مقام مصطفیﷺ ،سیرت۔۔۔بصیرت

2017 ,اکتوبر 8



آقا ئے نامدار کی بعثت سے ایک ہزار سال قبل یمن کا بادشاہ تُبع حمیری سیاحت پرنکلا۔ بارہ ہزار علما وحکماءایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ ساتھ تھے۔ جہاں بھی پہنچتا خلق ِخدا نظارہ کو جمع ہو جاتی۔ بادشاہ مکہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا، اپنے وزیر اعظم سے اسکی وجہ پوچھی۔اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں۔ لوگ اسکی بے حد تعظیم کرتے ہیں۔دوردراز سے لوگ زیارت کو آتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا ۔ یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے بدبودارخون بہنا شروع ہو گیاکہ اسکے پاس بیٹھنے کی بھی کسی میںطاقت نہ رہی۔ مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا۔ایک روزسرِ شام علماءمیں سے کہا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمینی ہو رہا ہے۔ اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو توبہ کریں۔ بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ سے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی۔جس سے بیماری جاتی رہی۔ صحتیابی کی خوشی میں اس نے بیت اللہ پر ریشمی غلاف چڑھایا۔ شہر کے ہر باشندے کی نذر سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے کئے۔

تبع مدینہ منورہ پہنچا توکتب سماویہ کے علما نے وہاں کی مٹی کو سونگھا، کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، انکے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہیں مر رہیں۔ اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو جب بھی نبی مکرم تشریف لائیں گے تو زیارت کا شرف حاصل ہو جائیگا۔ ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور آپ کے نعلین مبارک کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائیگی۔

یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کیلئے چار سو مکان بنوائے اور بڑے عالم کے مکان کے پاس حضور کیلئے دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کرایا اور وصیت کر دی کہ جب آپتشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو۔ بڑے عالم کو ایک خط لکھ کردیا اورتاکید کی کہ خط نبی آخر الزماںکی خدمت اقدس میں پیش کر دینا۔اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسل درنسل یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سردار رسلکی خدمت میں پیش کیا جائے۔وہ خط نبی کریم کی خدمت اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا۔اس میں تحریر تھا:

”کمترین مخلوق تُبع اوّل حمیری کی طرف سے شافعِ محشر کے نام؛ اے اللہ کے حبیب! میں آپ پراورجو کتاب آپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں۔ پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو غنیمت۔اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائیے گا۔ قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے،میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں۔ آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں آپ اللہ کے سچے رسول ہیں“۔

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد ان چار سو علماءکے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماءکی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس پہنچا ۔ آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلیٰ کی تحویل میں رکھا اور جب حضورنے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی۔ خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے۔سب کا یہی اصرارتھاکہ حضور میرے گھر تشریف لائیں۔آپ کا فرمان تھاکہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر بیٹھ جائےگی وہی میری قیام گاہ ہو گی۔چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبّع نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی تحویل میں تھا۔ اسی میںآپ کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ ابو لیلیٰ کو کہا گیاکہ جاو¿ حضور کو شاہ یمن تُ±بّع کا خط پیش کرو۔جب ابو لیلیٰ حاضر ہوئے تو حضور نے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلیٰ ہے؟ یہ سن کروہ حیران ہوئے۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاو¿ وہ مجھے دو۔ چنانچہ ابو لیلیٰ نے وہ خط دیا، حضورپُرنور نے خط پڑھ کر فرمایا۔”صالح بھائی تُبع کو آفرین و شاباش ہے“۔ بحوالہ کُتب:میزان الادیان۔کتاب الم±ستظرف۔ حجتہ اللہ علے العالمین۔ تاریخ ابن عساکر

یہ ہے شانِ خیرالبشر اور مقام مصطفی‘ جس سے تبّع آپ کی بعثت سے بھی ہزار سال قبل آگاہ تھا مگر آپ کے نعلین مبارک کے صدقے تخت نشین ہونیوالے آگاہ نہیں یا مصلحتوں کا شکار ہوکر آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے منافقتوںکا اظہار کر رہے ہیں یاپھر بصیرت ہی اتنی ہے۔ بصیرت کیا ہوتی ہے‘ وہ بھی ملاحظہ فرمایئے۔

”امام شافعیؒجامع مسجد بغداد میں اپنے شاگردوں ربیع بن سلمان اور اسمعیل بن یحییٰ مزنی کیساتھ علمی گفتگو میں مصروف تھے۔کئی مسافربھی اِدھراُدھر سوئے ہوئے تھے۔امام نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور مشعل کی روشنی میں سوئے ہوئے لوگوں کو اِس طرح دیکھنے لگا جیسے کسی کو ڈھونڈرہا ہو۔امام شافعی کچھ دیر انہماک سے دیکھتے رہے اور پھرربیع سے کہا: ”جاﺅاِس آدمی سے پوچھو کہ تمہارا وہ حبشی غلام جس کی ایک آنکھ ناقص ہے کہیں غائب یا گم تو نہیں ہوگیا؟۔ ربیع اِس اجنبی کے پاس گیا اور امام کا سوال دہرایا تو وہ شخص متعجب ہوکر ربیع کے ساتھ ہی امام کے سامنے حاضر ہوگیا۔ سلام کے بعد بولا:” آپ کے علم میں ہے تو بتائیے میرا غلام کہاں ہے؟“ .... ”وہ تو کسی قید خانہ میں ہوگا“۔امام نے کچھ ایسے یقین کے ساتھ کہا کہ وہ اجنبی اور خوداُ±ن کے ہم نشیں حیرت زدہ ہوکر امام کو دیکھنے لگے۔

وہ شخص اُسی وقت عجلت میں مسجد سے رخصت ہوگیا ۔کچھ دیر بعد وہ شخص دوبارہ آیا اور عاجزی سے بولا:” حضرت! آپ کا شکریہ کہ میرا گمشدہ غلام ڈھونڈنے میں مدد اور رہنمائی فرمائی۔“امام کے شاگرد حیران وششدر سوچ رہے تھے کہ کیا امام کو غیب سے خبریں ملنے لگی ہیں!۔وہ شخص رخصت ہوا تو اسمعیل مزنی نے بیتاب ہوکر پوچھا:” استاد محترم!آپ کو اس شخص کے غلام سے کیا لینا دینا،آپ مکہ سے تشریف لائے ہیں، جان نہ پہچان تو پھر یہ سب کیا ہے؟امام شافعیؒمسکرائے اور فرمایا :”یہ شخص جب مسجد میں داخل ہوا تواس کی چال ڈھال اور تیور بتا رہے تھے کہ یہ کسی کی تلاش میں ہے۔”درست لیکن آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ وہ کسی غلام کو ہی تلاش کررہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے غلام کو جس کی ایک آنکھ میں نقص ہے“۔اِ س بار ربیع نے سوال کیا تو امام ؒ نے کہا:” وہ اِس طرح کہ سوئے ہوئے لوگوں میں یہ شخص اِدھر زیادہ متوجہ تھا جہاں سیاہ فام حبشی سوئے ہوئے تھے اور پھر میں نے محسوس کیا کہ یہ ہر خوابیدہ حبشی کی بائیں آنکھ پر زیادہ روشنی ڈال رہا تھا اِس لئے میں نے اندازہ لگالیا کہ اس کا کوئی ایسا غلام غائب ہے جسکی ایک آنکھ میں کجی ہے“۔

شاگردوں نے اگلا سوا ل پوچھاکہ آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ اُس شخص کا گمشدہ غلام کسی قید خانے میں ہوگا“۔اما م نے کہا”میرا زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ غلام جب بھوکا ہوتا ہے تو چوری کرتا ہے، پیٹ بھرا ہو تو بدکاری کی طرف مائل ہوتا ہے۔سو میں نے اندازہ لگالیا کہ وہ اُن دونوں میں سے ایک حالت کا شکار ہوگا جس کا منطقی انجام قید خانہ ہی ہوسکتا ہے“۔

ہمارے حکمرانوں کی بصیرت ملاحظہ فرمایئے۔ شہبازشریف نے میاں نوازشریف سے مخاطب ہوکر کہا مشیر آپ کو بڑی گاڑیوں اور بڑی دیہاڑی کیلئے غلط مشورے دیتے ہیں۔ اس پر وزیراعظم خاقان عباسی نے کہا میں نے چاروں مشیروں سے پوچھا ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ اس نے نوازشریف کو غلط مشورہ دیا ہے۔

مومن ناموس رسالت پر کٹ مرنے کو اعزاز سمجھتا ہے۔ قانون کا ناک تو نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کیلئے مروڑنا تھا۔ درمیان میں ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرارنامے میں بدلنے کی کیوں سازش کی گئی۔ پتہ نہیں تھا کہ عشاق کا ردعمل کیا ہوگا؟غازی کو پھانسی چڑھانے‘ مرتد کو ہیرو بنانے والوں کا انجام بخیر نہیں ہو سکتا۔ ٹولہ پہلے ہی قہار اور جبار کی گرفت میں ہے۔ ایسی حرکتوں سے قدرت کاملہ کے عذاب کو خود دعوت دے رہا ہے۔ آپ فوج سے نمٹ لیں گے۔ ججوں کا مقابلہ کر لیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ تاہم ایک در کھلا ہے‘ وہ توبہ کا ہے۔ابھی در بدری ہے تبّع جیسے انجام سر دوچار ہوکے راہِ راست پر آناہے۔

متعلقہ خبریں