اور اب ہوائی دولت

2017 ,دسمبر 13

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



نوائے وقت۔۔۔13-12-2017

ایک بڑی حیران کن خبر چل رہی ہے، ایک انگریز نے اپنے ہاتھوں پونے دو ارب روپے کوڑے میں پھینک دیئے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے: آئی ٹی ورکر جیمز ہوولز نے نئی کرنسی خریدی جس کی پوری تفصیل ، کوڈز اور ای میل ایڈریس لیپ ٹاپ میں تھے۔ لیپ ٹاپ میں کچھ مسئلہ ہوا تو اس نے کرنسی سے متعلقہ ساری تفصیلات ایک یو ایس بی میں محفوظ کرکے ، اسے دراز میں رکھا اور لیپ ٹاپ ٹھیک ہونے کیلئے دیدیا۔جس کی مدد سے وہ بعدازاں بٹ کوائن حاصل کر سکتا تھا۔ مگر گھر کی صفائی کے دوران غلطی سے یہ یو ایس بی جس میں ساری تفصیلات محفوظ کی گئی تھیں، وہ بھی کوڑے میں چلی گئی۔‘‘ ہوولز نے اُس وقت جب 1000 ڈالر کے بٹ کوائن خریدے تھے تو تب ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک ڈالر کے لگ بھگ تھی۔آج ایک بٹ کوائن کی قیمت 17ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اگر وہ آج اپنے ایک ہزار بٹ کوائن کیش کراتا تواسے ایک کروڑ70لاکھ ڈالر مل سکتے تھے جوپاکستانی کرنسی میں پونے دو ارب روپے بنتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ڈالر چار روپے کا تھا آج سو سے کچھ اوپر ہے مگر بٹ کوائن چند سال میں چند سینٹ سے سترہ ہزار ڈالر تک پہنچ گیا،ہے ناں! یہ حیران کن بات! یہ سن کر جستجو ہوئی کہ دیکھیں یہ بٹ کوائن کیا بلا ہے جو اتنی زقند بھر رہی ہے۔ 

بٹ کوائن ڈیجیٹل کرنسی ہے،اسے کاغذی دولت نہیں، ہوائی دولت کہاجاسکتا ہے کاغذی نوٹ کا تو کوئی وجود ہے مگر یہ لاوجود ہے۔ تھوڑی دیر رک کر یہاں پہلے ذرا کاغذی دولت کی بات کرلیتے ہیں۔

اپریل 1933ء کو امریکی حکومت نے ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کے لیے سونے کے سکے ،ان کی خام شکل اور سونے کے سرٹیفیکیٹ رکھنا جرم قرار دیا گیا ۔حکم جاری کیا کہ ایک خاص وقت تک یہ سکے کسی کے پاس نظر آئے تو اس کو دس ہزار ڈالر کا جرمانہ یا چھ مہینے کی قید کی سزاہوگی۔ ان سکوں اور سرٹیفکیٹس کے عوض فیڈرل ریزرو بینک نے کاغذ کے ڈالر جاری کر دئیے اور ایک اونس سونے کے عوض 20 ڈالر کا نوٹ دیا جانے لگا۔اکثر عوام نے سونے کے سکوں کو ڈالرز میں تبدیل کرا لیا۔ کچھ سمجھ بوجھ رکھنے والوں نے سونے کو تبدیل کرانے کے بجائے مزید سونا خریدااور سوئس بنکوں میں جمع کرا دیا۔ اسی سال برطانیہ نے بھی سونے کو تجارتی مقاصد کے استعمال سے روک دیا۔ جب امریکہ میں سونا کاغذی کرنسی میں تبدیل ہوگیا تو جنوری 1934ء میں حکومت نے ڈالر کی قیمت میں 41 فیصد کمی کر دی، اسکے ساتھ ہی سونا رکھنے کے امتناع کا قانون ختم کر دیا۔ اب لوگ پھر نوٹوں کو سونے میں تبدیل کرانے کیلئے دوڑے مگر اب فی اونس سونے کی قیمت 20سے 35 ڈالر ہو گئی تھی۔ ایک جھٹکے سے عوام کی 41 فیصد دولت لوٹ لی گئی۔

اندرون یا بیرون ملک سفر کے دوران کرنسی ساتھ لیکر چلنے کے بجائے سہولت اور سیکورٹی کے پیش نظر پلاسٹک منی متعارف کرائی گئی جس کی مثال کریڈٹ کارڈز ہیں۔ جن کا کوڈ صرف کارڈ ہولڈر کے علم میں ہوتا ہے، اسکے باوجود کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات چوری ہورہی ہیں۔ ادائیگیوں اور پے منٹ کا آج یہ آسان ترین سسٹم ہے، مگر اتنا قابل بھروسا نہیں۔ انہی مشکلات کے پیش نظر اور کرنسیوں کی قدر میں اتار چڑھائو کے رسک کو کم کرنے کیلئے جاپان کے ستوشی نکوموتو نے اکتوبر 2008ء میں ایک سوفٹ ویئربلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کی پہلی ڈیجیٹل الیکٹرونک کرنسی ’’بٹ کوائن ‘‘ متعارف کرائی جو 3 جنوری 2009ء سے آن لائن ہوئی۔

بٹ کوائن کرنسی کا دیگر رائج کرنسیوں مثلا ڈالر اور یورو سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، لیکن رائج کرنسیوں اور بٹ کوائن میں کچھ فرق ہے۔سب سے اہم فرق یہ ہے کہ بٹ کوائن مکمل طور پر ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جس کا وجود محض انٹرنیٹ تک محدود ہے، خارجی طور پر اس کا کوئی وجود نہیں یعنی بٹ کوائن کوئی سکہ یا نوٹ نہیں ہے۔ اس کرنسی کو ایک شخص براہ راست دوسرے شخص کو منتقل کرسکتا ہے، اس کے لیے کسی بینک یا حکومتی ادارہ کی ضرورت نہیں۔ تاہم انٹرنیٹ کے ذریعہ بٹ کوائن کو دیگر رائج کرنسیوں کی طرح ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ٹریڈنگ کیلئے ضروری نہیں آپ ایک یا ایک سے زیادہ بِٹ کوائن خریدیں۔آپ کے پاس جتنی رقم ہے اس سے اتنی مالیت کے بٹ کوائن کا حصہ خریدا جاسکتا ہے۔ بٹ کوائن کی طرح اور کوائن بھی ہیں جن کی مالیت مختلف ہے۔ایک رپل کوائن ہے یہ تیس پیسے دستیاب ہے۔

جولائی 2017 کی ابتدا میں امریکی کمیوڈیٹی فیوچر ٹریڈنگ کمیشن نے بٹ کوائن کی آپشن ٹریڈنگ کی اجازت دیدی ہے۔ جب انڈیا کی حکومت نے بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ منسوخ کر دیے تو کرپٹو کرنسی کی مانگ میں یکدم زبردست اضافہ ہوا۔ بٹ کوائن کی قیمت ایک ہفتے میں 30 فیصد گر چکی تھی لیکن بھارتی حکومت نے اسے قانونی کرنسی تسلیم کر کے اس کی قیمت 33 فیصد بڑھا دی۔

اس کرنسی میں کسی بینک کی مداخلت نہیں ہوتی، اسی وجہ سے بٹ کوائن دنیا میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ فروری 2015ء تک ایک لاکھ سے زیادہ تاجروں نے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی کیمبرج یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہوائی کرنسی اتنی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے کہ آج 30لاکھ تاجر بٹ کوائنز استعمال کررہے ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں 16 ملین بٹ کوائنز گردش کررہے ہیں جس کی مارکیٹ ویلیو 315 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ بٹ کوائن کی ویلیو کا انحصار سرمایہ کاروں کی سپلائی اور ڈیمانڈ پر ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک صبح جب آپ اٹھیں تو17 لاکھ روپے میں خریدے گئے بٹ کوائن کی قیمت نصف رہ جائے۔

کوئی بعید نہیں کہ بٹ کوائن مستقبل میں دنیا کی ڈیجیٹل کرنسی بن جائے جس کی کوئی سرحد نہیں اور نہ ہی اس پر بینکوں کے ضابطوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پابندیوں کے زمرے میں بٹ کوائن کی سرمایہ کاری اور اکائونٹس کو منجمد نہیں کیا جا سکتا۔

بٹ کوائن اور اسی قسم کے دیگر کوائن سرمایہ کاری کے لئے پُر کشش ہیں،یہ آن لائن سرمایہ کاری ہے اس میں کوئی بہت بڑا رسک اور بڑی رقم کی ضرورت بھی نہیں ہے۔آپ پانچ سوروپے میں کوئی کوائن یا اس کا حصہ خرید کر سرمایہ کار بن سکتے ہیں۔آج رپل کوائن کی قیمت 30 پیسے ہے،یہ پانچ سو میں پندرہ ہزار آجائیں گے۔تھوڑا انٹر نیٹ سے آگاہ ہونا ہوگا۔ قسمت نے یاوری کی تو بٹ کوائن کی طرح اس کا ریٹ بھی چڑھا اور ایک رپل سترہ ہزار کا نہیں دس ہزار ڈالر کا بھی چند سال میں ہوا تو آپ کے پانچ سو روپے پندرہ لاکھ روپے بن سکتے ہیں تاہم بڑے سرمایہ کار سوچ سمجھ کر ہوائی کرنسی کاکاروبار کریں۔کسی ماہر سے مشورہ ضرور کرلیں۔یہ یاد رکھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کاموں میں ایک کام رشتہ داروں اور قریبی تعلق داروںکا خوشی ہضم کرنا ہے، بہت کم بہت ہی کم ایسے ہونگے جو آپ کی خوشی میں دل کی گہرائی سے خوش اور شامل ہونگے۔چنانچہ مبنی برخلوص مشورے کیلئے کسی مخلص ماہر کا ملنا بھی کارے دارد ہے۔ مگر ایسے لوگ موجود ضرور ہیں۔ ؎

تو ڈھونڈ انہیں چراغِ رخِ زیبا لے کر

سلیم بٹ لاہور میں نیشنل بنک کی ایک برانچ کے منیجر تھے۔ ان دنوں چودھری اشرف تربیلا ڈیم کے سی ای او کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے پنشن او رگریجوایٹی وغیرہ بنک میں جمع کرا دئیے۔ چند دن بعد ایک فنانس کمپنی کا منیجر چودھری صاحب سے 25 لاکھ کا چیک لے کر کیش کرانے آ گیا۔ بٹ صاحب نے اس منیجر کو رقم دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر چودھری صاحب اشتعال میں بنک چلے آئے۔ انہوں نے غصے سے آکر کہا چیک ابھی کیش کرو۔ سلیم بٹ کہتے ہیں: میں نے انہیں سمجھایا کہ 23 فیصد منافع تو ہیروئن کے کاروبار میں بھی نہیں ہو سکتا۔ فنانس کمپنی والے کیسے اتنا دے سکتے ہیں۔ یہ فراڈ کریں گے مگر چودھری صاحب نہ مانے۔ میں نے کہا اگر آپ 25 لاکھ کے سیونگ سرٹیفکیٹ وغیرہ لینا چاہیں یا کسی بھی بنک کی سکیم میں انوسٹ کرنا چاہیں تو ابھی پیسے لے لیں۔ فنانس والوں کے لئے نہیں دوں گا۔ انہوں نے سخت سست کہا بنک کے ہیڈ سے شکایت کرنے کی دھمکی دی مگر میں نے انکار کر دیا۔ اس میں ان کی بھلائی تھی۔ چوتھے روز وہ مٹھائی کے ساتھ آئے اور گلے لگاتے ہوئے کہا میں بچ گیا۔ فنانس کا فراڈ سامنے آ چکا ہے۔ فنانس کے متاثرین 1980ء سے ابھی تک کلیم لئے پھرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں