2017 ,مئی 3
الکا سب حبیب اللہ، کمانیوالا (مزدور) اللہ کا دوست ہے۔ ہم مزدور دوست سال میں مختلف شہروں سے ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے دوستوں کی تعداد تیس کے قریب ہے۔ اس مرتبہ یوم مئی پر میٹنگ کا پروگرام بنایا۔ پروگرام چونکہ یکم مئی سے ایک دو روز قبل ترتیب دیا گیا تھا اس لئے صرف پندرہ سولہ ہی پہنچ سکے۔ اس گیدرنگ کیلئے کلرکہار کامقام طے پایا تھا۔30 اپریل کی رات لاہور سے کلرکہار جانیوالی ٹرانسپورٹ کا کھوج لگانے کی کوشش کی تو یوں لگا کہ وقت پر پہنچنا مشکل ہوگا۔ بڑی بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیاں پنڈی پشاور تک مسافروں کو لے جاتی ہیں، راستے میں نہیں اتارتیں۔ سوچا صبح دیکھا جائیگا۔ لاہور میں ایک دو نہیں، بسوں کے تین بڑے اڈے ہیں‘ بادامی باغ ٹھوکر اور بند روڈ پر موجود اڈوں سے پاکستان کے ہر حصے میں جانیوالی ٹرانسپورٹ دستیاب ہے، سوائے کلرکہار کے۔ صبح سات بجے گھر سے نکلے بند روڈ پر دونوں طرف لشکارے مارتی بسیں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے پہلے اڈے سے پتہ کیا تو ہاکر نے بتایا کہ پشاور جانیوالی بس موٹروے کے سروس ایریا میں اتارے گی، کرایہ پشاور کا نہیں کلرکہار کا لیں گے۔ ٹکٹ خریدی اور بس میں سوار ہو گیا۔ پونے آٹھ بجے روانگی کا وقت تھا۔ عین وقت پر بس روانہ ہو گئی حالانکہ ابھی کچھ سیٹیں خالی تھیں۔ ڈیوو ایکسپریس کی طرح بلال ڈیوو جیسی کمپنیوں نے بھی اپنا اعتماد قائم کیا اور ڈیوو ایکسپریس جیسی سروس دینے کی کوشش کی ہے۔ سٹاف نفیس اور شائستہ ہے۔ گیٹ بند ہوتے ہی ہوسٹس نے مائیک پر سفر کی دعا پڑھ کر منزل کی طرف روانگی کے رسمی کلمات ادا کئے۔ مسافروں کو پہلے سادہ پانی پھر کولڈ ڈرنک اور ساتھ ریفرشمنٹ پیکیج دیا گیا۔ بس میں جہاز جیسا ماحول مسافروں کو بھلا لگتا ہے۔ سفر آرام دہ اور پرسکون ہے۔ بس میں وائی فائی کی سہولت ہے۔ موٹر وے پر بس فراٹے بھرنے لگی تو ہوسٹس نے ہیڈفون ہر مسافر تک پہنچا دیئے ساتھ ہی ٹی وی سکرینوں پر پکچر نظر آنے لگی۔ موٹروے حسین شاہراہ ہے اس کو لش پش کرنے کیلئے جھاڑو بردار جا بجا نظر آتے ہیں۔ راستے میں اگر کبھی ٹی وی سکرین سے نظرہٹے اور خوش گپیوں سے فرصت ملے تو ان کو کام کرتے دیکھیں۔ ایسے لوگ شہروں اور گلیوں بازاروں میں بھی کام کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
کلر کہار سروس ایریا میں اتر کر پنڈی سے آنیوالوں سے رابطہ کیا تو ان کی آمد میں ابھی کچھ وقت تھا ان سے ٹول پلازہ پر ملنے کا طے ہوا۔ ٹول پلازہ سروس ایریا سے ڈیڑھ دو کلو میٹر ہے میں یہاں سے کلر کہار جھیل کی طرف چل نکلا ادھر ادھر گھومتے ہوئے چار پانچ کلو میٹر کے بعد سروس ایریا کے ایک گیٹ پر آ پہنچا جہاں سے مسافر آ جا رہے تھے کوئی ان کو گاڑی میں لینے آ رہا تھا کوئی رکشے میں جانے کیلئے آیا ہوا تھا۔اس دریافت کے بعد ہم نے کئی ساتھیوں کو اس پوائنٹ سے لیا اور روانہ بھی کیا۔ دوستوں میں محمد فاروق اعوان،ان کے صاحبزادے عنصر فارق اورباسل فاروق کے علاوہ عاصم مرزا،نیکم خان،محمداظہار،محمد زاہد،ارشد چودھری،اللہ دتہ،خالد جاوید،ان کا دوست حسن اور خالد جاوید کا بیٹا طلحہ خالد،دھریمہ سے منیر حسین اور محمد حسین شامل تھے
کلرکلہار ایک خوبصورت پرفضا اور بہترین سیاحتی مقام ہے۔ لوکاٹ کے باغات اور آوارہ درخت ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا پھل جوبن پر تھا۔ تخت بابری اس مقام میں اہمیت کا حامل ہے۔ روایت ہے کہ بابر کے کلرکہار میں قیام کے دوران فوج نے ایک چٹان تراش کر اس کے لیے تخت بنایا تھا جواب بھی تخت بابری کے نام سے موجود ہے۔ یہیں پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزارہے، جس کا سبز گنبد ہر آتے جاتے کو اپنی جانب متوجہ کرتاہے۔ یہاں حضرت غوث ملوک کے دوپوتے حضرت محمد اسحق اور حضرت محمدیعقوب دفن ہیں، جو مقامی مسلمانوں کی مدد کے لیے اس علاقے میں آئے تھے اور شہادت حاصل کی۔ اوپر جانا جان جوکھوں کا کام ہے مگر عقیدت مند اوپر چڑھے چلے جاتے ہیں۔
دوستوں نے ڈنر میں باربی کیو کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ہم خود ہی ڈنر کرنے والے اور سرو کرنے والے تھے۔ ایک نے دوسرے کو پلیٹ پکڑاتے ہوئے کہا ’’مور، اس نے کہا نو مور No More۔ اتنا ہی کافی ہے اس پر وہ بولا میں مور نو مور کی بات نہیں کررہا۔ یہ جو بلند آہنگ آوازیں ہیں یہ مور کی ہیں۔ اس وادی میں جنگلی مور گھومتے پھرتے ہیں۔ جنگل میں مور ناچتا کس نے دیکھا۔ آج اس مقولے کی نفی بھی ہو گئی۔ لوگ جنگل میں موروں کو ناچتے دیکھ رہے تھے۔
ہم مزدور کھانا کھا چکے تو ان مزدوروں کیلئے کلمات خیر ادا کئے جن کا دن منایا جا رہا تھا۔ کلرکلہار جتنا خوبصورت علاقہ ہے اتنا ہی یہ حکومت کی طرف سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ جھیل کے اردگرد کا علاقہ کسی جوہڑ کا منظر پیش کرتا ہے۔
جہاں حکومت کی طرف سے بڑے اداروں اور افسروں کیلئے بنائے گئے ولاز کو اہمیت دی گئی ہے بنگلے طرز تعمیر کا عالی شان نمونہ ہیں۔ ان ریسٹ ہائوسز کا وہاں سیر کیلئے جانیوالوں کو صحن بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایک ایک ریسٹ ہائوس اور گیسٹ ہائوس کیلئے عملہ تعینات ہے۔ ان پر شکوہ عمارتوں میں کبھی برسوں مہمان نہیں آتے مگر گھوڑا ہر وقت تیار رکھا جاتا ہے۔ اس شہر میں ایک میوزیم نام کی عمارت بھی ہے۔ جو اپنی زبوں حالی کی بدترین اور بدنما تصویر بن چکی ہے۔ یہ آثار قدیمہ کے تحت ہے جس کے ڈائریکٹر لاہور میں بیٹھے ہیں۔ انکے بعد نگراں اعلیٰ جہلم میں تشریف فرما ہیں۔ میوزیم میں ڈیڑھ سے دو کروڑ سال قدیم ڈائناسور کے فوسل اور قدیم پتھر اور لڑکیوں کے نمونے موجود ہیں۔ بدھ مت اور ہندومت کی مورتیاں یہاں موجود ہیں۔ مگر یہ سب کچھ آپ کو غور سے دیکھنے کیلئے ٹارچ کی ضرورت ہے جو آج کل موبائل فونز میں موجود ہونے کے باعث نواردارت دیکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ وہاں موجود نوجوان سے میوزیم کی کسمپرسی کے بارے میں پوچھا تو وہ صورت حال سے نقاب کشائی پر تیار نہیں تھا۔ اس دوران وہاں ایک مقامی نوجوان مل گیا اس نے کہا کہ اس عمارت کا ذرا میٹر چیک کریں۔ بجلی کا میٹر کٹا ہوا تھا۔ جو چند ٹیوب لائٹس میوزیم کا ماتم کر رہی تھیں وہ چراغ پڑوسیوں کے ’’روغن‘‘ سے روشن تھے۔ میوزیم کے ایک بڑے کمرے کی الماریاں بالکل خالی بھائیں بھائیں کر رہی تھیں جہاں سے سارے نوادرات افسر لوگ اٹھا کر گھر لے گئے یا دوستوں کو تحائف میں دے دیئے۔ میوزیم کے عملے کی تعداد صرف تین ہے ان میں ایک ڈرائیور بھی ہے مگر گاڑی نہیں ہے۔ چند ماہ قبل اس میوزیم اور قلعہ رہتاس سے تمام کنٹریکٹ ملازمین فارغ کر دیئے گئے۔ انہوں نے یوم مزدوراں کس طرح منایا ہو گا؟ یہ بہرحال ہمارے کلرکہار کی سیر کا ایک المناک پہلو تھا۔ ہماری حکومت اس خوبصورت قطعے کو جنت نظیر بنا سکتی ہے غیر ملکی سیاحوں کی دلکشی کیلئے تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔جب ہم قدرت کی حسین شاہکار وادی سے رخت سفر باندھ رہے تھے تو محمد فاروق کولڈڈرنک اور پانی کی خالی بوتلیں سمیٹنے لگے ہم سمجھے شاید روپے میں ایک بکتی ہے اسلئے جمع کر رہے ہیں۔ میں انکے ساتھ کیری ڈبے میں واپس لاہور آیا۔ ساتھ یاسر اور ارشد تھے۔ سپیڈ ستر اور اسی کے درمیان رہی، شیشے کھلے تھے تازہ ہوا اور اسکے تمام اوصاف سے مستفید ہوتے رہے مگر یہ چار گھنٹے اے سی بس کے سفر سے زیادہ خوش کن اور محسور کن تھے کیونکہ یہ دوستوں کی بزم میں سفر تھا۔ فاروق صاحب کی طرف سے خالی بوتلیں سنبھالنے کا سین یہ تھا وہ سفر سے پہلے ان میں ٹھنڈا پانی بھر کے راستے میں خاکروبوں کو بوتلیں تھماتے چلے جاتے ہیں۔ ان کو ایک خاکروب نے بتایا تھا کہ وہ کام پر آتے ہوئے روٹی ساتھ باندھ کر لاتے ہیں اور جہاں سے پانی ملے پی لیتے ہیں۔ اصل مزدور اور اللہ کے دوست یہی ہیں۔ ہم لوگ ہوٹلنگ کرتے ہیں جو کھانا بچ جائے وہ ہوٹل والے ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر یہ پیک کرا لیا جائے تو کسی گارڈ، خاکروب یا کسی بھی مستحق کو دیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ بھی اسی معاشرے میں موجود ہیں جو شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا وہیں بیٹھ کے کھا لیتے ہیں یا بچوں اوروالدین کیلئے گھرلے جاتے ہیں۔
کلرکہار میں جو دوست آئے وہ مختلف کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ کوئی ملازمت کر رہا ہے۔ کوئی زمیندار، کوئی سپر سٹور چلا رہا ہے، کسی کا بلڈنگ میٹریل اور سولر پینل اور یو پی ایس کا بزنس، ہم نے ایک دوسرے کے تجربات کو شیئر اور استفادہ کیا۔ اب اگلے سال ملیں گے۔