علی بدر کی باتیں اور ضیاء شاہد کے مشاہدات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 29, 2017 | 13:46 شام

ہال کی تمام نشستیں پر ہو چکی تھیں۔ کچھ لوگ کھڑے تھے۔ نوائے وقت کے پرانے آفس کے وسیع و کشادہ مجید نظامی ہال کافُل ہو جانا مہمان کی مقبولیت کا اظہار تھا۔ مہمان نے اپنی تقریر میں منہ زور بیورو کریسی اور اس کو لائن پر لانے کی بات کی۔ ان کا تعلق اندرون لاہور سے رہا ہے۔ بینظیر بھٹو نے انہیں وزیر پٹرولیم بنایا تو انکے حلقے میں خصوصی طور پر ووٹرز نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ کوئلہ لکڑیاں اور تیل جلاتے یہ لوگ تنگ آ چکے تھے۔ حلقے کا ایم این اے وزیر بن جائے تو اور کیا چاہیے، وہ بھی گیس کے محکمے کا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے وزارت کے سیکرٹری کو بلایا، اسے اپنے علاقے میں گیس پہنچانے کو کہا تو جواب سن کر حیران رہ گئے۔’’گلیاں تنگ ہیں قانون اجازت نہیں دیتا‘‘ وزیر نے چند ثانیے سوچا اور پھر گویا ہوئے۔’’ سیکرٹری صاحب اس علاقے میں گیس جائیگی یا پھر آپ گھر جائینگے‘‘۔ اگلے دن تنگ گلیوں میںگیس کی فراہمی پر کام شروع ہو گیا۔ یہ وزیر جہانگیر بدر تھے۔ جو چند ماہ قبل انتقال کر گئے۔ ڈیڑھ دو سال قبل انکی صحت قابل رشک تھی۔ مگر ایک سینئر ڈاکٹر کی غفلت و لاپرواہی سے وہ بستر سے جا لگے اور پھر مسافر راہی عدم ہو گئے۔

دو روز قبل جہانگیر بدر کے صاحبزادے علی بدر نے اپنے اور جہانگیر بدر سے تعلق والے صحافیوں کو ناشتے پر مدعو کر رکھا تھا۔ میں قیوم نظامی صاحب کے ساتھ عین وقت پر دس بجے انکی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ علی بدر ہمارے ساتھ آبیٹھے۔ انہوں نے بتایا کہ انکے والد کو یورین انفکشن تھا۔ ڈاکٹر نے تشخیص درست کی مگر میڈیسن غلط دیدی جس سے انفیکشن بڑھتا گیا اور گردے متاثر ہونے لگے۔ ڈاکٹر نے کھانے پینے سے منع کردیا تھا جس سے وزن دس دنوں میں پندرہ کلو کم ہو گیا مگر وہ ہمارے اوپر کمزوری ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ ایک دن گرے تو میں نے سہارا دے کر کھڑا کیااورفوری طور پر ہسپتال لے گیا۔اس وقت تک گردے شدید متاثر ہو چکے تھے۔ ہم نے ٹراسپلانٹ کرا دیا۔ 6 ماہ تک ڈائیلاسز کرواتے رہے۔ ان کو دل کا کبھی مسئلہ نہیں رہا تھا۔ ہسپتال ہی میں تھے کہ ایک اٹیک، دوسرا اٹیک اور پھر تیسرا اٹیک ہوا جو جاں لیوا تھا۔ علی بدر کا شمار معروف وکلا میں ہوتا ہے وہ غلط میڈیسن دینے پر نالاں تھے تاہم کسی قانونی کارروائی سے گریز کیا۔ علی بدر بتا رہے تھے کہ والد صاحب کے دوستوں نے بڑی ڈھارس بندھائی۔ قیوم نظامی نے پوچھا۔ ’’زرداری صاحب خود آئے یا فون کیا‘‘۔

’’زرداری صاحب خود آئے نہ فون کیا البتہ بلاول دو مرتبہ تشریف لائے‘‘۔ علی بدر سیاست میں پوری طرح اِن اور فعال ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ہمارے رگ و جاں میں ہے۔ ہم ہی تو پیپلز پارٹی ہیں۔علی بدر کے پارٹی کیلئے جذبات اپنی جگہ مگر بادیٔ النظر میں پیپلز پارٹی کی ساکھ اس قدر تباہ ہو چکی ہے کہ کم از کم 2018ء کے الیکشن میں وہ بحال ہوتی نظر نہیںآتی۔ اسکی سندھ میں بچی کھچی مقبولیت بھی لیڈر شپ کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ کے باعث دائو پر لگی نظر آتی ہے۔ اسی ٹیبل پر ایک لیڈر نے کہا کہ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو لاہور سے فیصل آباد ریلی پر مبارک باد دی تو بلاول نے کہا۔’’ یہ ریلی انکی توقعات کے مطابق نہیں تھی، پنجاب میں ابھی بہت کام ہونیوالا ہے‘‘۔گواس بزم میں باتیں سیاست کی ہو رہی تھیں مگر ماحول رنجیدہ اور سنجیدہ تھا۔ اسی دوران جناب ضیاء شاہد گاڑی سے اترے تو ہم لوگ رسیو کرنے لپکے۔ باقی نشست ضیاء صاحب کے ساتھ ہوئی۔

صدر فاروق احمد خان لغاری کا تذکرہ ہوا تو ضیاء شاہد مہران سکینڈل کے حوالے سے اپنی یادداشتیں دہرانے لگے۔ جناب نے بلا کا حافظہ پایا ہے۔ واقعہ اس طرح بیان کر رہے تھے جیسے یہ آج انکے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے اور وہ اس پر کمنٹری کر رہے ہیں۔ منفرد طرزِ تحریر کی طرح ضیاء صاحب کا طرزِ سخن لاثانی اور عمومی گفتگو پُر معانی ہوتی ہے۔ 1994ء میں بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں فاروق لغاری صدر، میاں نواز شریف اپوزیشن لیڈر تھے۔ ان دنوں فاروق لغاری کے ڈیرہ غازی خان میں زرعی فارم کی فروخت کے چرچے تھے جو ان دنوں مبینہ طورپر دو کروڑ میں فروخت ہوا۔ نواز شریف میڈیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ فاروق لغاری نے انکے بقول کوڑیوں کی زمین کروڑوں میں بیچی۔ ضیاء شاہد کہتے ہیں ان زمینوں پر لے جانے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں نے پوچھا میاں صاحب جائینگے؟ ذوالفقار خان کھوسہ کا جواب تھا۔ میں انکی حفاظت کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ میںنے کہا پھر ہم بھی نہیں جاتے، رپورٹر بھیج دینگے۔ اس پر نواز شریف نے خود بھی جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم جس وین میں تھے اس میں اعجاز الحق، شیخ رشید، چودھری شجاعت، مشاہد حسین اور کچھ دیگر بھی تھے۔ ملتان سے آگے گئے تو اچانک گاڑیاں رک گئیں۔کلاشنکوف اُٹھائے انعام اللہ نیازی، بھاگے بھاگے آئے۔ کہا فائرنگ ہو گئی، اسکے ساتھ ہی کہا میاں صاحب یہ لوگ میری لاش سے گزر کر ہی آپ تک پہنچیں گے۔ اسکے ساتھ ہی وہ تھوڑا آگے گئے، کلاشنکوف سے فائرنگ کی، آ کر بتایا‘ بھاگ گئے سالے۔ میاں صاحب بڑے خوش ہوئے۔ میں نے کہا یہاں کسی نے کیوں فائرنگ کرنی تھی،پوری دنیا کا میڈیا، اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم ساتھ ہیں، لغاری پاگل ہے جو سب کو مروادیگا۔ اسی نے فائرنگ کی ہو گی۔ میاں صاحب بولے یہ ہمارا جاںنثار ہے۔ اگلے روز انعام اللہ نیازی کو اس جاں نثاری پر پنجاب مسلم لیگ ن کا نائب صدر بنا دیا گیا۔

راجن پور سے پہلے گاڑیاں بھی رک گئیں۔ اب جاوید ہاشمی نے سوچا میں کیوں پیچھے رہ گیا ہوں۔ وہ اپنی گاڑی سے اترے ،آکر بتایا کہ ریلوے پھاٹک کو تالا لگا دیا گیا ہے۔ میں ابھی کھلواتا ہوں۔ جاکر گیٹ کیپر کو دھمکایا۔’’ میں دو منٹ دیتا ہوں۔ اگر تالا نہ کھولا تو برسٹ مار کر کھول دینگے‘‘۔ معمولی سا تالا تھا جو بیچارے گیٹ کیپر نے کھول دیا۔ انہوں نے پھر آ کر کہا میاں صاحب، آپ پر جان بھی قربان ہے۔ میں نے گیٹ کھلوا دیا ہے۔ پھاٹک قافلہ روکنے کیلئے نہیں گاڑی آنیوالی تھی، اس لئے بند تھا۔ چالیس گاڑیاں تھیں۔ میاں صاحب کوباورکرایا، گاڑی آنیوالی ہے، زبردستی پھاٹک کھلوا کر گزرنا پاگل پن ہے۔ اس پر رکنے کا فیصلہ کیا گیا، چند منٹ میں گاڑی آئی اور گزر گئی۔ جاوید ہاشمی کو بھی میاں صاحب نے جاں نثار کا لقب دیا۔ اس دورے میں ذوالفقار کھوسہ جین پہنے، سر پر ہیٹ رکھے کائو بوائے بنے ہوئے تھے۔ ہم سب لوگ بیٹھ گئے جبکہ کھوسہ صاحب نواز شریف کے سامنے کھڑے تھے۔ ان کو بیٹھنے کو کہا تو گویا ہوئے۔’’ یہ میرا علاقہ ہے۔ میاں صاحب کی میں جان پر کھیل کر حفاظت کروں گا۔ انکے سامنے کھڑا رہوں گا تاکہ کوئی گولی آئے تو پہلے مجھے لگے۔

اب وہ ناقص زمین دکھانے کا مرحلہ تھا۔ کھوسہ صاحب نے نشاندہی کیلئے پٹواری کو بلا رکھا تھا۔ وہ وہاں آیا ہی نہیں تو کہا آگے چلتے ہیں۔ مین روڈ پر جو ناقص زمین ہو گی وہی فاروق لغاری نے بیچی ہے۔ دو تین کلو میٹر بعد سیم زدہ متعدد کھیت نظر آئے تو گاڑیاں رکوالی گئیں، کھوسہ نے کہا یہی وہ زمین ہے۔ ہمارے خبریں کے رپورٹر مظہر جاوید بھی نشاندہی کر رہے تھے۔ مقامی و عالمی میڈیا ویڈیو اور تصاویر بنا رہا تھا۔ اگلے روز پوری دنیا میں فاروق لغاری کا توا لگ گیا۔فاروق لغاری نے چند روز بعد مجھے فون کر کے اپنے آبائی گھر میں ناشتہ کرنے کی دعوت دی۔ وہ مجھے اپنی وہ اراضی دکھانا چاہتے تھے جس کا بڑا شور تھا۔ میں ڈیرہ غازی خاں پہنچا۔ وہ مجھے اصل لوکیشن پر لے گئے جو مین روڈ پر نہیں ایک ذیلی سڑک پر تھی اور جس کی نشاندہی کھوسہ اور ہمارے رپورٹر نے کی تھی اس سے اڑھائی تین کلو میٹر دور تھی۔

پنجابی کے فروغ کیلئے کام کرنیوالے مسعود کھدر پوش نے ایک بار کہا آئو چیف جسٹس ہائیکورٹ انوار الحق سے ملتے ہیں۔ ہم پیدل چل پڑے۔ مسعود صاحب گلبرگ سے پیدل کورٹ تک آ جاتے تھے۔ ہائی کورٹ کے گیٹ پر تالا لگا تھا۔ انہوں نے عملے سے کہا انوار الحق نوں دسو تیرا چاچا آیا اے۔ انہوں نے گیٹ کھول دیا اس دوران سامنے ریڑھی والے سے مسعود صاحب نے مولیاں خریدیں دو خود پکڑیں چار پانچ مجھے پکڑا دیں۔ میں نے کہا چیف جسٹس سے ملنا ہے اور یہ مولیاں۔ ان کا کہنا تھا مولیاں دا چیف جسٹس نال کی تعلق۔ اس دوران چیف جسٹس بھی آ گئے بڑے احترام سے ملے۔ مسعود صاحب نے کہا‘ ’’لے انور مولی کھا۔‘‘ انوار الحق بولے آپ کا بہت شکریہ۔ اس پر مسعود نے کہا انوار تو جالندھر وچ پیدا ہویا تے توں اردو بول رہا ایں۔ پنجابی تیری ماں بولی اے۔ تو چیف جسٹس بن گیا ایں ایہدا اے مطلب نئیں تو مولی نہ کھاویں۔ لے پھڑ کھا مولی اس پر جسٹس انوار الحق نے بہرحال چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر کھا لیا۔