پنڈال سجا ہے،جوش و جذبات عروج پر ہیں۔قیامِ پاکستان کی بنیاد رکھی جارہی ہے شرکا اسکی تکمیل کے سہانے خواب سجائے نعرے لگا اور مسلم لیگ کا پرچم لہرا رہے ہیں۔جی ہاں!یہ 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں جلسہ ہے جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تحریر و تقریر کے ذریعے عوام کو بیدار کرنا ہوگا۔ ان کاموں کیلئے فنڈ زکی ضرورت ہوگی لہٰذا آپ تمام دوست تحریک کیلئے فنڈز دیں۔ اجلاس میں موجود ہر آدمی نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دینے کا اعلان کیا۔ قائداعظم کے سیکرٹری چندہ نو
ٹ کرتے رہے۔ جب تمام لوگ امداد کا اعلان کرچکے تو ایک خوبصورت دراز قدلنگی سر پر سجائے ہوئے نوجوان پچھلی قطار سے اْٹھا، سیکرٹری کو مخاطب کرکے کہا۔’’جتنا چندہ سب لوگوں نے جمع کرانے کا اعلان کیا ہے اسکے برابرمیرا چندہ شامل کر لیں‘‘۔ اجلاس میں شامل تمام رئوسائے پنجاب اور خود قائداعظم محمد علی جناح یہ اعلان سن کر دنگ رہ گئے۔ قائداعظم نے اس نوجوان کی طرف دیکھا اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نواب ممتاز دولتانہ سے پوچھا: یہ نوجوان کون ہے؟ دولتانہ نے کہا: جناب! یہ ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ ہیں۔ اسکے بعد قائداعظم نے پچھلی قطار سے بلا کر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا۔ نواب کالاباغ بڑے سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے۔ گورنری کے دوران انتظامیہ کو ہتھیلی پر سرسوں جمانے جیسے احکامات دیتے جن پر عمل بھی ہوتا۔ انکی ایک سوانح عمری میں لکھا ہے: ڈی آئی جی سرگودہا بنگش کو کہا بارہ گھنٹے میں ’’فلاںمولانا صاحب‘‘ کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردو۔ بنگش نے کہا جناب اتنی دیر میں مشکل ہے۔ پتہ نہیں چل سکے گا کہ کہاں روپوش ہے۔ نواب صاحب نے کہا پھر تمہیں بند کرنا پڑیگا۔ اسلحہ، نفری سب کچھ مانگ سکتے ہو مزید وقت کی گنجائش نہیں۔ اس دور میں لاہور سے 5 سالہ بچہ اغوا ہوگیا۔ نواب صاحب نے SSP کو بلوا کر 24 گھنٹے میں بچہ بازیاب کرنے کا حکم دیا، 24 گھنٹے گزر گئے لیکن بچہ نہ ملا۔ نواب صاحب نے اگلے دن بڑے پولیس افسروںکے بچوں کو منگواکر کالاباغ بھجوا دیا اورکہا، جب تک اغواء شدہ بچہ بازیاب نہیں ہوتا تمہیں بچے واپس نہیں ملیں گے۔ حیران کن طور پر اُسی روز پولیس نے بچہ بازیاب کرالیا۔ ملک امیر محمد کی طرح آج بھی بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار سیاسی اجتماعات میں پارٹی فنڈ میں اس یقین کے ساتھ بھاری رقوم دیتے ہیں کہ بدلے میں بہت کچھ ملے گا۔ 1940ء میں انگریز سے آزادی کیلئے باقاعدہ کوشش کا آغاز ہوا ۔ ایسی جدوجہد کبھی دہائیوں میں ثمر آور ہوتی اور کبھی صدیوں بے ثمر رہتی ہے۔ ایک اعتراض ہوتا ہے، جاگیردار نئے ملک میں اپنے حصے کے حصول اور جاگیریں بچانے کیلئے قائد کی قیادت اور لیگ کے پرچم تلے جمع ہوگئے تھے۔ 1940ء میں نئی مملکت کا فوری قیام محل نظر تھا۔ انگریزوں کی دوسری جنگ عظیم میں معیشت نہ ڈوبتی تو آزادی ہند کی خواب صدیوں نہیں تو دہائیوں پر محیط ہوسکتا تھا۔ بہرحال قیام پاکستان کے یقین کے بعد کچھ نوابوں اور وڈیروں نے اپنی جاگیریں بچانے اور مفادات اٹھانے کیلئے اپنا قبلہ ضرور تبدیل کیا مگر پاکستان کی خاطر قائداعظم اور قائد ملت جیسے لوگوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر نچھاور کردیا۔ قائداعظم نے تو جائیداد،صحت اور زندگی بھی پاکستان کی نذر کردی۔ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ انکے بعد آنیوالے حکمرانوں نے اسے اپنے طمع اور مفادات کی آماجگاہ بنالیا۔ ایک وہ تھے جو نواب امیر محمد خان کی طرح پاکستان کیلئے اپنا دھن پیش کرتے تھے ایک یہ ہیں جن کی اقتدار میں آنے سے قبل وسائل پر نظرہوتی ہے اور اقتدار میں آکر قومی خزانہ انکی نذر ہو جاتا ہے۔عزت کی پروا ہے‘نہ اناکی فکر اور نہ ہی قضاء کا ڈر ۔ ہزار سال قیام کیلئے محلات کا نگر بساتے اور ضروریات کا انبار لگاتے ہیں۔ پل کی خبر نہیں کا اطلاق دوسروں پر کرتے ہیں۔ مگر کسی کی سوچ اور زندگی گزارنے کی اپروچ سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔ عمران خان پانامہ لیکس کا ماتم کرتے ہیں تو حریفوں کے ہاتھ انکے گریبان کی طرف اٹھتے ہیں۔ آپ پانامہ لیکس اگل دیں معاملہ ختم ۔مگر ’’پانامہ لیکس کا حساب دو‘‘ کے جواب میں زبان سے نشتر چلتے ہیں، ڈنڈے اور گنڈاسے نکل آتے ہیں۔ جاتی امرا کا تحفظ اگر لیگی کارکنوں نے کرنا ہے توپولیس کی کیا ضرورت ہے؟ 12 اکتوبر کی صبح یہی لیگی میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔ رات تک تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہے ۔ مارشل لاء کی چھڑی ابھی پڑی نہیں تھی کہ شریفوں کے حلیف ،حریف بن گئے۔ مشرف سے کہہ رہے تھے۔ ’’حساب لو، احتساب کرو‘‘ لوٹ مار کرنے والے ہر پارٹی میں ہیں۔ انکی رعونت اور فرعونیت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ لہجے میں نرمی اور رویے میں لجاجت کاغذات جمع کراتے ہوئے ریٹرننگ افسر کے سامنے یاووٹر کے در پر آتی ہے۔ ووٹر اس وقت ان کو بانیان کے کردار کو فالو کرنے کا کہیں۔ ہزار ہا سال زندہ رہنے کی حسرت کی طرح حکمران کامیابیوں کے جو بھی دعوے کریں مگر گورننس میں کیڑے پڑے نظر آتے ہیں۔ لاقانونیت پاکستان کی تاریخ کے کسی دور سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ قتل، ڈکیتیاں، راہزنی، رشوت، ریپ اور اغواء جیسے گھنائونے جرائم پورے ملک میں ہوتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری منہ زور ہوچکی ہے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کبھی ختم نہیں ہوئیں۔ اغوا کے حوالے سے عدالتوں میں جانے اور میڈیا میں رپورٹیں لانے والے بڑھا چڑھا کر اعدادو شمار پیش کرتے ہیں۔ انتظامیہ بے جا نفی پر مصرہے۔ ایک بھی اغواء کی واردات انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ علاج نواب کالا باغ والا یا پھر جو ایران اور سعودی عرب میں ہوتاہے۔ ایک اغواء کار کو پھانسی لگا کر نعش کھمبے سے لٹکادیں۔ ایک حکمران کے بارے مشہور ہے روٹی مہنگی ہوئی تو اس نے شہر کے دورے کا قصد کیا۔ پہلے تندرو والے کو روٹی مہنگی فروخت کرنے پر تندور میں پھینکوا دیا۔ اگلے تندور پر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ہم بہادر ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اندر سے ڈرپوک ہیں۔ مگر ڈرانے والا ہی کوئی نہیں۔ ہم چوہے‘ کھٹمل، کاکروچ اور لال بیگ سے ڈر جاتے ہیں۔ بندوق کی ضرورت نہیں‘ لاٹھی بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر مصنوعات مہنگی کرنیوالوں، کرائے بڑھانے اور بجری پر لک کے بجائے کالا تیل چھڑک کر نئی سڑک کا افتتاح کرے اور کرانیوالوں کو گڑھوں میں ڈال کر اوپر بلڈوزر چلانے، تندور اور ملز کی بھٹیوں میں مالکان کو پھینکوانے، ٹرانسپورٹروں کو اپنی ہی گاڑیوں کے سامنے لٹانے اور انسانیت کی دھجیاں اڑانے والوں کو لٹکانے کی ضرورت نہیں۔ ڈر اوے سے سب سیدھے ہو سکتے ہیں۔الطاف اور انکی متحدہ کیسے سیدھی ہوئی اور راہ راست پر آگئی۔ کوئی ڈرائے تو سہی گورننس خود بخود بہتر ہو جائیگی مگریہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے اندرخدا کا خوف ہو،انسانیت ہو،ہوس زر نہ ہو، محلات کی تعمیر اور اکائونٹس بھرنے اورٹیکس چوری کرکے آف شورپر آف شور کمپنی بنانے کا خبط نہ ہو۔انسان کا پیٹ دو روٹیوں سے بھر جاتاہے مگر کچھ کا اربوں کھربوں ڈالرز سے بھی نہیں بھرتاوہ صرف قبر کی مٹی ہی سے بھر سکتا ہے