بے شمار اشتہاری چودھری صاحبان کے ذاتی خدمت گزار ہیں‘ لہٰذا بہتر یہی ہے آپ ”راہ راست “ پر آجائیں ورنہ ۔۔۔۔ یہ دھمکی دے کر کس نامور کالم نگار کو لفافہ صحافی بنانے کی کوشش کی گئی تھی ؟ انکشاف ہو گیا

2018 ,نومبر 18



لاہور (ویب ڈیسک) میں شریف برادران کی منتقم مزاجی ، عدم برداشت اور تکبر کی بات کررہا تھا کہ کس طرح میرے لکھے ہوئے ایک کالم پر مجھ سے ناراض ہوکر انتقامی کارروائیوں پر وہ اترآئے۔ ایم ایس ایف کے ذریعے مجھ پر حملہ کروایا گیا، میری پوری کوشش کے باوجود ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نامور  کالم نگار توفیق  بٹ  اپنے ایک کالم میں  لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا اس ضمن میں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے، مگر پھر یہ سوچ کر میں نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا اس وقت خواجہ شریف لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، انہیں شریف برادران کے گھر کا چیف جسٹس سمجھا جاتا تھا۔ ان کی موجودگی میں انصاف کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، جس چیف جسٹس نے اپنی ایک کتاب میں یہ اعتراف کیا ہو، اسے اس مقام پر پہنچانے والے شریف برادران ہیں، اور کتاب میں ان کی خوشامد کی انتہا کردی ہو، جس کی چیف جسٹس کے زمانے میں شریف برادران کی چٹوں پر ججوں کی تقرریاں اور تبادلے ہوئے ہوں، اس سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی تھی شریف حکمرانوں کے کسی عمل کے خلاف وہ یا ان کا کوئی ماتحت جج کوئی فیصلہ سناد دے؟ ۔ میرے پاس سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا، اس واقعے کے کچھ روز بعد کچھ دوستوں نے وزیراعلیٰ چھوٹے شریف سے اس کا ذکر کیا حسب معمول انتہائی فنکارانہ بھولپن سے انہوں نے فرمایا ” اچھا یہ تو بڑی زیادتی ہوئی ہے ، میرے تو نوٹس میں ہی نہیں ہے “....پھر گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے لیے انہوں نے ایک انکوائری کمیٹی بنادی۔ وہ ”کمیٹی“ آج تک نہیں نکل سکی، مزید انتقامی کارروائیوں کے تحت نوائے وقت میں میرے کالم بند کروادیئے گئے،

 

یہ داستان بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ اک روز مجید نظامی مرحوم کے پی اے جاوید نے مجھے فون کیا کہ ”آپ کل سے کالم مت بھجوائےے گا، آپ کے کالم بند کئے جارہے ہیں “۔ میں نے وجہ پوچھی، انہوں نے فرمایا ”وجہ تو مجھے معلوم نہیں، نظامی صاحب کا یہ حکم ہے “....ممتاز قلم کار جناب ارشاد عارف ان دنوں نوائے وقت میں ڈپٹی ایڈیٹر تھے، ان کے ذریعے پتہ چلا شہباز شریف میرے ایک کالم پر مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں، اس لیے فی الحال کچھ عرصے کے لیے میرے کالم بند کردیئے گئے ہیں۔ ....میں نظامی صاحب سے ملا انہوں نے فرمایا آپ شہباز شریف سے مل لیں، ان کا مطلب جو میں سمجھ پایا وہ یہ تھا ان سے معذرت کرلیں، میں نے بڑے ادب سے ان کی خدمت میں عرض کیا ”سر نوائے وقت کی پیشانی پر لکھا ہے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے “....کیا یہ کلمہ حق جابر سلطان سے پوچھ کر اور اس کی اجازت لے کر کہنا پڑے گا؟“ ....انہوں نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ہاتھ میری طرف بڑھا دیا جس کا مطلب تھا آپ اب جاسکتے ہیں۔ خیر دواڑھائی ماہ تک میرے کالم بند رہے، اک روز تنگ آکر نظامی صاحب کو میں نے خط لکھا، ان سے پوچھا ” میرے لیے اب کیا حکم ہے ؟ میں کوئی اور اخبار جائن کرسکتا ہوں؟

 

 اس کے بعد مجھے ارشاد عارف صاحب کا فون آگیا کل سے آپ دوبارہ کالم بھجوانا شروع کردیں مگر نظامی صاحب کا حکم ہے شریف برادران کے حوالے سے لکھتے ہوئے تھوڑی احتیاط کریں۔ یہ اڑھائی ماہ کا عرصہ میرے لیے بڑا تکلیف دہ تھا، نوائے وقت جائن کرنے سے پہلے میں روزنامہ جناح سے وابستہ تھا، اس اخبار کے مالک بحریہ ٹاﺅن کے مالک ریاض تھے، 2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں ملک میں زرداری کی حکومت قائم ہوگئی، ملک ریاض کے ان سے ذاتی مراسم تھے۔ آج بھی ہیں، مجھے حکم دیا گیا آئندہ آپ نے زرداری کے خلاف نہیں لکھنا، میں نے عرض کیا بات کسی کے خلاف یا حق میں لکھنے کی نہیں ہے ۔ اصل بات یہہے میں جو ٹھیک سمجھتا ہوں لکھ دیتا ہوں، بہرحال میں ملک ریاض کے اس حکم کی تعمیل نہ کرسکا، میں نے لکھنا بند کردیا، .... کچھ عرصے بعد میں مخدوم جاوید ہاشمی کے ساتھ نوائے وقت کے دفتر مجید نظامی صاحب سے ملنے گیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا ”آپ کے کالم کیوں نہیں شائع ہورہے ؟ میں نے انہیں وجہ بتائی، وہ بولے ”اچھا آپ نوائے وقت میں لکھیں“....میں بہت خوش ہوا کہ ایک بڑے ”بہادر اخبار“ میں لکھنے کا موقع مل رہا ہے ۔ نظامی صاحب کے بارے میں ہم نے سن رکھا تھا

 

بڑے بڑے جابر حکمران ان سے ڈرتے ہیں، نوائے وقت جائن کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا یہ ”مشہوری“ انہوں نے اپنے کچھ کالم نویسوں کے ذریعے خود کروائی ہوئی ہے ۔ نوائے وقت میں، میں نے تقریباً تین ساڑھے تین سال لکھا، میں اذیت کے یہ دن کبھی نہیں بھول سکتا۔ خاص طورپر یہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا اک روز عمران خان کو میں نے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا، میں اس موقع پر کچھ سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں کو بھی بلانا چاہتا تھا، میں نظامی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا ”پرسوں عمران خان میرے گھر آرہے ہیں، ازراہ کرم آپ بھی تشریف  لائیے گا۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی اور میری بہت عزت ہوگی“ ،.... میری بات سن کر پہلے تو وہ خاموش ہوگئے، پھر براسامنہ بنا کر بولے ” مگر عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر میری عزت نہیں ہوگی“ ....مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا، میں نے عرض کیا ”سرعمران خان کو تو اللہ نے پوری دنیا میں عزت دی ہوئی ہے “۔میں یہ کہہ کر ان کے دفتر سے نکل آیا، میں ابھی گھر کے راستے میں تھا ان کے پی اے کی مجھے کال آگئی۔ کہنے لگا ”نظامی صاحب کا حکم ہے آئندہ آپ نے اپنے کسی کالم میں عمران خان کا ذکر نہیں کرنا“

 

 ....میں نے پی اے سے کہا ”نظامی صاحب کو بتادیں حکم صرف اللہ کا چلے گا“.... گھر آکر میں نے ان کی خدمت میں اٹھارہ صفحات پر مشتمل استعفیٰ لکھا اور ریس کورس روڈ لاہور میں واقع ان کے گھر جاکر دے آیا۔ کچھ دیر بعد ان کے گھر کے پی ٹی سی ایل سے مجھے کال آگئی۔ آپریٹر نے کہا ”نظامی صاحب بات کریں گے ۔”میں نے کہا میں اب ان سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں “.... پھر نوائے وقت سے برادرم خواجہ فرخ سعید نے مجھے پیغام دیا کہ نظامی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں، میرا دل مگر بہت بجھا ہوا تھا، البتہ نظامی صاحب کی ایک مہربانی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی، میں جن دنوں جناح میں لکھتا تھا چودھری پرویز الٰہی اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کے بارے میں لکھے گئے میرے ایک کالم سے ویسے ہی ناراض ہوگئے جیسے شہباز شریف ہوگئے تھے۔ انہوں نے جناح کے مالک ملک ریاض سے میری شکایت کی۔ ملک ریاض نے مجھے بلایا، نامور کالم نگار جاوید چودھری مجھے اپنے ساتھ لے کر ان کے پاس گئے، انہوں نے جاتے ہی ایک لاکھ روپے کا چیک میرے ہاتھوں میں تھما دیا، اور بولے ”وزیراعلیٰ پرویز الٰہی آپ سے بہت ناراض ہیں۔ ہمیں کچھ عرصے کے لیے آپ کا کالم بند کرنا پڑے گا، مگر اس دوران آپ کو تنخواہ ملتی رہے گی“ ....میں نے معذرت کرلی۔ میں نے عرض کیا ” جب میں نے کالم نہیں لکھنا تنخواہ کیوں وصول کروں ؟۔ مجھے بھیک نہیں تنخواہ چاہیے “ ....انہوں نے جاوید چودھری صاحب سے کہا ”چودھری صاحب آپ انہیں سمجھائیں “.... بہرحال ہم وہاں سے اٹھ کر آگئے .... حکمران تقریباً سارے ہی ایک جیسے ہوتے ہیں تو ان کا غصہ بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے ، چودھری پرویز الٰہی کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ مجھے کئی طرح کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کامونکی سے ان کے ایک وزیر رانا شمشاد میرے پاس آئے اور بڑے طریقے سے مجھے پیغام دیا کہ ”بے شمار اشتہاری“ چودھری صاحبان کے ذاتی خدمت گزار ہیں‘ لہٰذا بہتر یہی ہے آپ ”راہ راست “ پر آجائیں“.... میں نے کہا ” میں تو پہلے ہی ”راہ راست “ پر ہوں“....(ش س م)

متعلقہ خبریں