احتساب ۔۔۔اب نہیں تو کبھی نہیں

2017 ,جولائی 23



 

آج بھی پاک فوج کو پاکستان کے منظم اور طاقتور ترین ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔اس کا ہمیشہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اندرونی سیاست میںعمل دخل رہا ہے، کبھی کم کبھی زیادہ۔جنرل راحیل کا عمل دخل کچھ زیادہ ہی نظر آتا تھاوہ وزیر اعظم کیساتھ کسی میٹنگ میں ہوتے توانکی کرسی وزیراعظم کے برابر لگائی جاتی۔ وزیراعظم نواز شریف کو جنرل باجوہ کی ذات میں وہ سب کچھ نظر آیا جو انکے لئے کسی آئیڈیل فوجی سربراہ میں ہوسکتا ہے۔عمومی تاثر ہے کہ عدلیہ اور بیوروکریٹ میاں نواز شریف کی مُٹھی میں رہے ہیں۔ جنرل باجوہ کے آرمی چیف بنائے جانے سے یہ بھی کہا جانے لگا کہ فوج بھی اب انکی مُٹھی میں آگئی ہے۔مسلم لیگی حلقے اور مراعات یافتہ صحافتی اکابرین ن لیگ کے دور کو 2029ء تک محیط ہونے کی پیشگوئیاں کررہے تھے۔مگرپاکستان کی سیاست سیماب پاہے اس میں ٹھہرائو نہیں پالیسیاں سو برس کی، پل کی خبر نہیں۔

جنرل باجوہ تین جرنیلوں کو سپر سیڈ کرکے آرمی چیف بنائے گئے،وہ اس احسان پر ممنون ہیں۔ڈان لیکس کی رپورٹ چودھری نثار چند دن میں قوم کے سامنے پیش کرنے کے دعوے کرتے رہے۔اول تو وہ بڑی تاخیر سے مرتب ہوئی جب مرتب ہوئی تو اسے جاری نہیں کیا گیا جبکہ ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جس پر فوجی ترجمان نے غیر فوجی زبان استعمال کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔یقینا یہ جنرل باجوہ کی مرضی کے بغیر نہیں کہا جاسکتاتھا۔وزیراعظم نے نوٹس لیا، جنرل باجوہ نے ان سے ملاقات کی جس میں فوجی ترجمان کے الفاظ واپس لینے پر اتفاق ہوا جسے لیگی حلقے جرنیلوں کی وزیراعظم سے معافی سے تعبیر کرتے ہیں۔اس دوران فوج اور حکومت کے درمیان کشیدگی کا کوئی تاثر تھا بھی تو وہ دور ہوچکا تھا۔اب پاناما کیس آخری مراحل میں ہے،اسی ہفتے فیصلہ آسکتا ہے۔جس طرح جے آئی ٹی نے حکومتی خاندان سے تفتیش ،انکے کیخلاف دستاویزات جمع کیں اور وہ کسی حکومتی دبائو میں نہیں آئی ،اسے اگر لوگ کرشمہ سمجھیں تو غلط نہیں ہے۔وزیر اعظم سمیت وزراء لیگی حلقے اور انکے حامی جے آئی ٹی کی خلاف جوزباں پر آرہا ہے کہہ رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی کا احتساب کوئی نہیں مانے گا۔کیپٹن صفدر نے توزیادہ ہی اشتعال میں آکر کہا تھا۔’’جے آئی ٹی والوں کو کوڑھ ہوگا، پاکستان کے لوگ جہاد کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں‘‘۔کوڑھ میں خدا دشمن کو بھی مبتلا نہ کرے۔جہاد کس کے خلاف؟

یہ تو لیگی کہہ رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے پیچھے کوئی اور ہے۔ان کو جے آئی ٹی کے کرشمے کے پیچھے فوج اور عدلیہ نظر آتی ہے،جس کا اظہار ان کے رہنمائوں کی طرف سے کھلے اور دھمکی آمیز الفاظ میں کیا جاتا رہا ہے۔بادیٔ النظر میں جے آئی ٹی کو کسی قوت نے ایمانداری سے کام کرنے پر ان کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی اور شاید تعاون بھی کیا تو جے آئی ٹی کے ممبر شیر بن گئے اورجو عرف عام میں شیروں ہیں ان کو میائوں میائوں کرنے پر مجبور کردیا۔یہ قوت جو بھی ہے جنرل باجوہ یا کسی اور جنرل کو اس کا سرپرست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جنرل باجوہ تو حکومت کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن جنرل پاشا کے پیچھے پڑی تو اسے ہٹا کے دم لیا، جنرل ظہیرعباسی پر ایک میڈیا گروپ نے اقدام قتل جیسا الزام لگایا تو وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ حکومت غلیل(فوج) کیساتھ نہیں دلیل کیساتھ ہے۔جے آئی ٹی کے پیچھے کوئی فوجی ہوتا تو لیگی اس کانام لیکرکہرام برپا کردیتے۔مگر پاکستان میں فوج سے زیادہ کوئی طاقتور بھی نہیں جوجے آئی ٹی کی اس طرح مدد کرے کہ لوگ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو کرشمہ کہنے پر مجبور ہو جائیں۔ فوج ایک منظم اور مضبوط ادارہ ہے، آرمی چیف فوج کا طاقتور ترین فرد اور اسکی ہاں فوج کی ہاں اور ناں فوج کی ناں ہے۔ کورکمانڈر اسکے سامنے دم نہیں مارسکتے۔ مگرناکام ترین فوجی سربراہ وہ ہوسکتا ہے جس کا اپنی فوج کی نبض پر ہاتھ نہ ہو،جو اسکے احسات اورجذبات سے آگاہ نہ ہو۔ جنرل ضیاء الحق کے پاس فوجی نکتۂ نظر سے مارشل لاء لگانے کے سوا چارۂ کار نہیں تھا۔بھٹو کے حکم پر پی این اے کے جلوسوں پر فائرنگ کے حکم کے بعد تین بریگیڈیئرز نے استعفے دے دیئے تھے۔ترکی میں جونیئر افسروں کی بغاوت اس وقت ناکام ہوئی جب دوچارہاتھ لبِ بام رہ گیا تھا۔ایئر فورس کے باغی پائلٹوں نے طیب اردگان کے طیارے کا گھیرائوکرلیا تھامگر اردگان کے جہاز کے پائلٹ کی ذہانت سے گیم اوور ہوگئی،اس نے کہا کہ یہ مسافر طیارہ ہے۔ میاں نواز شریف کی کرپشن کے بارے میں سامنے آنے یا لائی جانیوالی کرپشن کی داستانوں سے فوج میں بھی یقینا چہ میگوئیاں ہوتی ہیں ۔نواز شریف کوکچھ حلقے بھارت نوازقرار دیتے ہیں۔ مودی سے دوستی،جندل سے ملاقاتیں اورانتہائی کشیدگی کے باوجود دشمن کیساتھ تجارت وہ بھی خسارے کی، کلبھوشن کے معاملے میں خاموشی ،ایسے معاملات کو نواز مخالف حلقے انکے خلاف استعمال کرتے ہیںجس سے فوج کے اندر بھی بے چینی کا پایا جانا فطری امر ہے۔جنرل باجوہ ان چیزوں کو اگر نہیں سمجھتے تو ان کا فوج کی نبض پر ہاتھ نہیں ہے اگر فوج کے احساسات اور جذبات کو سمجھتے ہیں توجے آئی ٹی کیساتھ جس نے بھی تعاون کیا اس کو ناروا نہیں گردانا۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ کبھی جھکے ہیں نہ انہوں نے کبھی کمپرومائز کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ خان کہتے ہیں کہ فیصلہ خلاف آیاتو عوامی عدالت جائینگے۔ صدر اسحٰق خان نے میاں صاحب کی حکومت توڑی تو میاں صاحب نے لانگ مارچ کیا،انکی حکومت سپریم کورٹ نے بحال کردی مگر انہوں نے پھر استعفیٰ دیدیا جنرل مشرف نے آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے عرصۂ حیات تنگ کردیا تو میاں صاحب جدہ چلے گئے۔مگر کمپرومائز نہیں کیا!

سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے والا ہے جس سے لیگی حلقے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔بیانات خود شکستگی کے غماز ہیں،ہم گئے تو وہ بھی۔۔ وزیرِاعظم کی قانونی ٹیم کا کہنا کہ نااہلی کا بہت کم امکان ہے۔یہ حکومت کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کا واضح تاثر ہے۔ قانونی ٹیم کو نااہلی کا امکان نظرہی کیوں آیا؟اہلیت اور نااہلیت پر بحث ہورہی ہے۔جے آئی ٹی کیوں بنی؟دو ججوں نے وزیراعظم کو صادق اور امین نہ قراردیتے ہوئے نااہل قرار دیاجبکہ موجودہ بنچ کے تین ججوں نے اہلیت اور نااہلیت کے نتیجے پر پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی سے تفتیش کرنے کی تجویز دی یہی فیصلہ قرار پایا۔اب جے آئی ٹی کی تحقیقات سامنے آچکی ہے جس کی بنیاد پراہلیت نااہلیت کا فیصلہ ہونا ہے۔مزید تحقیقات کیلئے بھی سپریم کورٹ کہہ سکتی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی کی تفتیش پر اظہار اطمینان اورارکان کی تعریف کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اگر میاں صاحب کی نااہلی کا فیصلہ آتاہے تو مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھرنے کو روکنا ممکن نہیں۔میاں صاحب پارٹی سے کسی وفادار کو اپنا متبادل نامزد کرسکتے ہیں،یہ ان کا آخری اختیار ہوگا جو استعمال کرینگے۔اسکے بعد اختیارات سے تہی دست ہونگے۔ن لیگ میں بھانت بھانت کا کنبہ اقتدار کے گرد جس تیزی سے جمع ہوا اسی تیزی سے بکھر کر کہیں اور اپنے آشیاں بنالے گا۔فارورڈ بلاک ابھی سے سر اٹھارہے ہیں ان میں سے کوئی اپنا وزیراعظم لاسکتاہے۔نواز شریف کے متبادل وزیراعظم کا تعلق ن لیگ سے ہوگامگرہوسکتا ہے وہ لیگی ،تابع کسی اور کا ہو۔یہ پاکستان ہے جہاں سیاست میں ایسا ہی ہوتارہا ہے۔ممنون حسین نے ڈیڑھ سال پہلے پانامالیکس کو پاکستان کیلئے معجزہ اوراللہ کی رحمت قراردیا تھاانہوں نے کہا تھاکہ ایک ایک کرکے سب کا احتساب ہوگا۔انہوں نے کل پھر وزراء کوخبردار کیا ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا ہے،انتظار کریں۔یہ آج تک تو ن لیگ کے ساتھی صدر ہیں۔،کل دیکھیں کیا ہوتاہے۔بہرحال وہ اس قوت کے ساتھ ہیں جو پاکستان میں شفاف احتساب کیلئے سرگرم اورجے آئی ٹی کی پشت پر ہے۔کچھ روز قبل صدر نے یہ بھی کہا۔’’پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو شخص جتنا کرپٹ اور بدعنوان ہوگا وہی لمبی لمبی تقریریں کرتا پھرے گا، ان لوگوں کو کوئی شرم ہوتی ہے نہ کوئی حیا، تمام اداروں کے اندر افسران کو کرپشن اور حرام خوری کی عادت ہوچکی ہے۔‘‘اب لگتا ہے بے لاگ احتساب کی شروعات ہونے کو ہیں۔اس کے کوئی بھی بچتا نظر نہیں آتا۔اگر اب بھی احتساب نہ ہوسکا تو پھر کبھی ایسا ماحول بنے گا نہ احتساب ہوسکے گا۔اگر کبھی احتساب ہواتو امکانی طور پر خونیں انقلاب سے ہوگا۔

 

متعلقہ خبریں