چائے کے تین کپ اور تعلیم

2017 ,مئی 10

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2017-05-10/page-15/detail-11

گریگ مورٹنسن کی Three Cups of Tea امریکہ میں کئی سال بیسٹ سیلر بک رہی۔ مورٹنسن نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں کے ٹو سر کرنے پاکستان آیا۔ اس مہم جوئی میں وہ اپنے دوست کو کھو بیٹھا اور خود راستہ بھول کر برف پوش چوٹیوں کی وادی میں بھٹک گیا۔ یہاں تو راست سمت چلنے والوں کی زندگی بھی خطرات کے دوش پر ہوتی ہے بھٹکے ہوئے مہم جو پرخطر راستوں اور موسم کی شدت کے جبر کا زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ درندوں سے محفوظ رہے تو سسک اور تڑپ تڑپ کرموت ایسے لوگوں کا مقدر اور لاش جانوروں اور پرندوں کی خوراک بن جاتی ہے۔ مورٹنسن پرخوف کے سائے لہرا رہے تھے کہ کورپھے گاﺅں میں جا نکلا۔گاﺅں کے لوگوں نے اسکی دیکھ بھال کی۔چند دن میں اسکی صحت بحال ہوگئی۔یہ مورٹنسن کا موت سے زندگی کی طرف نیا سفر تھا۔

بلتی کہاوت ہے کہ آپ ہمارے ساتھ جب پہلا چائے کا پیالہ پیتے ہیں تو اجنبی ہوتے ہیں۔ دوسرے چائے کے پیالے کے ساتھ دوست ہو جاتے ہیں جبکہ تیسرے چائے کا پیالہ ساتھ پینے سے آپ ہمارے خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ گریگ مورٹنسن نے اپنی کتاب ”تھری کپس آف ٹی“ کا نام اسی کہاوت کو بنیاد بنا کر رکھا۔

وہ گاﺅں والوں کا بڑا ممنون ہوا، اس نے ان سے پوچھا۔ ”کوئی خدمت؟ کورپھے کے مکینوں نے کہا کہ انکے بچے علم کی نعمت سے محروم ہیں، ان کیلئے سکول بنوا دیں۔ وہ واپسی کا وعدہ کر کے امریکہ گیا اور ایک سال بعد 1994ءمیں مناسب فنڈز کے ساتھ لوٹ آیا۔اس ایک سال کے دوران اس نےپائنیئر آف پیس اور سنٹرل ایشیا انسٹیٹیوٹ غیر منافع بخش تنظیموں کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ اس نے ایک سکول کی بنیاد رکھی، فنڈریزنگ کرتا رہا ‘کبھی امریکہ میں ہوتا کبھی پاکستان میں کے ٹو چوٹی کے سایوں میں اپنی جان بچانے والے لوگوں کے زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی پلاننگ میں سرگرداں نظر آتا۔ مختصر عرصے میں گریک کی فاﺅنڈیشن کے سکولوں کی تعداد 170 ہو گئی۔ ان اداروں سے مستفید ہونیوالی لڑکیوںاور لڑکوں کی تعدادآج لاکھوں میں ہے۔ دیے سے دیا جلتا جا رہا ہے۔ گو کچھ امریکیوں نے گریک کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، جس کا گریک کے دل پر گہرا اثر کیا تاہم اس کا مشن جاری ہے۔ اس نے 2006ءمیں ”چائے کے تین کپ“ کتاب لکھی۔ اسکی تشہیر کرکے پانچ کروڑ ڈالر کے فنڈ اکٹھے کیا جو مزید سکولوں کی تعمیر پر لگائے۔اسے پاکستان حکومت نے تعلیم میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میںسب سے بڑا سول اعزازستارہ پاکستان دیا۔ اسے نوبل انعام کیلئے بھی نامزد کیا گیا۔

یہ کتاب بہت سے پاکستانیوں نے بھی پڑھی، کسی نے کسی کو گفٹ کی، کسی نے اپنی لائبریری میں سجائی ،کوئی طاق پر رکھ کے بھول گیا۔ کچھ نے انسپریشن بھی لی جن میں نیول چیف ایڈمرل محمد آصف سندھیلا بھی ہیں۔ وہ کہتے کہ ”میں نے سوچا اگر گریگ یہ کچھ کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا؟ انہوں نے اسکے بعد خود کو تعلیم کیلئے وقف کرنے کا عہد کیا اور 2014ءمیں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی گاﺅں سے تعلیمی شعبے میں اصلاح کا آغاز کر دیا۔ وہ اس گاﺅں میں ٹاٹ سکول میں پڑھے اور نیول چیف فور سٹار جنرل کے عہدے تک پہنچے۔

ان کا گاﺅں تحصیل و ضلع شیخوپورہ میں مہمونوالی ہے یہاں انکی تنظیم معاون فاﺅنڈیشن نے گورنمنٹ گرلز اور بوائز سکولوں کو اڈاپٹ کرکے اپ گریڈ کیااور ایک روایتی سرکاری سکول میں جو ممکن اصلاح ہوسکتی تھی وہ اظہرمن الشمس ہے۔ معاون فاﺅنڈیشن کی دعوت ضمیر آفاقی کی سربراہی بروئے عمل کالم نگاروں کے تنظیم ساک نے مہمونوالی کا وزٹ کیا جہاں دوپہر سٹوڈنٹس، اساتذہ عملے اورفاﺅنڈیشن کے چیئرمین آصف سندھیلا کے ساتھ گزاری۔ سکولوں پر کسی ترقی یافتہ ملک کے تعلیمی ادارے کا گماں گزرتا ہے۔یہاں بچوں کی تعلیم کیساتھ تربیت کا بھی اہتمام ہے۔ بچوں اور بچیوں کو ووکیشنل تربیت دی جاتی ہے۔ یہ سکول تنظیم نے اختیار کئے تو رزلٹ 15 فیصد تھا اب محض پونے تین سال میں 100 فیصد ہو گیا۔ طلبہ کی تعداد دگنااور طالبات کی تین گنا ہوچکی ہے۔ لڑکے 391 اور لڑکیاں 358ہیں۔ دونوں سکول آسٹریلیا کے فراہم کردہ سولر سسٹم پر چل رہے ہیں۔ بینک الحبیب نے دوواٹر فلٹریشن پلانٹ لگا کے دیئے ہیں۔ چین نے کلاس روم تعمیر کراکے دیئے، کمپیوٹر لیب اورفرنیچر بھی فراہم کیا۔گرلز سکول میں بڑی تعداد میں لڑکیاں بیوٹیشن کورس کر رہی اور سلائی کڑھائی سیکھ رہی ہیں۔

آصف سندھیلا بتا رہے تھے کہ ہم بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں ‘کسی سے عطیات نہیں لیتے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہے تو سکول میں کمرے تعمیر کرا دے، فرنیچر کمپیوٹر وغیرہ فراہم کر سکتا ہے۔ مہمونوالی سکول میںطالبات کی ایک کلاس درخت کے سائے میں چل رہی ہے۔ ایک کلاس کیلئے ٹینٹ لگایا گیا تھا۔ یہ تنظیم نئے سکول بنانے کے بجائے گورنمنٹ سکولوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے سرگرم ہے۔ طلباءکو یونیفارم کتابیں اور دیگر تعلیمی سہولیات تنظیم کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہیں۔ دوسرے دیہات سے آنےوالے طلباءو طالبات کو ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔ تنظیم تو پورے ملک تک خدمات اور اصلاحات کا دائرہ وسیع کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ ایک سکول سے مہمونوالی سے آغاز کیا اب پوری یونین کونسل میں سات کے سات سکول ایڈ اپٹ کئے جا چکے ہیں۔ زیادہ زور دینے پر پسرور کے دو سکولوں کی ذمہ داری بھی لی گئی ہے۔معاون فاﺅنڈیشن کو سرکاری سکولوں میں یہ مسائل نظر آئے کہ اول تو سکولوں میں ضرورت کے مطابق استاد نہیں ہیں،اگر ہیں تووہ دور دراز سکولوں میں آتے نہیں، اگرآجائیں تو پڑھاتے نہیں،اگر پڑھائیں تو معیار کا فقدان ہوتاہے۔سکولوں میں کمرے،لیب اور واش روم کم ،غیر فعال یا ضرورت سے کم ہیں۔ایم ایف کی ان مسائل کے حل پر نظر ہے۔ سکولوں میں اساتذہ کی تعداد پوری کی جاتی ہے اور انکی تربیت کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

ایڈمرل سندھیلا کے کوئی سیاسی مقاصد اور عزائم نہیں ہیں تاہم وہ سرکاری سکولوں میں بہتری کیلئے حکومت سے رابطہ کرتے ہیں جس کا مرکزی اور پنجاب حکومت کی طرف سے مثبت رسپانس دیا جاتا ہے۔ آصف سندھیلا کو ریٹائرمنٹ پر روایتی طور پر حکومت کی طرف سے انکے عہدے کے شایان شان سفیر سمیت عہدوں کی پیشکش کی گئی اس پر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے مشن سے کمٹمنٹ کا اظہار کیا، وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے معاون فاﺅنڈیشن کیلئے پانچ پانچ کروڑ روپے کے فنڈ کے اجرا کا اعلان کیا گیا جو بتدریج مل رہے ہیں۔ہمارے ہاں عموماً باتیں زیادہ،تنقید اس سے بھی زیادہ کی جاتی ہے جبکہ اصلاح کی طرف توجہ عنقا ہے۔ہم میں سے ہر کوئی کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔

شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

میں نے اس وزٹ کا تذکرہ اپنے دوستوں کی بزم میں کیا تو ٹیوٹا کے ایک افسرملک محمد فاروق جو الیکٹرانکس انجینئر ہیں‘ نے کہا کہ وہ مہینے میں ایک دن ان بچوں کی موٹیویشن اور تربیت کیلئے وقف کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے اپنے ایک کالم میں زیارت میں الہجرہ ریذیڈنشل کالج کا تذکرہ کیا تھا اسکے انرجیٹک پرنسپل کرنل ارشد جاوید ڈوگر نے ایک سال میں وہاں کایا پلٹ تبدیلیاں کردیں وہ لاہور میں اسی معیار کا سکول بنانا چاہتے ہیں،اس کےلئے آٹھ ایکڑ کے پلاٹ کی ضرورت ہے،نسلیں سنوارے کیلئے یہ کوئی بڑی جائیداد نہیں،بہت سے صاحبِ حیثیت لوگ اس کار خیر کی اہلیت رکھتے ہیں مگر سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا،اللہ کی طرف سے جو ملا اس میں سے دینا ہے اور ایسا دیا ہوا ساتھ جائیگا باقی سب ادھر دھرا رہ جائے اور لاد چلے گا بنجارہ۔

 

متعلقہ خبریں