گھرکاپستول

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 19, 2017 | 17:13 شام

تحریر: امجد حسین بخاری

تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ، ہر دوائی کے چھوٹے سے چھوٹے پیکٹ پر بھی جلی حروف میں یہ تحریر لکھی ہوتی ہے۔ مگر ہم نے دوائیں تو کھلی چھوڑ دی ہیں مگر فریزر جس میں کھانا پڑا ہوتا ہے، ٹی وی والا کمرا، اماں کے زیورات والی الماری، بابا کی کتابوں والی شیلف پر وزنی تالے چڑھا دیے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچوں نے فریج سے آئس کریم نکال کر کھانے کی بجائے باہر پڑی ہوئی ادویات کھانا شروع کردیں، ٹی وی پر اصلاحی پروگرام دیکھنے کی جگہ نیٹ کیفیز پربے ہودہ ویب سائٹس کھنگالنے کا طریقہ اختیار کر لیا۔ امی کے کپڑے اور زیورات تو بس میں نہیں رہے ۔بچوں نے بازاروں کا رخ کر لیا جہاں پر کردار کی تعمیر کی جگہ بچے تخریب کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، بابا کی الماری سے علم کی پیاس بجھانے کی جگہ بچوں نے نشے کی محافل میں شرکت کرنا شروع کردی۔

بات یہاں تک رہتی تو کچھ بہتری کا خیال ذہن میں لایا جا سکتا تھا مگر بات حد سےتجاوز کرتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ محترم والدین نے بچوں کو آزادی کے نام پر اپنی توجہ سے محروم کردیا۔ اس بارے میں کبھی نہیں پوچھا کہ بچوں کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ والدین اپنے کمروں میں بیٹھ گئے اور بچے اپنی کتابیں ، موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے ذریعے اپنے کمرے میں بند ہو گئے۔ ان کے درمیان کھانے کی میز پربھی ہفتوں بعد ہی گفتگو ہوتی ہے۔سوشل سائنس کی ایک تھیوری سوشل لرننگ تھیوری ہے۔ جس کے مطابق ایک فرد عمل کرتا ہے اور باقی افراد اس کو دیکھ کر وہی عمل دہراتے ہیں۔ اسی طرح والدین کو دیکھ کر ہی اولاد سبق حاصل کرتی ہے۔ بچوں کے لئے والدین ہی مشعل راہ ہوتے ہیں انہی کو دیکھ کر وہ زمانے کے ڈھنگ سیکھتے ہیں مگر جب والدین اپنے کمروں میں بند ہو کر بچوں کی جانب توجہ نہیں دیں گے تو انہوں نے اسی معاشرے سے سیکھنا ہے ، جہاں قدم قدم پر انہیں راستے سے بھٹکانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں گذشتہ چند ماہ میں بچوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی جانب۔  کراچی کے ایک سکول کے دو بچوں نے شادی نہ ہونے کی وجہ سے خود کشی کی۔ خود کشی کے لئے  دونوں نے "گھر کاپستول" استعمال کیا۔ دسمبر میں گوجرانوالہ کے ایک طالب علم نے خود کشی کی اس کو بھی اپنی جان لینے کے لئے "گھر کا پستول"ہی ملا۔ اب چند روز قبل اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول میں ساتویں جماعت کے ایک طالب علم نے خاتون معلمہ سے یک طرفہ محبت کے بعد دل برداشتہ ہو کر اپنی جان لے لی اور اس نے بھی "گھر کا پستول"  اٹھایا اور اپنی جان کا خاتمہ کرلیا۔یہ تو چند واقعات ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔

طلبہ و طالبات او رنوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں جہاں معاشرتی خرابیاں ذمہ دار ہیں ،وہیں والدین کی عدم توجہی بھی انہیں ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ بچے توجہ چاہتے ہیں، انہیں دھیان درکار ہے، ان کی آرزو والدین کی شفقت ، ہمدردی اور پیار ہے۔ مگر ہم نے جہاں اپنی الماریاں اور فریزرز بھاری تالوں سے بند کر رکھے ہیں وہیں ہم نے اپنی اولادوں کو آزادی کے نام پر اپنی توجہ سے محروم کرکے ان پر ذہنی دباؤ کے بھاری قفل لگا دئیے ہیں۔اگر یہی رویے برقرار رہے تو ہماری اولادیں یوں ہی کبھی شادی نہ ہونے پر اور کبھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے اپنی جانوں کا خاتمہ کرتی رہیں گی۔

لکھاری سپیریئر یونیورسٹی میں ایم فل جرنلزم کے طالبعلم ہیں۔ نوجوانوں کے میگزین ہم قدم کے مدیر رہےاور بچپن سے بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔آج کل قومی اخبارات میں ’’جلتی کتابیں‘‘ کے نام سے تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر لکھ رہے ہیں۔