پارلیمانی قائدین کے اجلاس میں قومی اتحاد کا مُکا لہرایا گیا۔ اس کا اعلامیہ قوم کی آواز اور قومی رہنمائوں کی طرف سے جرأت کا اظہار تھا۔ میڈیا میں یہی کچھ آیا ہے۔ بلاشبہ اس اجلاس کی تاریخی حیثیت ہے ضروری نہیں یہ اجلاس تاریخ ساز بھی ہو۔ پہلے اس اجلاس کی کارروائی اور شرکاء کی فہرست پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جنگ تصور ہو گی۔ بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کے مصمم عزم کی تعریف کی گئی۔
اجلاس میں وفاقی وزراء پرویز رشید، ا
سحاق ڈار، چودھری نثار علی خان، خواجہ آصف، احسن اقبال، سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق، قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ، سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سید خورشید شاہ، سینٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن، شیری رحمن، قمر زمان کائرہ، حنا ربانی کھر اور فرحت اللہ بابر، پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی‘ شیریں مزاری، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور صاحبزادہ طارق اللہ، جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مولانا فضل الرحمن، متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتضیٰ جتوئی، (ق) لیگ کے کامل علی آغا، فنکشنل لیگ کے غوث بخش مہر، عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور اور نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو کے علاوہ انجینئر عثمان ترکئی، غازی گلاب جمال اور پروفیسر ساجد میر نے شرکت کی۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہانواز شریف کی فہم و فراست اور حب الوطنی پر پورا یقین ہے، قومی سلامتی پر ساتھ دیں گے۔ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی مثبت اقدامات اٹھائے مگر بھارت کی جانب سے مثبت اقدامات کا کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم کا بیرون ممالک خصوصی نمائندے بھجوانے کا اقدام قابل تعریف ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب عوام کے جذبات کا عکاس تھا‘ وزیراعظم کو پارلیمانی اجلاس بلانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کی جس کو تمام پارٹیوں نے سراہا مگر ایک تقریر کے بعد وزیر اعظم چپ سادھ کر بیٹھ گئے وزیر اعظم کے خطاب میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ 74 ء میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش میں طے پانے والے سہ ملکی معاہدے پر عالمی براداری سے عمل کرانے کا مطالبہ نہ کرنا ناقابل فہم ہے۔ قوم سمجھتی تھی کہ وزیر اعظم اس اہم ترین ایشو کو بھی عالمی برادری کے سامنے پیش کریں گے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کریں گے مگر انہوں نے ملی غیرت کے اس معاملے پر بھی خاموشی اختیار کی جس سے قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ وزیراعظم نے کئی اہم ترین قومی ایشوز پر بات نہ کرکے قومی امنگوں کا خون کیا۔ شاہ محمود قریشی کو حاشیہ برادری کی جانے کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔ سراج الحق نے اجلاس میں کیا کہا اور میڈیا کے سامنے اس کے برعکس گل کھلا دیئے۔ دہرا معیار اور کیا ہو گا۔ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے وفود دوسرے ممالک بھجوانے ہیں تو سفیروں کو ان ممالک سے واپس بلالیں۔ فاروق ستار کی پذیرائی کی کیا ضرورت؟ وہ کس کے نمائندے ہیں؟ ہنوز الطاف کی گود میں بیٹھے ہیں۔
جس روز یہ اجلاس ہوا، اس دن بھی واہگہ بارڈر پر بھارت سے تجارت کے لئے ٹرکوں کی لائنیں لگی تھیں۔ ڈپٹی چیف رپورٹر نوائے وقت سید شعیب الدین نے اپنی رپورٹ میں لکھا: جمعہ کو بھارت سے 43 ٹرک ٹماٹر اور 3 ٹرک دھاگہ لیکر پاکستان پہنچے جبکہ ہفتہ کو 100 ٹرک ٹماٹر لیکر پاکستان آئے۔ جمعہ کو پاکستان سے 190 اور ہفتہ کو 195 ٹرک چھو ہارے‘ جپسم‘ شیشہ اور سیمنٹ لیکر گئے۔ اتوار کو گاندھی ڈے پر تجارت نہیں ہوئی اگلے دن پھر سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ تجارت بھی پاکستان کے نکتہ نظر سے خسارے کی تجارت ہے۔ یہ تجارت نہ صرف ایسے کشیدہ حالات میں جاری ہے بلکہ چند ماہ سے اس میں 20 فیصد اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ انڈین آلو کھا کر بھالو بننے والوں کے قومی مفاد اور کشمیر کاز سے دلچسپی کا یہ عالم ہے۔
قومی اتحاد کا مُکا لہرانے والے خود اس کاز کے ساتھ کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ اس مجلس میں لوگوں کے کردار اور بیانات سے لگ جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کل کہہ رہے تھے فاٹا میں مقبوضہ کشمیر جیسے مظالم ہو رہے ہیں۔ اچکزئی کا بیان کانوں میں گونج رہا ہے جنگ ہوئی تو چادر اٹھا کے کابل یا وزیرستان چلا جائوں گا۔ جہاں چادر بلکہ زنبیل میں گورنر، کئی وزیر، ایم این اے اور ایم پی اے ہیں۔ کابل میں چادر بچھانی پڑے گی۔ قومی اتحاد کے اس مظاہرے کو عمران خان اور اختر مینگل نے اہمیت نہ دی۔ اسراراللہ زہری تک حکومت کا دعوت نامہ نہ پہنچ سکا۔ شیخ رشید کو ساتھ بٹھانا حکمران پارٹی کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ اسے وزیراعظم کی کم ظرفی سے تعبیر کر رہے ہیں۔
بلاول عمران خان کی کرپشن کے خلاف مہم کو سولو فلائیٹ کہتے ہیں۔ آج قومی رہنما جس طرح بھارت کے خلاف اتحاد کا مُکا لہرا رہے ہیں بعینہٖ کرپشن کے حوالے سے بھی ایسے ہی متحد ہیں۔ کرپشن سے مبرا قومی درد رکھنے والے رہنمائوں کی تعداد 2 فیصد سے زیادہ نہیں۔ عمران خان کو اس مہم میں کرپٹ ذہنیت رکھنے والے لیڈروں نے تنہا چھوڑ دیا۔ نوازشریف کی پانامہ لیکس میں ’’صفائی‘‘ کے بعد باقیوں کی ’’دھلائی‘‘ کے خدشے کے باعث یہ غیر اعلانیہ اتحاد قائم ہے۔ پانامہ لیکس کا جواب دینے سے انکار کرنیوالوں نے بہاماس لیکس کا فوری حساب مانگ لیا۔ ایسا ہی مُکا کرپشن کے خاتمے کے لئے لہرائے جانے کی قوم منتظر ہے۔ دنیا کو وزیراعظم کی زیرصدارت کانفرنس سے کیا ٹھوس پیغام گیا ہوگا؟ کیا دنیا بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو ڈالے گی؟ بھارت کی ڈرامہ بازیاں بند ہوجائیں گی؟ جس دنیا پر قومی اتحاد، یکجہتی اوریگانگت کا ٹھوس پیغام پہنچانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اس دنیا کو ہمارے کردار، اقدار اور قول و فعل کی کیا خبر نہیں ہے؟ ایسی ہزار کانفرنسوں اور اے پی سیز سے زیادہ اہم بھارت کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنا اور تجارت کا خاتمہ ہے۔ بھارت کے جارحانہ اقدامات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ایل او سی پر روز اشتعال انگیزی ہورہی ہے۔ بھارتی لیڈر شپ اور میڈیا زہر اُگلے جارہا ہے اگلے اقدام کے طور پر پاکستانی ہائی کمشنر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے سکتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے ہائی کمشنر کی وہاں اور بھارتی ہائی کمشنر کی یہاں کیا ضرورت ہے؟ کانفرنسوں سے زیادہ بھارت کے ساتھ تعلقات منقطع کرکے دنیا کو زوردار طریقے سے کشمیر کاز سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔