نااہلیت،سیاست اور ہائر ایجوکیشن

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف لندن سے لوٹ آئے،احتساب عدالت کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرکے عدلیہ کے سامنے سرجھکا دیا ہے مگرغضبناکی میں فرق نہیں آیا۔این اے 120میں جیت کو جی ٹی روڈ جیسی فتح قرار دے رہے ہیں۔جہاں تین لاکھ میں سے 63ہزار ووٹ ملے،مخالفت میں 64ہزار ووٹ پڑے۔ڈیڑھ لاکھ نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔وہ شاید شہزادہ امبر کے ووٹ تھے جنہوں نے امبرکا بائیکاٹ کردیا۔اگر یہ الیکشن آزادانہ ماحول میں ہوتے،ن لیگ حکومت میں نہ ہوتی تورزلٹ کیسا ہوتا؟لیگی کہتے ہیں فوج نے کالعدم جماعتیں مقابلے میں کھڑی کردیں،ورنہ لیڈ وہی ہوتی جو 2013میں تھی۔2018ءمیں کیا بنے گاجب حکومتی سپورٹ نہیں ہوگی؟جبکہ ادارے اور اداروں کے کرتا دھرتا یہی ہونگے۔فوج نے کچھ کیا ہوتا تو ن لیگ پی پی پی کی جگہ ہوتی۔لبیک یا رسول اللہ کب کالعدم ہوئی؟ ملی مسلم لیگ نے آزاد امیدوار کی سپورٹ کی۔ممتاز قادری کی پھانسی ن لیگ کو بھاری پڑگئی،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔میاںنواز شریف نے لندن سے لوٹ آنے کا درست فیصلہ کیا ورنہ وہ سزا سے تو بچ جاتے ،اب بھی سزا کوئی یقینی نہیں ہے مگروہ بزدلی کا دائمی لیبل ماتھے پر سجا لیتے ۔ان کو مسلم لیگ ن کا صدر برقرار رکھنے کیلئے آئین میں ترمیم عجلت اور بھونڈے انداز میں کی گئی ہے۔اس ترمیم کی رو سے نااہل شخص پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔اس ترمیم سے جگ ہنسائی ہورہی ہے۔پارلیمان اکثریت ہے، نااہلیت کے خاتمے کی قانون سازی ہوسکتی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ میاں نواز شریف چھانگا مانگا سیاست کی طرز پر ہونیوالی ترمیم کے تحت ن لیگ کے صدر بننا پسند کریںگے۔نااہل شخص پارٹی صدر کے لاحقہ کیساتھ وہ سکون سے نہیں رہ پائیں گے۔ سیاست کی طرح دیگر شعبوں میں بھی اہلیت اور نااہلیت کا سوال اٹھتا رہتا ہے،آج ذرا ایجوکیشن کو موضوعِ گفتگو بناتے ہیںاور شروعات ہائر ایجوکیشن سے کرتے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تعریفیں قابل ستائش ہیں کہ بھارت نے ہماری نقل پر ہائر ایجوکیشن کمشن بنایا۔ چیئرمین ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر مختار احمد اپنی جگہ محنتی اور جہاندیدہ آدمی سہی لیکن کیا ان کے ذہن میں یہ ہے کہ پچھلے 3سال میں پلیجرزم میں اضافہ ہی نہیں ہوا دھڑا دھڑ پیپر شائع کرنے کی پاداش بڑی تعداد میں اساتذہ کلاس رومز کی جانب جانا بھول گئے ہیں۔ جاتے ہیں تو ” نیم خواندہ“ استاد کی طرح درس و تدریس کے لئے نیم رضامند دکھائی دیتے ہیں۔ ایک نہیں دس سروے اٹھا کر دیکھ لیں 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں بننے والے ہائر ایجوکیشن کمشن بھی اپنے ایکٹ پر کام کرنے کے لئے گریزاں ہیں یا مشکل کا شکارہیں۔ پنجاب نے صوبائی ایچ ای سی پر عمل کیا۔ کے پی کے واضح کہتا ہے کہ ہم مرکزی ایچ ای سی پر اکتفا کرتے ہیں۔ جرمنی، برطانیہ اور جاپان وغیرہ کی طرح مرکزی ایچ ای سی ہی کافی ہے اور سود مند بھی، صوبائی ایچ ای سی کھچڑی پکا دیں گے اور فائدہ کچھ نہیں ہو گا۔ سندھ والا ایچ ای سی ڈاکٹر عاصم حسین کو سونپا گیا جسے ”پابند سلاسل“ ہی سمجھا جائے۔ بلوچستان کو صوبائی ایچ ای سی کو چلانے کی استطاعت ہی نہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اپنا آپ اور اپنی یونیورسٹیاں ہی سنبھال لیں تو بڑی بات ہے۔
پنجاب ایچ ای سی کی گرفت میں پنجاب کی یونیورسٹیاں ہی نہیں اگرچہ میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس پر شک کرنا آسان نہیں۔ آخری تین کھیپوں کے انٹرویوز میاں شہباز شریف نے خود کئے اور پھر وائس چانسلر لگائے گئے۔ مگر یہ ابتدائی سکروٹنی سرچ کمیٹی اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہوئی۔ اس کھیپ کے کئی وائس چانسلر پنجاب ہائر کمیشن کے سر براہ ڈاکٹر نظام الدین کا فون ہی سن لیں تو بڑی بات ہے۔ ماننا تو دور کی بات ، صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن پر گہری نظر رکھنے والے نوائے وقت کے کالم نویس پروفیسر نعیم مسعود کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر رضا علی گیلانی بڑے متحرک اور تعلیم دوست ہیں لیکن کچھ وائس چانسلر وزیر ہائر ایجوکیشن مسٹر گیلانی کی بھی نہیں سنتے،وہ شاید ان کو قصہ¿ پارینہ بنے ملتانی گیلانی سمجھتے ہیںبلکہ ایکٹ اور اصول کے مطابق صوبائی وزیر پروچانسلر ہوتا ہے مگر یہاں جن گورنر صاحب کو جو چانسلر کی حیثیت رکھتے ہیں کچھ وائس چانسلر بھی کم فہمی کی بدولت انکے اختیارات پر اپنا ہی قبضہ رکھتے ہیں“ یاد رکھئے! کچھ رجسٹرار وہ ہیں جو گھر کے چراغ ہو کر گھروں کو بھی جلا ڈالنے کے در پے ہیں! اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے جب ان دلخراش باتوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ( 1)پنجاب کی آدھی یونیورسٹیاں ریگولر وائس چانسلر سے محتاج ہیں(2) سرگودھا یونیورسٹی ، ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور سمیت کئی یونیورسٹیوں کے رجسٹرار کے کیسز ایچ ای سی کے پاس پڑے ہیں اور کئی کئی سیکرٹری بدل گئے اور اس طرح متعدد یونیورسٹیوں میں قائم مقام رجسٹرار اختیارات کا نا جائز استعمال کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی بحالی اور استحکام کے لئے وزیر تعلیم کو نہیں اپنے باس اور وائس چانسلر کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے وائس چانسلروںکو تو تقویت مل رہی ہے لیکن تعلیم کا قتل عام جاری ہے۔ (3) المیہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان بھر میں اعلیٰ حکام نے تجربہ کیا کہ وائس چانسلر امپورٹ کئے جائیں۔ وہ ناکام ہوئے تو پنجاب کی سرچ کمیٹی نے نابالغ، کم تجربہ کار اور سفارشی لوگوں کو وزیراعلیٰ کی جانب منظوری کے لئے بھیج دیا۔ حال ہی میں میڈیا نے یہ خبریں نشر اور شائع کیں کہ جامعہ سرگودھا کے وائس چانسلر کی تقرری میں گڑ بڑ ہے۔ ایسے اور بھی کیس ہیں جو نا قابل بیان اور نا قابل یقین ہیں!
ہم نہیں کہتے متذکرہ گڑ بڑ واقعی ہے یا نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ جن یونیورسٹیوں میں عدم استحکام اور تعلیم و تربیت کا فقدان پایا جا رہا ہے۔ ان کا جائزہ تو لیا جائے۔ متعدد وائس چانسلرز کے ہاں یہ عام ہے کہ وہ محض اپنی نمبرداری چاہتے ہیں، اپنی مرضی کا ”قانونی و غیرہ قانونی“ رجسٹرار رکھنا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ اصل کام یہ ہوتا ہے وائس چانسلرز ایکٹ کے مطابق پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور اسٹنٹ پروفیسرز ڈیپارٹمنٹس اور فیکلٹیز کو دیں، جو کہ یونیورسٹیوں میں نہیں۔ ناتجربہ کار وائس چانسلر اکثر اوقات سینئرز کو حسد کی آگ میں کھینچ لیتے ہیں یعنی وائس چانسلر فل پروفیسر نہ ہو وہی وائس چانسلر ہر جگہ فل پروفیسرز کو تنگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ حال کے پی کے سے سندھ اور پنجاب سے بلوچستان تک ہے۔ وہ معاملات جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کو نمٹانے چاہئیں تھے یا صوبوں کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کو وہ معاملات اعلیٰ عدلیہ نے نمٹائے۔ کیا وزارتیں ، ڈیپارٹمنٹس ، ڈویژنیں اور حکمران یہ چاہتے ہیں کہ اب عدالتیں از خود نوٹس لے کر میرٹ کے برعکس بھرتی وائس چانسلروں کو فارغ بھی کر دیں؟
عدالتیں تو شاید کر ہی لیں لیکن سرچ کمیٹیوں اور حکومتوں کو چاہئے کہ آئندہ ان وائس چانسلرز کو توسیع اور تقرریاں نہ دیں جو تعلیم سے کھلواڑ کر رہے ہیں اور سارا دن بیٹھ کر پروفیسروں کو مرغوں کی طرح لڑاتے ہیں تا کہ ان کو کوئی چیلنج نہ کرے۔ امتحانی کوالٹی اور ایجوکیشن کوالٹی کے گرافس شرمندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیکن اساتذہ دن رات اوور ٹائم، شام کی کلاسز اور امتحانی ڈیوٹیز کی دلدل میں درس و تدریس کی روح کو خیر باد کہہ چکے ہیں، ملتان کی ایک یونیورسٹی کو دیکھ لیں وہاں وائس چانسلر صاحب توہیں مگر ان کے پاس نہ صحت ہے اور نہ وقت دو سال سے وائس چانسلر کی حاضری 50 فیصد سے کم ہے۔ وزیر تعلیم چھاپے بھی مار چکے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں۔ مالی بد عنوانیوں سے بے راہ روی تک کایونیورٹیوں میں بسیراہے!
وزیراعلیٰ پنجاب ، چیئر مین پاکستان ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر مختار احمد پی ایچ ای سی چیئر مین ڈاکٹر نظام الدین اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب حتیٰ کہ گورنر بحیثیت چانسلر میڈیا کا شور، عوامی تذبذب اور طلبہ و طالبات کی فرسٹریشن کے بعد اپنے قیمتی وقت سے سرگودھا، ملتان، لاہور اور ڈیرہ غازی خان کی یونیورسٹیوں کے لئے وقت نکالیں تو حالات معمول پر آ جائیں گے ورنہ عدالتوں کے رخ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔کئی یونیورسٹیوں میں تعلیم برباد، تربیت نیست و نابود، تحقیق زوال پذیر، اساتدہ کی عزت زیرو اور تعلیم زیرو ہے۔ ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے پنجاب حکومت کے افسران بھی جامعات میں دن رات سیاست سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ متذکرہ جامعات کے سر براہان کو نا اہل قرار دے دیا جائے جو تعلیم اور تعلیمات کو نا اہل بنا رہے ہیں۔ اعلیٰ حکام نوٹس تو لیں ورنہ ہائر ایجوکیشن اور ان یونیورسٹیوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔