا ساتھ دینے والے آج شرمندہ ہیں مگر مادرِ ملت کے احترام، عزت اور وقار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ قائداعظم نے اپنی بیٹی سے لاتعلقی اختیار کی۔ پاکستانیوں نے بھی ان کی زیادہ پذیرائی نہیں کی تاہم ان سے کبھی نفرت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ان کو بھی احترام اور ادب کی نظر سے دیکھا کیونکہ وہ آخرکار محبوب لیڈر کی بیٹی ہیں۔ قائداعظم کے کے کچھ عزیز رشتہ دار پاکستان میں موجود ہیں ان کی حکومت کی طرف سے معاونت کی جاتی ہے۔ عوام میں بھی اس خاندان کا احترام موجود ہے۔
علامہ اقبال کے خاندان کو پاکستان میں باوقار مقام حاصل ہے۔ یہ خاندان اپنی محنت صلاحیتوں اور قابلیت کی بنا پر ملک کے تعلیم یافتہ اور بڑے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ علامہ کے بیٹے جاوید اقبال اور علامہ کی بہو ناصرہ جاوید اقبال جج رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے پوتے بھی اپنے بل بوتے پر معاشرے میں پروقار اور باعزت مقام رکھتے ہیں۔ یہ خاندان حکومت کی معاونت کا کبھی محتاج اور خواستگار نہیں رہا۔ علامہ اقبال برصغیر کے معروف وکیل اور سیاستدان تھے، وہ پنجاب ہائیکورٹ کے جج ہوتے مگر چیف جسٹس شادی لال کا مسلمانوں سے تعصب سدِراہ ثابت ہوا۔ یہ سب کچھ ظفر علی راجہ کی کتاب ”اقبال قانون دان“ میں موجود ہے۔ علامہ اقبال ایک سیاستدان بھی تھے۔ پاکستان انکی بطور سیاستدان بصیرت کا شاہکار ہے۔ علامہ کے خاندان کا سیاست سے وابستہ ہونا اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس جاوید اقبال نے لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا جس میں بھٹوصاحب جیت گئے مگر جسٹس جاوید اقبال اور انکے خاندان کے بارے میں کبھی تعصب کا اظہار نہیں کیا۔
آج صورتحال بڑی مختلف اور افسوسناک ہے۔
سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے یہ کہہ کر چھاپے اور گرفتاری کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، اقبال ڈے پر چھٹی کے خاتمے کو علامہ کے خاندان کے ساتھ سیاسی معاندانہ اور مخاصمانہ رویہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن خود کو بانیان پاکستان کا جاں نشیں اور اپنی پارٹی کو آل انڈیا مسلم لیگ ہی کا تسلسل قرار دیتی ہے۔ اس پارٹی کے قائدین سمیت پاکستان میں ہر کسی کی عیش و نشاط، اقتدار و اختیار پاکستان ہی کے مرہون ہے۔ عمومی رویوں میں بالعموم اور سیاست میں بالخصوص، برداشت، تحمل، حوصلہ اور بردباری ناگزیر ہے۔ اس کا مظاہرہ نواز لیگ کی قیادت کی طرف سے ہونا چاہئیے۔
عدلیہ پر حملہ ن لیگ کی قیادت پرانمٹ داغ چھوڑ گیا۔ یہ داغ اپنے رویے میں تبدیلی سے مدھم کیا جا سکتا ہے مگر.... ایاز صادق کونا اہل قرار دینے والے ٹربیونل کے جج کاظم ملک کے فیصلے کےخلاف شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ اس میں رانا ثناءاللہ پیش پیش تھے۔ انکے بارے میں کہا گیا کہ ن لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے ایسا فیصلہ دیا۔ اس سے قبل وہ خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے۔ ماڈل ٹاﺅن انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی۔ ان جج پر بھی رانا ثناءاللہ برسے تھے۔ دو روز قبل رانا صاحب نے فرمایا کہ اجلاس سے بھی قبل ”ڈان لیکس“ رپورٹر کے پاس تھی۔ اب وزیراعظم نے اس خبر کی انکوائری کیلئے جسٹس (ر) عامر خان رضا کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس کمیٹی کے ممبران پر بات ہو سکتی ہے تاہم جسٹس عامر نے انکوائری کمیٹی کی سربراہی قبول کر کے خود کو ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے خصوصی طور پر جب رانا ثناءاللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ رپورٹر کے پاس خبر اجلاس سے بھی پہلے موجود تھی۔ اپنی مرضی و منشاءکےخلاف فیصلے آنے پر وہ طوفان مچا دیتے ہیں جس پر بڑے قائدین خاموش رہتے ہیں۔ اب پانامہ لیکس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں وفاقی وزراءسرکاری رہائشگاہوں سے چمچماتی گاڑیوں میں صبح سویرے تشریف لاتے ہیں۔ یہ شریف خاندان کا ذاتی کیس ہے۔ وزراءکی حاضری اور غیر حاضری کیس کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لئے وہ اپنے کام سے کام رکھیں تو حکومت کی نیک نامی ہو گی۔ البتہ ن لیگ کے دیگر قائدین بے شک وقت گزاری کیلئے وہاں جائیں۔ یہ ساری رام لیلا دہرانے کا مقصد حکمران پارٹی کو اپنے رویے پر نظرثانی کی توجہ دلانا ہے جس کے باعث اسکی ساکھ کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اگر معاملات یونہی چلتے رہے اور عدم برداشت کا مظاہرہ جاری رہاتو بعید نہیں اقبال کے خاندان کی مخالف پارٹی کی سرگرمیوں پر اقبال کے مزار ہی کو بادشاہی مسجد کی قربت سے میانی صاحب منتقل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو جدید دور میں ناممکن نہیں ۔مزار کا سائز ایک بڑے درخت کی جڑوں کے پھیلاﺅ جتنا ہی ہے۔ ان درختوں کو بڑی مہارت کے ساتھ ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ سیالکوٹ والے ”اقبال منزل“ کی تزئین و آرائش کا رونا رو رہے ہیں لاہوریوں اور اقبال کے چاہنے والوں کو علامہ کے مزار کی فکر پڑی ہے۔ علامہ کے مزار کی خیر ہو۔
علامہ اقبال کے خاندان کو پاکستان میں باوقار مقام حاصل ہے۔ یہ خاندان اپنی محنت صلاحیتوں اور قابلیت کی بنا پر ملک کے تعلیم یافتہ اور بڑے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ علامہ کے بیٹے جاوید اقبال اور علامہ کی بہو ناصرہ جاوید اقبال جج رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے پوتے بھی اپنے بل بوتے پر معاشرے میں پروقار اور باعزت مقام رکھتے ہیں۔ یہ خاندان حکومت کی معاونت کا کبھی محتاج اور خواستگار نہیں رہا۔ علامہ اقبال برصغیر کے معروف وکیل اور سیاستدان تھے، وہ پنجاب ہائیکورٹ کے جج ہوتے مگر چیف جسٹس شادی لال کا مسلمانوں سے تعصب سدِراہ ثابت ہوا۔ یہ سب کچھ ظفر علی راجہ کی کتاب ”اقبال قانون دان“ میں موجود ہے۔ علامہ اقبال ایک سیاستدان بھی تھے۔ پاکستان انکی بطور سیاستدان بصیرت کا شاہکار ہے۔ علامہ کے خاندان کا سیاست سے وابستہ ہونا اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس جاوید اقبال نے لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا جس میں بھٹوصاحب جیت گئے مگر جسٹس جاوید اقبال اور انکے خاندان کے بارے میں کبھی تعصب کا اظہار نہیں کیا۔
آج صورتحال بڑی مختلف اور افسوسناک ہے۔
سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے یہ کہہ کر چھاپے اور گرفتاری کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، اقبال ڈے پر چھٹی کے خاتمے کو علامہ کے خاندان کے ساتھ سیاسی معاندانہ اور مخاصمانہ رویہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن خود کو بانیان پاکستان کا جاں نشیں اور اپنی پارٹی کو آل انڈیا مسلم لیگ ہی کا تسلسل قرار دیتی ہے۔ اس پارٹی کے قائدین سمیت پاکستان میں ہر کسی کی عیش و نشاط، اقتدار و اختیار پاکستان ہی کے مرہون ہے۔ عمومی رویوں میں بالعموم اور سیاست میں بالخصوص، برداشت، تحمل، حوصلہ اور بردباری ناگزیر ہے۔ اس کا مظاہرہ نواز لیگ کی قیادت کی طرف سے ہونا چاہئیے۔
عدلیہ پر حملہ ن لیگ کی قیادت پرانمٹ داغ چھوڑ گیا۔ یہ داغ اپنے رویے میں تبدیلی سے مدھم کیا جا سکتا ہے مگر.... ایاز صادق کونا اہل قرار دینے والے ٹربیونل کے جج کاظم ملک کے فیصلے کےخلاف شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ اس میں رانا ثناءاللہ پیش پیش تھے۔ انکے بارے میں کہا گیا کہ ن لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے ایسا فیصلہ دیا۔ اس سے قبل وہ خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے۔ ماڈل ٹاﺅن انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی۔ ان جج پر بھی رانا ثناءاللہ برسے تھے۔ دو روز قبل رانا صاحب نے فرمایا کہ اجلاس سے بھی قبل ”ڈان لیکس“ رپورٹر کے پاس تھی۔ اب وزیراعظم نے اس خبر کی انکوائری کیلئے جسٹس (ر) عامر خان رضا کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس کمیٹی کے ممبران پر بات ہو سکتی ہے تاہم جسٹس عامر نے انکوائری کمیٹی کی سربراہی قبول کر کے خود کو ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے خصوصی طور پر جب رانا ثناءاللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ رپورٹر کے پاس خبر اجلاس سے بھی پہلے موجود تھی۔ اپنی مرضی و منشاءکےخلاف فیصلے آنے پر وہ طوفان مچا دیتے ہیں جس پر بڑے قائدین خاموش رہتے ہیں۔ اب پانامہ لیکس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں وفاقی وزراءسرکاری رہائشگاہوں سے چمچماتی گاڑیوں میں صبح سویرے تشریف لاتے ہیں۔ یہ شریف خاندان کا ذاتی کیس ہے۔ وزراءکی حاضری اور غیر حاضری کیس کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لئے وہ اپنے کام سے کام رکھیں تو حکومت کی نیک نامی ہو گی۔ البتہ ن لیگ کے دیگر قائدین بے شک وقت گزاری کیلئے وہاں جائیں۔ یہ ساری رام لیلا دہرانے کا مقصد حکمران پارٹی کو اپنے رویے پر نظرثانی کی توجہ دلانا ہے جس کے باعث اسکی ساکھ کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اگر معاملات یونہی چلتے رہے اور عدم برداشت کا مظاہرہ جاری رہاتو بعید نہیں اقبال کے خاندان کی مخالف پارٹی کی سرگرمیوں پر اقبال کے مزار ہی کو بادشاہی مسجد کی قربت سے میانی صاحب منتقل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو جدید دور میں ناممکن نہیں ۔مزار کا سائز ایک بڑے درخت کی جڑوں کے پھیلاﺅ جتنا ہی ہے۔ ان درختوں کو بڑی مہارت کے ساتھ ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ سیالکوٹ والے ”اقبال منزل“ کی تزئین و آرائش کا رونا رو رہے ہیں لاہوریوں اور اقبال کے چاہنے والوں کو علامہ کے مزار کی فکر پڑی ہے۔ علامہ کے مزار کی خیر ہو۔